شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Tuesday, December 13, 2005

نقد و نظر

نام کتاب:محسن بھوپالی کے سو شعر

ناشر:ظفر قابل

تعارف:جان عالم

اُردو کے معتبر شاعر محسن بھوپالی کا شعری انتخاب ”محسن بھوپالی کے سو شعر“کے نام سے ایک کتابچہ کی صورت منظرِ عام پرآیا۔محسن بھوپالی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔اگر محسن بھوپالی اپنی زندگی میں صرف ایک شعر

نےرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھئے

منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

کے علاوہ کچھ نہ لکھتے تو بھی اُن کے تعارف کے لئے یہ شعر کافی تھا۔تقسیم سے کٹنے والوں کے لہجے کی کاٹ کا اپنا رنگ ڈھنگ ہے۔ہونا اور ہوناچاہئے کے درمیان سوچنے والوں کے لئے دوہرے عذاب کا اجر ہوتاہے۔محسن بھوپالی بھی اسی جزا کا سزاوار ہے:

ہماری جان پہ دوہرا عذاب ہے محسن

کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے

محسن بھوپالی کے ہاں اگرچہ زندگی کے بہت سے زاوئے اپنے دریچے کھولتے ہیں لیکن مزاحمت کاتو گویا در وا ملتا ہے: مثلاً

وہ جس کے لئے جنگ قبیلوں میں ہوئی تھی

حیرت ہے کہ وہ شخص ہی لشکر میں بچا ہے

میری شناخت مجھ سے طلب کر نہ اے زمیں

پھر زیرِ بحث آئے گا تیرا جواز بھی

تاریخ ہر اک موڑ پہ دیتی ہے گواہی

قدرت کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے

انتخاب”محسن بھوپالی کے سو شعر“جہاں قاری کو شاعر کی عمر بھر کے فکر و تخیل کا نچوڑ فراہم کرتا ہے وہاں ایک لمحے کے لئے یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ شاعرِ موصوف نے آخر یہ اہتمام کیوں کیا۔کیا ایسا تو نہیں کہ وہ قاری کو مطالعے کی طرف مائل کرنے کے لئے اپنے آپ کو کاٹ کر چھوٹا کر رہا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اس انتخاب سے قاری کی قوتِ خرید(کتاب کے معاملہ میں) پر طنز کر رہا ہے کہ لو ہم ارزاں ہوتے ہیں اگر تم پر مطالعہ گراں بار ہو رہا ہے۔اس انتخاب کی قیمت صرف 25روپے ہے جو ایک شاعر کی عمر بھر کی شاعری کا عرق ہے۔مہنگائی کے اس دور میں ایک شاعر اپنے قاری کو یہی مراعات دینے پر قادر ہو سکتا ہے۔

سو شعری انتخاب کے آخر میں جناب فیض احمد فیض مرحوم کے دو خطوط کا عکس بھی ملتا ہے ۔اس کے علاوہ محسن بھوپالی کی ایک نظم اور ایک غزل بھی قارئین کے لئے شاملِ انتخاب ہے۔”کینوس کمیونی کیشنز کراچی“ نے اس انتخاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔

نام کتاب:عکسِ کمال

شاعر:فضل اکبر کمال

تبصرہ:جان عالم

کرنل فضل اکبر کمال کادوسرا شعری مجموعہ”عکسِ کمال کی صورت میں شائع ہوا۔فضل اکبر کمال کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:

”کمال کو زبان پر بھی قدرت حاصل ہے اور اظہار میں بھی وہ بے تکلفی ہے جومعمولی بات کو بھی غیر معمولی کردار عطا کرتی ہے۔“

افتخار عارف کہتے ہیں:

”اُن کی نظمیں مغربی ادب سے اور بالخصوص کلاسیکی انگریزی ادب سے اُن کے تعلقِ خاص کی غمازی کرتی ہیں۔فضل اکبر کمال کو زبان پر ایسی کامل دسترس حاصل ہے کہ جس کے سبب وہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار پوری قوت اور قدرت سے کرگزرتے ہیں۔“

اور محسن احسان کو سنئے:

”فضل اکبر کمال کی شگفتگئی زبان و بیان پر رشک آتا ہے۔“

کتاب کے مطالعے سے جہاں کرنل فضل اکبر کمال کی شاعری کے رنگ کھلتے ہیں وہاں ان شخصیات کی ناقدانہ بصیرت اور حسن ِ نظر کا بھی پتا ملتا ہے۔ہمارے علاقہ (بشمول اُردو ادبی دُنیا )کی محترم شخصیت جناب آصف ثاقب کے تاثرات بھی قابلِ دید و داد ہیں۔اور شاعر کے لنگوٹئے یار جناب ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کا”یار بادشاہ“ تو گویا اُن کی خوش گپیوں کی طرح پرلطف اور معنی خیز ہے۔پہلے اقتباس کوملاحظہ کیجئے، کہتے ہیں:

”کمال اس دور کا نہایت زُود گو، جدید اور قادرالکلام شاعر ہے۔وہ فی البدیہہ اشعار کہنے کا خصوصی کمال رکھتا ہے۔“

اور اسی کے ساتھ متصلہ اقتباس کو دیکھئے:

”جہاں تک شعری معیار کا تعلق ہے میرے لئے تعصب سے بالاتر ہونا ممکن نہیں۔اس لئے میں یہ باب دوسروں کے لئے چھوڑتا ہوں۔“

میرے نزدیک کتاب کے فلیپ اور بڑے لوگوں کی باتیں بعد از کتاب زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور کتاب کا حصہ بننے کی بجائے اگرالگ سے اُن کا بندوبست ہوا کرے تو زیادہ صحت مند ہو سکتا ہے۔قاری کو بڑی شخصیات کے مثبت یا منفی تجزیات کے حصار سے الگ رکھنا چاہئے۔کیوں کہ ان شخصیات کا کہا قاری کو مطالعہ کے وقت اپنے اثر میں لے لیتا ہے اور وہ اپنے زاویہء نظر سے مطالعہ کرنے سے بڑی حد تک دُور کر دیا جاتا ہے۔کتاب، شاعر اور قاری کے بیچ کسی کو حائل نہیں ہوناچاہئے۔

لہذامیں”عکسِ کمال“کوصرف فضل اکبر کمال کے حوالے سے دیکھنا چاہوں گا۔

مجھے کرنل فضل اکبر کمال کی شاعری میں ایک نمایاں چیز نے حیرت زدہ کیا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ کرنل موصوف کے ہاں خصوصاً غزل میں خوبصورت اشعار کے علاوہ ایک اور خوبصورتی بھی پائی جاتی ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ اُن کی(بیشتر) غزلیات کے مصرعے بڑے جاندار ہیں ۔ شعروں کے مصرعوں کو دیکھا جائے تو کوئی شعر ایسا نہیں ملتا جس کا پہلا یا دوسرا مصرع جانداراور شاندار نہ ہو۔یوں لگتا ہے شاعر شعوری اور غیر شعوری علاقے میں اس قدر عجلت سے آتا جاتا رہاہے کہ غیر شعوری یا تخیلاتی علاقے سے دوسرا مصرع لینے کے لئے بھی نہیں رکتا۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں ایک مصرعے میں جذبے کی شدید شدت اور دوسرے مصرعے میں شاعرانہ میکانکی کا تکنیکی رنگ نمآیاں ہے۔میرا یہ تجزیہ اُن کے اُن شعروں پر دال ہے جو(میری ذاتی پسند کے حوالے سے) آدھے خوبصورت ہیں اور آدھے کم خوبصورت۔ورنہ پورے خوبصورت اشعار کو دیکھا جائے تو وہاں شاعر دو مصرعوں میں دو دفعہ ہمیں حیرت اور مسرت سے ہمکنارکرتا ہے۔جیسے یہ اشعار ملاحظہ کریں :

بس اس ڈر سے کہ پتھر ہو نہ جائے

پلٹ کر دیکھتا کوئی نہیں ہے

خوشی کچھ بات کرنا چاہتی ہے

مچا ہے دل میں جو کہرام ٹھہرے

سراب ہے مرے سب منظروں کا پس منظر

عذاب میں دلِ خانہ خراب کیسےنہ ہو

اشکِ مژگاں میں رواں عکسِ کمال

جیسے اک سایا ستارے پر چلے

ٹوٹے ہیں میرے سامنے کتنے ہی آئینے

لیکن مری نگاہ شکست آشنا نہیں

”عکسِ کمال “میں شاعر نے کسی کڑے انتخاب کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ اُنہوں نے اپنا سارا کہا، اپنے قاری کو سونپ دیا، بقول کسے

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

کتاب میں کہیں فوجی زندگی کا عکس ملتا ہے، کہیں فوجی ملازمت کے بعد کی زندگی کا اور کہیں دونوں سے ہٹ کرصرف ایک شاعر کا۔نظموں کے حوالہ سے کچھ کہنے کی بجائے میں قارئین کو اُن کی ایک نظم کا کچھ حصہ پیش کرتا ہوں جسے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فضل اکبر کمال یہاں بھی کمال کرتے ہیں۔

مرا خیال حقیقت کے ہمرکاب نہیں

ترا جمال حقیقت ہے کوئی خواب نہیں

مرا سوال کہ پروردہء حجاب نہیں

ترا کمال کہ تیرا کوئی جواب نہیں

میں بارشوں میں بھی صحرا، سدا بہار ہے تُو

میں واقعات کی تفصیل، اختصار ہے تُو

تعلقات کی منزل کا اعتبار ہے تُو

ہے انحصار مرا جس پہ وہ حصار ہے تُو

چمن نژاد!تُو اب اس گھٹن کی رُت کو بدل

اے گرد باد! نسیمِ تصورات میں ڈھل

اے برف زاد! تعلق کی حدتوں میں پگھل

اے خوش نہاد! اُتر مجھ پہ بن کے تازہ غزل

(پیام سلام)

فضل اکبر کمال کے ہاں روایت سے بغاوت بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے ۔لگتاہے وہ اُردو زبان کو امیر دیکھنا چاہتے ہیں۔صوتی قوافی کے علاوہ محاورات و ترکیبات میں رٹے رٹائے اصولوں سے انحراف کو بھی جائز سمجھتے ہیں ۔اور ہونا بھی یہی چاہئے۔غالب و میراگر اختراعات کو آئین بنا سکتے ہیں تو اُردو میں بعض ترمیمات کا آج کے شاعر و ادیب کو بھی حق ملنا چاہئے ۔یہ تو دور ہی ترمیمات کا ہے۔(جملہ معترضہ)

میں نے آغازِ کتاب میں فضل اکبر کمال کے بارے میں کہا ہے کہ تخلیق کبھی بُری نہیں ہوتی۔بس قاری کو اُس ایک لمحے کا میسر آنا ضروری ہے جہاں تخلیق کار اُس شعر کے جنم لےنے کے وقت موجود تھا۔اگر قاری اُس فضا کا ادراک کر لے یا شعر اُسے اُس علاقے میں لے جانے میں کامیاب ہو جائے تو وہاں تخلیق کار کے ساتھ قاری بھی سر دھنے گا۔

تخلیق اپنے خالق کو معتبر بنا دیتی ہے۔تخلیق سب سے بڑے خالق کے تخیل کامزا ہے جسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ قاری پیشہ ورنقاد نہ بنے کہ میری نظر میں پیشہ ور نقادوہ بدقسمت فرد ہے جو ادبی فضا میں رہتے ہوئے بھی ادبی چاشنی کا حظ نہیں اٹھاپاتا۔اور میں نے کبھی یہ بھی کہا تھا کہ ایسا پیشہ ور نقاد اُس مکینک کی طرح ہوتا ہے جس کا دھیان انجن کے پرزوں کی طرف مبذول رہتا ہے اور جو لانگ ڈرائیو کا مزا نہیں لے سکتا۔

کرنل فضل اکبر کمال نے اپنی زندگی میں جن محسوسات کو شعر کیا وہ قابلِ قدر ہیں اور خوبصورت بھی ۔اور خوبصورتی کا ایک اپنا مزا ہے، اپنا حسن ہے۔

کم و بیش دو سو صفحات کی اس خوبصورت کتاب کی قیمت150 روپے ہے۔اور اس کی اشاعت کا اہتمام شعروسخن پبلی کیشنز نے حرف اکادمی کی وساطت سے کیا۔

نام کتاب:خواب نظمیں

شاعر:تنویر احمد

تبصرہ: جان عالم

تنویر احمد کا شعری مجموعہ”خواب نظمیں“منصہ شہود پر آیا۔آغازِ کتاب میں شاعر ”گزارش“کے عنوان سے اپنے ابتدائیہ میں تخلیق کار کی ذمہ داری اور شعوری تربیت پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں ؛

”انسانی سفر کی موجودہ منزل پر شاید ضروری ہو گیا ہے کہ تخلیق کار انسانیت کے اجتماعی لاشعور میں چھپے ہوئے اور آشکارArchetypesسے نجات حاصل کرنے میں آج کے انسان کا ہاتھ بٹائیں۔“

شاعر انسانی ارتقاءاور روایت کے درمیانی مخمصے میں کسی تخلیقی فارمولے کی دریافت میں گم ہے۔اور وہ تخلیق کار( خصوصاً شاعر) کو معاشرے کا سب سے بڑا مصلح قرار دیتا ہے جو عام لوگوں کی شعوری سطح کو بلند کرنے کا ذمہ دار ہے ۔اور انہی خطوط پر استوار ہونے والے ادب کو شاعر ”بڑا ادب “ قرار دیتاہے۔گویا تنویر احمد شعوری ارتقاءیا شعوری ارتفاع کا قائل و مائل نظر آتا ہے۔موصوف کی نظموں سے اُس کے نظریات کی جھلک آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ جو سناٹا ملا ہے

تمہیں کچھ کرنے کو

دشتِ بے خواب کے رنگ

آج کی شب اوڑھ کے سو

تاکہ بھر جائے نہ وحشت

تری آنکھوں کے سراب

تا کہ ہو جائے رقم

عمرِ گریزاں کی کسی ایک گھڑی کا حاصل

مصحفِ وقت پہ

سیاہی کے دھڑکنے سے

زیادہ کوئی آواز نہ ہو

دل کی دھڑکن کے سوا ساز نہ ہو (آخری نظم:صفحہ39)

شاعر تخیلاتی دُنیامیں خیالی گھوڑے دوڑانے کا قائل نہیں ہے۔وہ اپنے ارد گرد کے حقائق کو بڑی شدت سے محسوس کرتا ہے اور دوسروں کو احساس دلانے کی پوری کوشش بھی کرتا ہے۔

اور جب قفل ِکلام اس بار ٹوٹا ہے تو ہم

اپنی اپنی آرزوؤں کے جواں پنجر اٹھائے

مقتلوں کی سرخ دہلیزوں پہ بیٹھے منتظر

پھر کسی عیسیٰ کے حرفِ قُم کا آوازہ لگے

کہف میں پھر سے کوئی جادو کرے

کان میں پھر سے کوئی اقراءکہے (نظم:17 اگست 1988صفحہ39)

”خواب نظمیں“نیندیں اُڑانے کا ایک عمل ہے ۔شاعر کی ایک پر خلوص کوشش ہے کہ جو محسوس کرتا ہے اُس کا ابلاغ بھی چاہتا ہے اور اُس کی تبلیغ و ترویج بھی۔لیکن وہ واعظ کی طرح خشک بیانی پر نہیں اُترتا۔وہ چھو کر گزر جاتا ہے، خوشبو کی طرح

تم اپنی آنکھوں کے سب کواڑوں کو بند کر لو

تو پھر بھی گزرے دنوں کی خوشبو

بس ایک چہرے کا رنگ لے کر

ہر ایک رگ میں رچی رہے گی

تم اپنے خوابوں کو بھی سلا دو

تم اپنے کانوں کی سلطنت کی

حدوں پہ پہرے بٹھا کے دیکھو

وہ اک تصور۔ وہ ایک چہرہ

حقیقتوں کا سفیر بن کر

گئے دنوں کا پیام لے کر در آرہے گا (نظم:محبت، صفحہ 94)

کتاب”خواب نظمیں “میں غزل کی شمولیت عجیب لگتی ہے لیکن تنویر احمد غزل کو نظم کرنا جانتا ہے اور آپ کو بھی بتانا چاہتا ہے :آپ بھی سنئے:

حسابِ دوستاں رکھا نہ جائے

گماں اندر گماں رکھا نہ جائے

کچھ ایسی بے امانی ہے کہ صاحب!

زمیں پر آسماں رکھا نہ جائے

٭

تمہارے شہر میں آنے کے ڈر لگے ہوئے ہیں

بلائے جاں کو ابھی کتنے سر لگے ہوئے ہیں

دراز دستِ دعا ہے برائے کارِ جہاں

اگرچہ بنتا نہیں کام ، پر لگے ہوئے ہیں

سبھی گھروں سے اماں چھین لی گئی ہے مگر

گھروندے باندھنے والے نڈر لگے ہوئے ہیں

ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز تنویر احمد کاکتاب کے فلیپ پر سادہ سا تعارف اور کسی ادبی شخصیت کے مانوس جملوں کے بغیر کتاب زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے ۔شاعر کو اپنے کہے پر اعتماد ہے اور وہ قاری اور کتاب کے درمیان کسی وسیلے اور واسطے کا قائل نظرنہیں آتا۔مبارکباد۔

خوبصورت گٹ اپ میں ”خواب نظمیں “کی اشاعت کا اہتمام مثال پبلیشرز فیصل آباد نے کیا۔کتاب کی قیمت 140روپے ہے۔

٭

نام کتاب:کہانی ریت کی سلوٹ

افسانہ نگار :احمد اعجاز بھلر

تبصرہ: فیاض عزیز

احمد اعجاز کے بارہ افسانوں پر مشتمل افسانوی مجموعہ حال ہی میں مثال پبلشنگ لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہوا ہے ۔کتاب کا سرورق، کاغذ، گٹ اپ خوبصورت ہے۔پشت پر ملک کے نامور افسانہ نگار جناب محمد حامد سراج کا تجزیہ خاصے کی چیز ہے۔افسانے پر جتنی گہری نظر اور گرفت جناب حامد سراج کی ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ۔وہ یقیناً اس صنف کے بڑے ناقدین میں سے ہیں اور ان کے تجزئے کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات بہت آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ احمد اعجاز افسانے کی دُنیا میں ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح داخل ہوئے ہیں اور انہوں نے چند افسانے یقیناً اپنی عمر سے بڑے لکھ ڈالے۔اُن کا اسلوب نیا ہے اور بہت حد تک فارمولا کہانیوں سے ہٹ کر بھی۔اُس کی زبان سہل بھی ہے اور رواں بھی ۔اور وہ شدتِ تاثر کو ابھارنے میں بھی کامیاب رہے ہیں ۔لیکن یہی شدت اکثر مواقع پر ایک گہری قنوطیت میں ڈھل جاتی ہے۔اُن کی تقریباً ساری کی ساری کہانیاں المیہ ہیں۔اُمید اور روشنی کی کوئی کرن اُن کے ہاں پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی ۔یاس اور نااُمیدی کا یہی احساس اُن کی کہانیوں کو داغدار بھی کر جاتا ہے ۔

ہمارے سماجی روئیے کچھ بھی سہی لیکن اُمید اور رجائیت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے۔زندگی صرف دکھوں اور کلفتوں کا نام ہی نہیں اس میں خوبصورتی اور رعنائی بھی ہے ۔اور میرے خیال میں خوبصورتی اور راحت کا احساس زندگی کے تاریک پہلؤوں پر حاوی رہنا چاہئے۔یہ سچ ہے کہ احمد اعجاز ایک حساس فنکار ہے ۔اُس نے زندگی کو جس طرح دیکھا اُس کی تصویر کشی اُسی طرح کرنے کی کوشش کی ہے ۔اُس میں ایک اچھے افسانہ نگار کے محاسن اور اوصاف موجود ہیں۔اور جوں جوں وہ آگے بڑھے گا زندگی کے کئی روشن پہلو بھی اُسے اپنی جانب کھینچیں گے۔اور یہی وہ وقت ہوگا جب وہ زندگی کا حقیقی عکاس بن جائے گا۔

افسانوی مجموعہ”کہانی ریت کی سلوٹ “127صفحات پر مشتمل ہے اور اس کتاب کی قیمت 120 روپے ہے۔

نام کتاب :پانچ منٹ کی زندگی

افسانہ نگار:خالد فتح محمد

تبصرہ: جان عالم

جناب خالد فتح محمد کا افسانوی مجموعہ ”پانچ منٹ کی زندگی“شائع ہوا۔افسانہ نگار کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ

”خالد فتح محمد جدید افسانے کے مزاج آشنا ہیں۔وہ نہ تو نظرئے کی بالا دستی کے لئے افسانے کو ایک مہرہ بنا کر پیش کرنے کے حق میں ہیں اور نہ ہی یہ چاہتے ہیںکہ افسانہ محض کہانی کے اکہرے بیانئے تک محدود رہے۔وہ دراصل کثیر المعانیاتی بیانئے کے قائل ہیں۔“

بلا شبہ افسانہ نگار جدید افسانے کے مزاج آشنا ہیں۔افسانہ اور کہانی کا تکنیکی فرق ایک الگ بحث ہے ۔میرے نزدیک اُن معیارات کے علاوہ افسانہ یا کہانی کا ایک دوسرا معیار بھی ہونا چاہئے اور وہ اصناف کے مروجہ محاسن سے کہیں بڑا معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔اور یہ دوسرا معیار افسانہ نگار کی فکرو فلسفہ کا اظہارہے۔ہم بچوں کو سلانے والی کہانیوں یا افسانوں کے دور سے نکل گئے ہیں۔آج بچے جاگتے ہیں اور بڑے سو رہے ہیں ۔افسانہ یا کہانی کے مجموعی تاثر کو قبول کرنے کے لئے قاری کے پاس فرصت ہی نہیں رہی ۔اُسے اب گاہے گاہے جگانے اور چونکانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔اس کے لئے افسانہ نگار یا کہانی کار کو کسی پلاٹ، آغاز، کلائمکس اور اختتام کے بعد ایک لطیف سا اشارہ کرنا ناکافی سا لگتا ہے اب ہر جملہ ایک نشتر کی نوک کی طرح خوابیدہ شعور میں چبھانا ضروری ہو گیا ہے ۔اور خالد فتح محمد کے ہاں مجھے اس دوسرے معیار کا احساس ہو رہا ہے۔کچھ اقتباس دیکھئے ۔

فہمیدہ کو اُس دن احساس ہوا کہ اُسے اپنے خاوندسے محبت نہیں تھی۔وہ سترہ برس ایک زندگی جیتے رہے تھے۔۔احسان میں کوئی کمی نہیں تھی۔بطورِ خاونداور انسان۔فہمیدہ نے اپنے حصے کی زندگی کو کبھی نہیں سمجھا تھا، دو زندگیوں نے مل کر اپنے لئے ایک سمت تعینّ کر لی تھی اور وہ اسی ڈھلان پر چلے جا رہے تھے۔(افسانہ :فرق)

گرمیوں میں وہ باہر سوتیں۔گلی اُن کے گھر کا صحن تھا۔(افسانہ :وہ دونوں)

اُس نے آئینے میں مونچھوں کی جڑوں کو غور سے دیکھا ۔جب اُسے یقین ہو گیا کہ ہر بال جلد کی سطح تک رنگا گیا ہے تو اُس نے آئینہ پرے کیااُس نے احتیاط سے پگڑی سر پر رکھ کر ایک دفعہ پھر آئینہ دیکھا، باہر نکلتی آہ کو اندر کے کنویں میں ڈبویا اور اکڑکر پنچایت کی طرف چل پڑا۔(افسانہ:وراثت)

وہ باہر بھیڑ میں گم ہو گیا۔اُس نے کود کو ایک تنکا محسوس کیا جو دریا کی بپھری موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔کندھے اُسے کھے رہے تھے اور وہ ان چپوؤں کے دباؤ سے ادھر اُدھر مڑتا رہا۔(افسانہ :ترتیب)

خوبصورت گٹ اپ میں خالد فتح محمدکے اس افسانوی مجموعہ”پانچ منٹ کی زندگی “کی اشاعت کا اہتمام ادراک پبلی کیشنز نے کیا۔کتاب کی قیمت 100 روپے ہے۔

نام کتاب:نشانِ منزل

مصنف: سید زبیر مشہدی

تعارف: جان عالم

سید زبیر مشہدی کے دو شعری مجموعے”آیا تیرا خیال “اور ”آغوشِ وفا“حال ہی میں منظر ِ عام پر آئے اور ادبی حلقوں سے تحسین و داد وصول کر چکے ہیں ۔شاعر ِ موصوف کی تیسری کتاب”نشانِ منزل“مضامین کامجموعہ ہے ۔آغازِ کتاب میں پروفیسر محمد زمان مضطر صاحبِ کتاب کے بارے میں کہتے ہیں؛

”کتاب زیرِ نظر ”نشانِ منزل“سید زبیر مشہدی کے رشحاتِ قلم کا شاہکار ہے۔یہ کتاب اُن کے چھ مضامین پر مشتمل ہے۔پہلا مضمون”علومِ شرقیہ کے محسنِ اعظم “ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت اور ادبی خدمات سے متعلق ہے۔دوسرا مضمون ”عصرِ حاضر میں استاد کا مقام ہے۔اس کے علاوہ حفیظ جالندھری بحیثیت مورّخِ اسلام اور حفیظ و انیس کا موازنہ جیسے موضوعات پر بھی مضمون کتاب میں شامل ہیں۔

سید زبیر مشہدی برِ صغیر پاک و ہند کے عظم المرتبت استاد ۔محقق، ادیب اور نقاد ڈاکٹر سید عبداللہ کے فرزند ہیں۔اور یہ سید زبیر مشہدی کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری پر یہ تاثر منکشف ہوتا ہے کہ اس کتاب کو نشانِ منزل کا جو نام دیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے ۔آج واقعی مسلمان قوم اپنی منزل سے بھٹک چکی ہے۔اقبال فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک مسافر اور راہی ہے۔مسافر اور راہی کا کام اپنی منزل کو تلاش کرنا ہے ۔

جناب سید زبیر مشہدی نے تلاشِ منزل کے لئے جن نقوش کا انتخاب کیا ہے وہی نشانِ منزل ہیں۔“

بلاشبہ اس کم مائیگی کے دور میں ہمارا معاشرہ جس طرح اپنی منزل سے دُور ہوچکا ہے اُسے سنبھلنے کے لئے کسی مصلح کی اشد ضرورت ہے ۔ایسا مصلح جو بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے کر جائے ۔جو ہمیں اُس سمت کی طرف رہنمائی کرائے جو ہماری گم گشتہ منزل کی طرف جاتی ہو۔ڈاکٹر سید عبداللہ، حفیظ جالندھری یا ایسے ہی دوسرے نام جو صاحبِ کتاب نے زیرِ بحث لائے، اس سمت کے تعیّن میں سنگِ میل کی طرح ہیں ۔

سید زبیر مشہدی نے ان مختصر مگر جامع مضامین میں قاری کو سنجیدہ کرنے کی ایک کوشش کی ہے ۔تاکہ وہ اس بدمستی سے باہر آکر ایک لمحے کے لئے صورتِ حال کا احساس کرپائے۔”عصرِ حاضر میں استاد کا مقام“سید زبیر مشہدی کا تاریخی تناظر میں ایک اہم مقالہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

123 صفحات کی اس کتاب کی قیمت صرف 80 روپے ہے جو اپنی افادیت کے لحاظ سے نہایت کم معلوم ہوتی ہے۔اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام شعروسخن پبلی کیشنز مانسہرہ نے کیا۔

٭٭٭