شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

شمارہ۔۔26

مشمولات

زلزلہ اکتوبر 2005 پر مخصوص شاعری

نذیر تبسم کی غزل میں فکری اور شعری رویے۔۔ طارق ہاشمی
امیر حمزہ شنواری کی اہم صوفیانہ تصنیف...عامر سہیل

قفا نبک سے ”رکو کہ رو لیں “تک۔۔۔۔۔۔۔۔صوفی عبدالرشید

منزّہ یاسمین کا مقالہ ۔۔۔چند وضاحتیں۔۔حیدر قریشی

جوگی۔۔۔ وقار مسعود خان

شاعری:

پروفیسر غفار بابر

افضل گوہر

طالب انصاری

اختر رضاسلیمی

انجم جاوید

سید معرفت ہمدانی

نذیر اے قمر
حصیر نوری اورافتخار بیگ
مسعود تنہا
عاصم شہزاد
کاشف بٹ

گیلی دھوپ ۔۔۔افضل گوہر

کنارے ٹوٹ نہ جائیں۔۔شبہ طراز

کب تلک؟۔۔۔۔توقیر علی ترمذی

ادھورا خواب۔۔۔ اظہر نقوی

نقد ونظر

ایڈیٹر کی ڈاک



ایڈیٹر کی ڈاک

برادرِ عزیز جان عالم

دعائیں

عجب پر محن لمحات ہیں ۔غم و الم کے اثرات سے لبریز دن رات ہیں ۔اللہ تعالیٰ زلزلے میں جان بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو پسماندگان ہیں انہیں صبر کی توفےق فرمائے۔یہ زلزلہ بچ جانے والوں کے لئے انتباہ ہے۔

شعروسخن کا ستمبر تا نومبر کا شمارہ مل چکا تھا۔جستہ جستہ پڑھ بھی چکا ہوں ۔اداریہ سوچ کا نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔اس شمارے میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا مضمون” مرزا غالب کا خودنوشت خاکہ “(تحقیےق و ترتیب)خاصے کی چیز ہے۔یہ بڑا دقت طلب کام تھا، جسے ڈاکٹر صاحب نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ مستند حوالوں کی مدد سے مکمل کیا ہے۔احمد حسین مجاہد کا مضمون ”سانسوں کا سنگیت“میں نے دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔چونکہ میں نے پری میٹرک تک ہندی اور سنسکرت اضافی مضمون کے طور پر پڑھی تھی ۔نصاب میں تلسی داس ، کبیر اور رحیم خانِ خاناں کے دوہے بھی تھے ۔اس لئے دوہے کے فن کی تھوڑی بہت آگہی ہے۔ہمارے عہد کے بعض شعراءدوہے کے آہنگ اور وزن میں تصرف کر کے کتنے ہی تجربے کر لیں لیکن اصل وزن میں کہے ہوئے دوہے ہی ”دوہا نگاری“ کا حق ادا کرتے ہیں ۔طاہر سعیےد کا درجہ ذیل دوہا مضمون ، آہنگ اور وزن کے لحاظ سے دوہے کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔

چکی نائیں دیکھتی گہیوں ہے یا گھن

وہ تو جانے پیسنا ، ایک ہی اُس کا گن

حصہ نظم بھرپور ہے۔اس لحاظ سے بھی کہ ایک ہی شمارے میں بتیس غزلیں اور چودہ نظمیں شریک اشاعت ہیں ۔بعض شعراءمثلاً وحید احمد ، محمد حنیف اور حسن عباسی کی غزلیں ندرت اور تازگی لئے ہوئے ہیں ۔حصیر نوری ، صابر عظیم آبادی اور پرویز ساحر کی غزلیں لائقِ تحسین ہیں ۔صابر عظیم آبادی نے مشکل قافیے میں غزل کہی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے صوتی قافیے کا سہارا بھی نہیں لیا ہے۔ورنہ عام طور پر شعراءنشاط ، بساط کے ساتھ ساتھ رات اور بات کا قافیہ بھی استعمال کر لےتے ہیں ۔شاہد مجید کا یہ شعر پرانے مضمون کو نئے رخ سے کہنے کی عمدہ مثال ہے۔کیا خوب شعر کہا ہے :

نجانے کون سا لمحہ جدا کر دے ہمیں پھر سے

اسی امید پر ملتے رہے ہم عمر بھر دونوں

دو ایک غزلوں میں مشہور اشعار کا پرتو نظر آیا ۔شعراءکوحتی الامکان ایسے مضامین سے گریز کرنا چاہیے۔

مجھے تو ساتھ لئے پھرتی ہے سڑک شب کی

کہ میرا گھر ہی نہیں ہے جو میں بھی گھر جاتا

(مرتضیٰ اشعر)

بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا

کاش ہمارا بھی گھر ہوتا ، گھر جاتے ہم بھی

(انور شعور)

کبھی تو خود کو بھی آتے میسر

کبھی ہم بھی ہمارے ساتھ پھرتے

(رستم نامی)

راقم الحروف نے بہت پہلے کہا تھا:

عمرِ مصروف کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا

میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا

تمہارا یہ شعر پڑھ کر لگا کہ صوفی ہوتے جا رہے ہو۔

پھر دیکھتا کبھی نہ کسی اور کی طرف

اک بار دیکھ لیتا اگر خود کو تُو کبھی

دو اشعار میں قوافی بنانے کا عمل بھی نظر آیا ”بھوک بھی“ کی داد دی جا سکتی ہے۔لیکن کبھو کبھی سے بات نہیں بن پائی۔

والسلام۔دعا گو

:محسن بھوپالی۔کراچی۔

عزیز محترم السلام علیکم!

باوجود کوشش کے آپ سے ٹیلی فون پر رابطہ نہ ہو سکا ۔مقصود آپ کی ، آپ کے متعلقین کی اور مانسہرہ کے احباب کی خیریت معلوم کرنا تھی۔زلزلہ نے جو قیامت مچائی ہے اُس سے ہم سب متاثر ہیں ۔وہ خطۂ زمین کہ بہشت آثار تھا، جہنم زار بن گیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے۔ہزاروں کو موت نگل گئی ۔اور لاکھوں کھلے آسمان تلے بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔عزیزِ من! کیفیت وہ ہے نہ پڑھا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے۔بس یہیں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔دعا ہے کہ ربِ کریم اس ابتلا میں ہمیں اپنے خاص کرم سے نوازے اور پامردی سے اس کا مقابلہ کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔اُس کی بارگاہ سے آپ کے متعلقین ، جملہ دوستو، اہلِ علاقہ ، اہلِ وطن ، امتِ مسلمہ اور پوری انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا طلبگار ہوں ۔مطلع کیجئے کہ آپ اور آپ کے متعلقین کیسے ہیں ۔نہایت عجز کے ساتھ : ربنا تقبل مناانک انت السمیع العلٰم۔ خیر اندیش صوفی عبدالرشید

بیروٹ

جان!

خط ملا۔لوگ بھاگ دوڑ میں تھے۔سو وہ بھٹکتا رہا۔بہت دن ہوئے اُسے آئے ہوئے اور آج مجھے کسی نے دیا۔میں جب لکھنے پہ آتا ہوں تو جہاں تہاں کچھ نہ کچھ لکھتے ہی رہتا ہوں ۔اسی طرح کے کسی وقت کا لکھا میرے جیب میں محفوظ رہا ۔ڈاکخانے میں لفافے نہ تھے سو ننگا(پوسٹ کارڈ کی صورت)ہی بھیج دیا۔خیرکون پڑھتا ہے لکھے ہوئے کو۔زلزلے کو اگر آپ عذاب کہتے ہیں تو لکھتے ہوئے یہ عمل کرنے سے یہ ٹل بھی سکتا تھا۔بالاکوٹ میں میرے چند دوست تھے ، میں وہاں گیا۔اُن میں ایک”دوستوں کے درمیان وجہ دوستی“تھا ، سکول کی چھت تلے دب گیا، مر گیا۔میں اُس کی قبر پہ پہروں بیٹھا رہا۔دوسرا دوست شاہ زمان جس کے گھر کے نو افراد مر گئے ، کہتا تھا کہ میں بھی مر گیا ہوں مگر طاہر الہٰی کی طرح میری قبر نہیں بنی۔میں نے سوچا میں کیوں نہیں مرا کہ جس وقت میں زمین پہ جھولا جھول رہا تھا تو اُس وقت طاہر الٰہی چھت کے تلے دبا ہوا تھااور شاہ زمان کے گھر کے نو افراد مر رہے تھےبہت لوگ مر گئےبہت سے لوگ اپاہج ہوگئے۔امریکہ آگیا امداد آگئی۔سنا ہے امریکی فوجی جب کوئی لاش نکالتے ہیں تو اُس کا ماتھا چومتے ہیں ۔ہم آپ تو زندوں کے دشمن اور مردوں کے مرید ہوتے ہیں ، مغرب میں مردہ پرستی ہے نہ مردہ پرستاری، پھر یہ کھیل کیوں ؟تو کیا یہ ناممکن ہے کہ آخر آخر امریکہ بہادر اپنے دو چار ہیلی کاپٹر گرا کر الزام لگا دے کہ القاعدہ نے دیکھیں کیا کر دیا ۔تب تو ساری دنیا کہے گی ، دہشت گردوں سے بچاؤ، وہیں رہو۔ہماری سادہ دلی راہ ہموار کرے گی۔ہم تو قبر پہ ٹنگی سبز رنگ کی چادر سے بھی امیدِ وفا رکھتے ہیں وہ تو جیتی جاگتی طاقت ہے۔پھر یوں ہوگا کہ ہم رہیں گے مگر ہم ہم نہیں رہیں گے۔وہ ایٹم بم ہمارا کون سنبھالے گا۔تو بھی چچا سام کو دے دیا جائے۔خاکم بدہن کہیں پاکستان کو تاریخ لکھنے والے مقبوضہ پاکستان نہ لکھیں ۔تو یہ خیالات آرہے ہیں ۔خون کے چند قطرے خراج میں وصولتے ہیں ، پھر چلتے بنتے ہیں ۔زلزلہ آیا ، گزر گیا۔مگر میری ذات میں بھی ایک زلزلہ ہے جو گزرنے کا نام نہیں لیتا۔لیکن میں اپنا خیمہ سجاتا ہوں ، کتابیں درست کر کے رکھتا ہوں ۔مجھے خبر ہے کہ یہ فرار ہے لیکن مجھے پسند ہے کہ فرار زندہ رکھتا ہے۔اور ہر بزدل انسان کی طرح مجھے بھی زندگی سے پیار ہے۔آپ کا خط میں بار بار پڑھ رہا ہوں ۔شعروسخن کے شمارے بھی پڑھتا رہتا ہوں ۔آخری شمارے میں تو بعض چیزیں ایسی ہیں کہ لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے۔اور وہ ہوگیا۔میں نے سنا ہے کہ زلزلے سے پہلے پرندے ہجرت کر گئے تھے۔شاید کچھ لوگ ، کچھ انسان ایسے بھی ہوں جو کسی بڑی افتاد سے پہلے ہی خبردار ہو جاتے ہوں ۔ایسے کتنے ہی ہوں گے جو کہ ہجرت نہ کر سکے ہوں ۔آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ وہ محبت میں بہت اگریسو ہے۔مگر یہ انسان کیا عجٰب و غریب مخلوق ہے انسان مر گیا ، زندہ بھی رہ گیاانسان نے انسان کے لئے امداد کے دریا بہا دئےیا انسان نے انسان کو ملبے سے نکالاہسپتال پہنچایاانسان نے انسان کی لاش ٹٹولی اور پیسے نکال لئے۔ان پیسوں کی اب اُسے زیادہ ضرورت تھی۔انسان نے انسان کے زیور لوٹ لئے۔انسان گروہ در گروہ کام میں جتا ہوا ہے۔خیر کا کام ہورہا اور شر کا بھی۔معصوم بچیاں اغوا کر کے ہیرا منڈی میں پہچا دی گئیں ۔خرکاروں کو اب انسان کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی ضرورت نہیں رہی۔یہ کام دستِ قدرت نے کر دیا ہے۔خیمے آئے ، ہمارے ہاں ٹینٹ مافیہ وجود میں آگئی۔لوگ ٹینٹ جمع کر رہے ہیں ۔سیاست دان امداد کو آئندہ کے لئے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرنے میں کوشاں ہیں ۔مولویوں کو مدتِ مدید کے لئے موضوع ہاتھ آگیا ہے۔ہر باعث کا آغاز گناہ سے ہوتا ہے اور انجام عورت کی بے پردگی پر۔اور اسے افسانوی رنگ میں بیان کیا جاتا ہے کہ خدا بھی خوش رہے اور حظ بھی اٹھایا جاتا رہے۔”نزلہ بر عضوِ ضعیف “اسی کو کہتے ہیں ۔مولوی پوری قوم کو گنہگار ثابت کرنے کے لئے جمعہ ہفتہ کا زور لگا رہے ہیں ۔تو یہ کچھ ہو رہا ہے ۔اور اگر میں آپ کی طرح سوچوں تو خود کو بے بسی کی دلدل میں پھنسا ہوا پاتا ہوں ۔میں آپ کی طرح نہیں سوچ سکتامیں گھبرا جاتا ہوں ۔مرنے کے بعد کے حساب کرتا اور سزاؤں کے متعلق سوچتا ہوں تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔عبدالعزیز ساحر کہا کرتا تھا، ”گل کرنی اے گل کھولنی نئیں “۔وہ ذات جس کے روبرو مجھے آپ کا خط کھڑا کر رہاہے ، بہت بڑی ذات ہے۔جو چاہے کرے ۔بستیوں کو کھنڈر کرے اور ہاں آگے عید بھی تو آرہی تھی سنگلاخ پہاڑوں سے اتر کر پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں بہنوں کے لئے دوپٹے، ماؤں کے لئے کپڑے ، بیویوں کے لئے چوڑیاں اور منگیتروں کے لئے چھلے لانے والے نوجواں نے آکر کیا دیکھا ہوگا؟کتنے چھلے انگلیوں کو ترستے رہ گئے، کتنے دوپٹے ، کپڑے اب ماؤں بہنوں کی نشانیاں بن کر رہ گئے۔شاید قرآن میں کہیں لکھا ہے ”اور ہم نے اُن کی چھتوں کو اُن کا فرش بنا دیا۔“اب اُس ذات کے روبرو کیا کہا جائے۔جی تو چاہ رہا ہے کہ میمونہ رفیق سے کہا جائے کہ ہم سب کی طرف سے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہہ دے

دیکھو ایسا کیوں کرتے ہو

ٹھیک ہے لیکن

پھر بھی ایسا کیوں کرتے ہو

کیونکہ اُس کے سامنے گل کرنی اے گل کھولنی نئیں ۔”اور وہ محبت میں بڑا اگریسو ہے۔پلیٹیں اُس کی ہیں ، وہ خفا ہوگا تو چیزیں توڑے گا۔“یہ آپ نے لکھا تھا۔اور دیکھئے اس گھمبیر رومانوی بات نے مجھے ایک شعر یاد دلا دیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

انسان اپنی طبیعت سے کتنا مجبور ہوتا ہے۔الو کا پٹھاپر ایک بڑے جبر کے تلے ہنس ہنس کے جینے والاتو کہا جائے انسان زندہ باد۔

آپ کا مطیع ۔مطیع الرحمان عباسی۔بےروٹ۔براستہ راولپنڈی

محترم جان عالم صاحب!

آداب

اس شمارے میں فیروز شاہ صاحب سے بات چیت خاصے کی چیز ہے ۔شاہ صاحب کی ایک کتاب کا سرورق کبھی میں نے بنایا تھا۔اُن دنوں اُن سے قلمی رابطہ رہا کرتا تھا۔آج کل خصوصیت کے ساتھ اُن کی تحریروں میں نکھار نظر آتا ہے۔اُن کی باتیں ، زبان و بیان کا انداز سبھی لائقِ توجہ ہیں ۔دوسری خوبصورت تحریر اشفاق ورک صاحب کی غالب کی خودنوشت ہے۔اگرچہ یہ کمال تو غالب کا ہی ہے لیکن صاحبِ تحریر نے جس انداز اور عرق ریزی سے ان مکتوبات کو ایک خودنوشت خاکے میں ڈھالا وہ سراہے جانے کے لائق ہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ ان دنوں (بارِ دگر)”مرزا غالب“فلم دیکھ رہی تھی جو گلزار صاحب نے بنائی تھی۔اس لئے اس مضمون نے اور لطف دیا۔افسانوں میں مشرف عالم ذوقی کا افسانہ انتہائی خوبصورت تھا۔گو المیہ پرانا ہے لیکن ان کے اندازِ بیان نے اسے نیا پن دے دیا۔غزلیات میں ڈاکٹر رفیق صاحب کی غزل پسند آئی ۔جمشید صاحب کی ”اردو ڈیپارٹمنٹ“ ، آپ کی نظم ، طارق جاوید کی غزل کا مطلع اور احمد حسین مجاہد کی غزل بھی خوبصورت تھی۔

آپ نے جس کامیابی سے میری نظم کی قطع برید فرمائی ، واقعی پسند آئی۔دراصل عموماً میں اتنی عجلت میں ہوتی ہوں کہ نظر ثانی کی بھی فرصت نہیں ملتی۔یہ تصحیح میں نے اپنی ڈائری میں بھی کر لی ہے شکریہ۔دعاؤں کے ساتھ ۔

شبہ طراز ۔لاہور۔

جانانِ جان ِ عالم

سلام و یاد

سردست ےومِ آزادی کی مبارکباد قبول کےجئے۔ماہِ رواں (اگست) کے مبارک دنوں میں آپ کا یادنامہ ہاتھ آیا، اس یاد فرمائی اور بھل منسائی پر ہم آپ کے منت دار ہیں ۔بخدا آپ کے پرےم گٹکوں نے ہمیں مول لے لیا ہے۔، سو ہی ہم پانی پی پی کر آپ کو دعائیں دےتے ہیں ۔وےسے آپ بڑے موہنے طوطے ہیں ۔بات سے بات نکالنا آپ کا تخصص ٹھہرا۔اب کے آپ نے موجودہ صنعتی عہد کے مشےنی انسانوں کا ذکر چھےڑا ۔آپ جانیں کہ ہم بھی اس صحبتِ نا جنس میں مبتلا رہے ہیں ۔ہم نے بھی ایسے مشےنی انسان دیکھ رکھے ہیں ، ہمیں بھی آئے دن ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، مگر بحمد اللہ ہنوز ہمارے اندر کا انسان سلامت ہے، حےف صد حےف کہ آج کا انسان اپنی ہی اےجاد کردہ اشیائے بے جان کا دست نگر ہو کر رہ گیا۔

کیونکر کہیں کہ ہمارے شب و روز ِ حیات کیسے گزر رہے ہیں ۔وہی مرنا جینا لگا ہوا ہے، راتیں تپ جپ میں گزر رہی ہیں اور دن فکرِ دنیا میں ۔بقول غالب

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

ایسا معلوم دیتا ہے کہ جیسے ہم وقت کی تیز رفتار ریل گاڑی میں بیٹھے سفر کر رہے ہیں ، ہر منظر عقبی سمت گریز پا ہے ع نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اس سمے ہمارے یہاں بارش جھمر جھمر برس رہی ہے۔ہر سو رُم جھم کا سماں ہے۔جملہ احباب کی خدمت میں درویش کا سلام پہنچے۔اللہ آپ کو اپنی رحمت کی چھئیاں میں رکھے۔ والسلام۔بندۂ اخلاص۔

پرویز ساحر۔نواں شہر۔ایبٹ آباد

نقد ونظر

(تعارف و تبصرے )

نام کتاب: برائے فروخت

صاحبِ کتاب: محمد حامد سراج

تبصرہ: جان عالم

جناب حامد سراج کا افسانوی مجموعہ ”برائے فروخت “منصۂ شہود پر آیا۔حامد سراج کہانی کو افسانہ کرنا خوب جانتا ہے۔بلکہ اُسے جملوں میں کہانیاں سمونا اور لفظوں میں افسانے کہناخوب آتا ہے۔اُس کے پاس بقول افتخار مغل بڑی کہانی لکھنے کے لئے بڑے موضوعات ہیں۔وہ معاشرتی زندگی سے ایسے ایسے موضوعات کو دریافت کرتا ہے جن کی طرف کم کم لوگوں کی نظر جاتی ہے۔”آخری آئس کیوب“کے آغاز میں ہی وہ قاری کوگرمااور پگھلا دیتا ہے۔جب وہ کہتا ہے؛

تم چاہو بھی تو اس یقین کو واپس نہیں لاسکتیں جسے تم نے ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔

میں تمہاری تھی ہی کب۔۔۔۔۔؟

تو پھر وعدے گرہ میں کیوں باندھے تھے۔

اور پھر ذرا آگے چل کر اس مکالمے سے ملیے؛

تمہیں معلوم ہے تم محبت کو کس مقام پر لے آئی ہو۔

یہ میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔محبت کیا سوچ کر کی جاتی ہے!“

تم روح اور بدن کے درمیان جو دیوار ہے اُس کا قضیہ تو چکا دو۔

روح بھی تمہاری ہے اور بدن بھی ۔ میں اپنے بدن کی کسی سرحد پر کوئی پہرہ نہیں بٹھاؤں گی۔“اُس نے آہستگی سے اداسی کی چادر کا ایک کونا پکڑ کر کھینچا۔

حامد سراج کو کہنا آتا ہے ۔اُس کے پیش نظرچند افسانوں کو شیرازہ بند کرنا نہیں ہے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور وہ کہتا ہے۔میں نے پہلے بھی کہیں کہا تھا کہ افسانے میں کہانی کا ہونا یا نہ ہونا ایک تنقیدی بحث ہے جسے اس میدان کے صاحبِ انتقاد ہی جانیں، ہمیں تو افسانے کی سطر در سطر گلیوں میں کہانیاں بنتے جملوں سے واسطہ ہے جو ہمیں معانی کی اُن غلام گردشوں تک لے کر جاتی ہیں جہاں لفظ چیختے ہیں اور کہانیاں افسانے جنم دیتی ہیں۔

حامد سراج کے مطالعے کا ذوق اور ایک سنجیدہ قاری ہونے کا شرف اُس کے تخیلاتی کینوس کو وسعت دیتا نظر آتا ہے جس کا اندازہ اُس کی وسیع النظر ی اور مشاہداتی تدبرکی صورت میں اُس کے لفظوں سے پھوٹتا چلا آتا ہے۔

افتخار مغل نے جو کہا بجا کہاکہ

ارون دھتی رائے سے محمد حامد سراج تک پھیلی یہ آواز شاہراہِ وقت کا ایک سنگِ میل ہے۔جس کے دونوں طرف ایک جیسے فاصلے اور ایک جیسے فیصلے درج ہیں۔یہاں سے ماضی بھی zero distance پر ہے اور مستقبل بھی!“

اور داستان سرائے دہر میں کہانی گو یا افسانہ نگار کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ وقت کی قید سے آزاد ہو جائے یا وقت اپنے تعین کی قید خود اٹھا دے۔حامد سراج کے افسانوں کو پڑھتے وقت یہ کیفیت بارہا طاری ہو جاتی ہے کہ جب قاری وہیں پہنچا ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار اُسے لے کر جانا چاہتا ہے۔

انیس(19) افسانوں کا یہ مجموعہ ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں 144صفحات پر محیط ہے ۔اور کتاب کی قیمت 140 روپے ہے۔گویا حامد سراج نے قاری کوایک روپے میں ایک صفحہ دیا ہے ۔اس مہنگائی کے دور میں ادب ہماری اور کیا خدمت کر سکتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭

نام کتاب: خواب پرندے

شاعر : محمد فیروز شاہ

تبصرہ: جان عالم

محمد فیروز شاہ کا شعری مجموعہ ”خواب پرندے“ منصہ شہود پر آیا۔محمد فیروز شاہ کی اس سے قبل کم و بیش نو کتابیں (نظم و نثر) چھپ چکی ہیں۔کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم لکھتے ہیں کہ

شاعری میں خیال سے ہم آہنگ لفظیات ، تلازمات ، تشبیہات اوراستعارات کا جمالیاتی اور تخلیقی استعمال بھی شاعر کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔محمد فیروز شاہ اس مشکل مرحلے سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر گئے ہیں۔انہوں نے مروج متروک لفظیات اور تلازمات سے دامن کش ہوتے ہوئے ، زبان و بیان کے نئے قرینے بروئے کار لاتے ہوئے اپنا شعری اسلوب تراشا ہے۔

اسی طرح پروفیسر فتح محمد ملک نے شاعر کے بارے میں یوں تبصرہ کیا ہے؛

وہ اپنے کلچر کا نمائندہ شاعر ہے۔جس طرح خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری کے ذریعے روہی کو امر کر دیا اسی طرح فیروز شاہ کی شاعری بھی تھل کلچرکی نمائندگی کرتی ہے۔

کتاب کا مجموعی تاثر علامتی ہے ۔ پیڑ، پرندے، ، خوشبو، ہوائیں، چراغ، صدائیں، ، خوشیاں، چڑیاں، جنگل، دریا، پانی وغیرہ ایسی علامتیں ہیں جو ہماری زندگی کے داخلی محسوسات کی ترجمان ہیں۔یہ علامات کبھی محبت بن جاتی ہیں تو کبھی محبت کا دکھ ۔یہ علامات کبھی احتیاج کا رنگ اوڑھتی ہیں تو کبھی احتجاج بن جاتی ہیں۔ہر غزل میں اس بھر پور انداز میں علامات کا یلغار نظر آتا ہے کہ قاری کو ہر جگہ رکنا پڑتا ہے۔اس تفہیم کے لئے جسے قاری نے خود علامتوں سے تراشنا ہے ۔

علامات اگرچہ مجرد اندازِ بیان ہے لیکن اس تجرید میں بھی ایک تصویر کا بننا نہایت ضروری ہے۔اگر علامت قاری کے فکری کینوس پر کسی بھی طرح کی تصویربنانے میں ناکامیاب ہوتا ہے تو یہ شاعر کا عجز سمجھا جانا چاہیے۔بھلے وہ تصویر شاعر کی تصویر سے الگ ہو لیکن تصویر کا بننا نہایت ضروری ہے۔یہ شعر کی خوبی بھی شمار ہوتی ہے اورعلامت کے فرائض میں بھی شامل ہے۔فیروز شاہ کے ہاں بیشتر اشعار میں علامتیں تصویریں بناتی ہیں اور خوب بناتی ہیں۔اس شعر کی فضا میں آئیں تو علامتوں کو ہمارے معاشرتی رویوں کے تناظر میں تصویریں بناتا دیکھیں۔وہ معاشرہ جہاں عورت کو تو بڑا مقام دینے کے نعرے بلند ہوتے ہیں لیکن عورت کو رشتوں اور قدروں میں کم کم دیکھا جاتا ہے۔جہاں زلفِ گرہ گیر پر قصیدہ تو لکھے جاتے ہیں لیکن چاردےیواری کی چکی میں پستی عورت کے محسوسات کا احساس نہیں کیا جا تا۔لیکن فیروز شاہ کی علامت گھر کے اندر جھانک رہی ہے ۔شعر ملاحظہ کےجئے:

گجرے تمام شہر میں بانٹ آیا تو کھلا

گھر میں بھی منتظر تھی کلائی مرے لئے

وہ رشتوں کو شاعری میں کھینچ لاتا ہے اور قاری کو احسا س دلاتا ہے کہ hypomanic,اورشیزوفرینک خودکلامی سے باہر نکل کر حقائق سے آنکھیں ملانا فکری صحت کی علامت ہے۔وہ جب ایک غزلیہ شعر میں”ماں “کی ممتا کو علامت کرتا ہے تو قاری کو اس پر بے طرح پیار آتا ہے۔

سبز دعاؤں کی کونجیں

کیوں ہجرت کر جاتی ہیں

محمد فیروز شاہ اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ انسان ظلمت اور تاریکی، معاشرتی بے راہ روی کے خلاف آواز نہ اٹھاپائے۔وہ ایسے انسانوں کے مجرم قرار دیتا ہے ۔وہ اس جوہر کی ودیعت پر ایمان رکھتا ہے جو اللہ نے انسان کو تخلیق کے وقت عطا کیا تھا۔انسان ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائے گا، اگر وہ آواز نہیں اٹھاتا تو وہ اپنے انسان ہونے کا جواز پیش کرے۔

وہ بھی شب کا شریک مجرم ہے

جس دیے میں ضیا نہیں ہوتی

میں نے اوپر کہا تھا کہ فیروز شاہ کے بیشتر اشعار میں علامتیں تصویریں بناتی ہیں ، بیشتر اس لئے کہا ہے کہ بعض اشعار نے یا تو میرے احساس پر کوئی تصویر نہیں بنائی یا شاعر کے شعر نے کوئی تصویر بنانے ہی نہیں دی۔جیسے ذیل کے شعر میں ہوا کا سر جھکا کر چلنا ایک ایسی تصویر ہے جو مجرد مشاہدے کی زد میں بھی نہیں آرہی۔

سرجھکائے ہوئے یوں اب کے ہوا چلتی ہے

جیسے وعدوں سے کوئی شخص مکر جاتا ہے

کیا خبر تخلیق کار کے پاس ہوا کا سر جھکا کر چلنے کا بھی جواز ہو۔میں اس کی وضاحت یا اپنا عجز شاعر پر چھوڑتا ہوں لیکن میں اس طرز کی علامت کے حق میں یہی کہوں گا کہ جو علامت تخلیق کار سے رجوع کی ضرورت کو زندہ کرے وہ علامت خود زندہ نہیں ہوتی ۔

لیکن ایسے شعر بہت کم ہیں جو اپنے ابلاغ کے لئے شاعر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔مجموعی طور پر شاعر کے ہاں خوبصورت علامت کا وافر مواد موجود ہے ۔

فیروز شاہ کی نظم بھی بڑی جاندار ہے ۔میرے نزدیک شاعرِ موصوف بنیادی طور پر نثر کے آدمی ہیں ۔اُن کی خوبسورت نثر میں اپنی ایک شعریت ہے۔اور نظم میں اس خوبی کا اندازہ غزل سے کہیں زیادہ سہولت سے لگایا جا سکتا ہے۔کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے:

عجب دنیا ہے

یا میں خود عجب ہوں

عجوبوں کے جہاں میں کوئی سوچے ، کوئی تو سمجھے

(گلِ زرد کا درد)

میں اس دوزخ کنارے بیٹھا اکثر سوچتا ہوں

اچانک رخ بدلتے موسموں کا راز کیا ہے

اسی لمحے مرے اندر سے کوئی بولتا ہے

کہ اک حرفِ دعا

فیروز!تم سے کھو گیا ہے!!!

(بارشوں سے آندھےوں تک)

سبب یہ ہے

کہ میں نے آج تک خود کو کبھی تنہا نہیں پایا

مرے ہمراہ میرے خواب رہتے ہیں

مرے افکار میرے ساتھ محوِ گفتگو رہتے ہیں، اور مجھ کو

کبھی عصرِ رواں کے جبر کا احساس تک ہونے نہیں دیتے

خیالوں کی رفاقت بھی بشارت سے کوئی کم تو نہیں

سو میں

کبھی تنہا نہیں ہوتاکبھی تنہا نہیں ہوتا!!

(تنہائی اور پروائی)

خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ 256صفحات کے اس شعری مجموعے کی قیمت 200روپے ہے۔اس کی اشاعت کا اہتمام مثال پبلشرز فیصل آباد نے کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭

نام کتاب : اُداس کیوں ہو

شاعر:تصور اقبال

تعارف:جان عالم

حلقہ حروفِ احباب لاہور کے زیرِ اہتمام تصور اقبال کا شعری مجموعہ ”اداس کیوں ہو“شائع ہوا۔اس غزلیہ مجموعے کے آغاز میں جناب سلطان رشک صاحب نے”تصور عرش پر ہے“کے عنوان سے شاعر کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے یوں کہا ہے کہ

تصور اقبال کو شاعری کا شوق ، ذوق اور شعور مبداءفیاض سے ملا ہے۔گویا اُس کی شاعری خودرو ہے اور باطن سے ظہور پذیر ہو رہی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا خارج سے یا ظاہر سے تعلق نہیں۔ہماری رائے میں وہ داخلی اور خارجی کیفیات کے امتزاج سے اپنے شعر کی آبیاری کرتا ہے۔

تصور اقبال کو ناقدین کے خوبصورت اور مانوس جملوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔کچھ شعر پڑھیے

:کئی سال سے طاقچے میں پڑے تھے

وہی کھوٹے سکے مرے کام آئے

مجھے تم بے زباں مت جانیے گا

زباں رکھتی ہے ہر دیوار گھر کی

وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن ٹھیک سے کہہ نہیں پا رہا۔اُس کے پاس کچھ ہے ضرور جو اس کے کسی پہلے کسی دوسرے مصرعے سے کھلنا چاہتا ہے لیکن کبھی پہلا ، کبھی دوسرا مصرع اُس کہے کو روک دیتا ہے ، اُس کو ابلاغ تک پہنچنے نہیں دیتا۔یہ اُن شعروں میں ہوا ہے جن شعروں کی پرتیں کھلنے کا امکان ہے ، جن میں تہہ داری ، پرکاری یا اندر کی کسی بات کے امکان کاگمان ہوتا ہے۔کتاب میں دوسرے اشعار بھی ہیں جن میں شاعر نے جوکہناچاہا وہ برملا کہہ دیا۔

ترک تُو نے نہ کی مےکشی جان لے

موت بن جائے گی زندگی جان لے

کتاب سے بعض خوبصورت مصرعے ملاحظہ کیجئے:

٭اور پیاسا رہا حسرتوں کا شجر

٭رات بھر شمع جلی

٭ہماری خاکِ پا ملتی رہے گی

٭تُو مجھ کو آزاد نہ کر

٭جانے لگے تو آپ ہی انکار کر چلے

فلیپ اور دیباچے اور ناقدین کے نپے تلے اور سنے سنائے جملوں پر ایک بڑی تنقیدی نشست رکھی جاسکتی ہے۔مصلحت یا مہربانی ، مروت یا دوستداری نے اس میدان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔قاری کو غیرجانب داری سے کتاب کی طرف لانے کے راستے ہموار کرنا تو دُور کی بات انہیں کتاب سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جانے کب یہ رواج ، رواج پائے گا کہ کتاب آنے کے بعد کتاب پر تنقیدی تبصرے ہوا کریں گے ۔

تصور اقبال کا یہ شعر مجھے حاصلِ کتاب لگا:

ہم سفر سورج رہا

شام بھی آخر ڈھلی

تصور اقبال کی اس کتاب کو پڑھ کر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ابھی لوگ مایوس نہیں ہوئے، لوگ لکھنا چاہتے ہیں ، لو گ سوچنا چاہتے ہیں ۔تو ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ اس مشینی دور میں بھی شاعری کی طرف آنے والے آکر ہی دم لیں گے۔اور جب کوئی آجاتا ہے تو اُس کے آج پر اُس کے کل کی اچھی امید باندھی جا سکتی ہے۔

تصور اقبال کے پہلے شعری مجموعے کانام”محبت زندگی ہے“ تھا اور زیرِ مطالعہ مجموعہ ”اداس کیوں ہو“ کے بعد تیسرا مجموعہ ” ہاتھ میں جلتا دیپ“ کے نام سے جلد منظر عام پر آرہا ہے۔160صفحات کے اس زیرِ نظر مجموعے کی قیمت99روپے ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

نام کتاب: محبت اور خون

افسانہ نگار : پروفیسر زہیر کنجاہی

تعارف: جان عالم

زہیر کنجاہی ایک شاعر ، مضمون نگار ، ماہیا نگاراور افسانہ نگار کی حیثیت سے کئی کتابیں سامنے لا کر اپنی ادبی شناخت بنا چکے ہیں ۔کہیں اُن کے نعتیہ کلام سے قاری ثواب کمارہا ہے تو کہیں اُن کی شاعری سے حظ اٹھایا جا رہا ہے۔ادب سے زندگی بھر کی وابستگی اور اُن کا خلوص اور محبت ہے کہ وہ ذاتی خرچ پر کئی کتابوں کی طباعت کا بوجھ اٹھاتے آرہے ہیں۔اس خدمت پر وہ بجا طور پر داد و اعتراف کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

زیرِ مطالعہ کتاب ”محبت اور خون “ میں زہیر کنجاہی کے ہاں علامت، فکری گہرائی یا گاڑھا فلسفہ وغیرہ کم ہی نظر آتا ہے ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اُن کا افسانہ قارئین کے اُس دھڑے کے لئے ہے جو کسی علامت یا کنائے کو پسند نہیں کرتا ۔جو سیدھی طرح سیدھی سادی حقیقتوں کوسننا چاہتا ہے۔وہ حقیقتیں جو ہمارے گھروں میں روز افسانے بنتی ہیں ۔ہمارے بازار ، ہمارے شہر ، ہمارے رشتے ، ہماری اقدار اور ہمارے معاملات ، یہ عام آدمی کوتو بس اخبار کی خبریں دیتے ہیں لیکن جب کوئی تخلیق کار انہیں دیکھتا ہے تو وہ ان حقائق کوکبھی شعر کرتا ہے تو کبھی افسانہ کر دیتا ہے۔ افضل راز صاحب فلیپ پر کہتے ہیں؛

زہیر کنجاہی کی کہانیاں ہمارے معاشرے کے چلتے پھرتے وہ کردار ہیں جنہیں ہم روز دیکھتے اور اُن کے بارے میں سنتے ہیں مگر نظر انداز کر دیتے ہیں۔زہیر نے ان کو بڑے خوبصورت انداز میں قرطاس کی زینت بنایا ہے۔

اسے خوبی کہیے یا خامی کہ زہیر کنجاہی کے افسانوں کا اختتامیہ (end) اتنا مکمل اور وضاحتی ہوتا ہے کہ قاری کا اس سے آگے سوچنا ممکن نہیں رہتا۔زہیر کنجاہی کا یہ انداز کتاب کے آخری افسانے ”ابو آئے ابو آئے“کے اختتامیہ پیراگراف سے لگایا جا سکتا ہے۔

حمیرا کی وفات پر حمیرا کا باپ جتنا رویا اتنا وہ کبھی زندگی میں نہیں رویا تھا۔روتا رہا اور دہائی دیتا رہا۔لوگو!بہن کو رشتہ نہ دینا ، بہن کو رشتہ نہ دینا، اپنوں کو رشتہ نہ دینا!حمیرا کی ماں تو پاگل ہو گئی تھی۔اس نے کئی دفعہ قبرستان میں حمیرا کی قبر کھود کر حمیرا کو نکالنے کا جنونی عمل بھی کیا اور اسی جنون کی حالت میں تین ماہ بعد حمیرا سے جا ملی۔

بیس مختصرافسانوں‏‏( short stories) پر مشتمل زہیر کنجاہی کا افسانوی مجموعہ”محبت اور خو ن “خوبصورت ٹائیٹل کے ساتھ 160صفحات پر مشتمل ہے ۔اسے روزن پبلشرز گجرات نے طباعت کے زیور سے آراستہ کیا۔کتاب کی قیمت200 روپے ہے جو نسبتاً زیادہ معلوم ہوتی ہے۔

قفا نبک سے ”رکو کہ رو لیں “تک

صوفی عبدالرشید

(1)

یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا کوئی سال تھا، آج کے پروفیسر ڈاکٹر ارشاد احمد شاکر اُس وقت شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج ہریپور میں میرے رفیقِ کار تھے۔یہ ہریپور بلکہ پورے ہزارے میں ادبی سرگرمیوں کا دورِ عروج تھا ۔آئے دن کہیں نہ کہیں شعرائے ادب کی محفلیں بپا رہتیں ۔ شاکر صاحب کا کردار اُن میں خاصا فعال تھا۔بفہ مانسہرہ میں ادارہ علم و فن کے زےیرِ اہتمام انہوں نے بعض یادگارادبی تقاریب کا انعقاد کیا تھا۔اُن کی رہنمائی میں کئی نوجوان شعرگوئی اور نثر نویسی کی کامیاب مشق کر رہے تھے۔اُن میں اکرام جمالی بطورِ شاعر بڑی تیزی سے پختگی کی جانب بڑھ رہے تھے۔شاکر صاحب کی وساطت سے ہریپور میں اُن سے ملاقات ہوئی ۔چہرے مہرے اور طور اطوار سے سعادت کے آثار ہویدہ تھے ، گفتگو میں ذہانت کا رنگ تھا، وجاہت خاندانی تھی ، ذوقِ علم ورثے میں پایا تھا۔شعر گوئی کا ملکہ فطری تھا ۔حضرت جمال الدین افغانی سے نسبی تعلق کے باعث جمالی کہلائے ۔دینی تعلیم گھر پر ہوئی ، دنیوی علوم کی تحصیل پر متوجہ ہوئے تو چونکہ آدمی ذہین و فطین ہیں ، بہت جلد تعلیم کے جملہ مراحل طے کر لئے ۔اس میں اُن کی محنت کو بھی دخل ہے ۔پاکستان ٹیلی وژن میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور وہاں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ساتھ ساتھ اُردو شاعری بھی کرتے رہے۔1991ءمیں نظم و غزل پر مشتمل مجموعہ کلام ”دھوپ دھوپ صحرا“ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا ۔ادبی موضوعات پر انگریزی روزنامے ڈان میں کالم بھی لکھتے ہیں ۔ ہفت زبان ہیں ۔پشتو اور ہندکو گھر اور علاقے کی زبانیں ہیں ۔اُن سے پیدائشی اور خلقی رشتہ ہے۔اُن کے علاوہ اردو ، فارسی ، عربی ، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ان زبانوں میں علوم و آداب کے بے بہا خزانوں سے انہوں نے بقدرِ توفیق استفادہ بھی کیا ہے ۔جس کے اثرات اُن کے کلام میں جابجا نظر آتے ہیں ۔اُن کے ہاں اسلوب کی استواری اور اصولِ فن کی پاسداری روایاتِ سخن کے بحرِ شعور کی غماز ہے۔تجربات ِ ذات و مشاہدات و حیات کو نئے اور نادر رنگ و آہنگ میں جلوہ گر کرنے کی کوشش بھی اُن کے کلام میں کارفرما ہے۔

(2)

ایک جاہلی عرب شاعر کی بابت حضور رسالت مآب کا یہ ارشاد گرامی ناقدانہ بصیرت کا بے مثال شہکار ہے ۔

(ترجمہ):وہ شاعروں کا سردار ہے اور دوزخ کی جانب اُن کا رہنما بھی۔

شاعروں کا سردار یوں کہ فنِ شاعری میں اُس کے دور کا کوئی دوسرا سخن ور اُس کے کمال کو نہیں پہنچ سکا ۔دوزخ کی جانب اُن کا رہنما بدیں معنی کہ اُس نے عورتوں سے اختلاط کے بیان میں واشگاف گوئی اور عریاں سرائی کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔اپنے موضوع میں یہ شاعری انسانی تہذیب و تمدن کو اعلیٰ اقدارِ حیات سے بےگانہ کرنے اور عام اخلاقی انارکی اور افراتفری پھیلانے میں معاون ہوتی ہے ۔اسی نوع کی شاعری کو قرآنِ حکیم نے رد کیا ہے ۔اس ضمن میں اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو علامہ اقبال کا مقالہ ”حضورِ رسالت مآب کا ادبی تبصرہ“دیکھئے۔جس شاعر کے بارے میں آنحضرت نے محولہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے ، وہ امراءالقیس تھا کہ سبع معلقات میں جس کا قصیدہ اولیّت کا مقام رکھتا ہے۔یہ وہ سات قصیدے تھے جنہیں امتیازاتِ فن کے اعتبار سے سونے کے پانی سے لکھوا کر خانہ کعبہ میں آویزاں کیا گیا تھا۔اسی وجہ سے وہ معلقات یا منظوماتِ آویزاں کہلاتے ہیں ۔یہ منتخب قصیدے قبلِ اسلام عربی شاعری کا ست یا جوہر ہیں ۔جو محاسنِ فن کے اعلیٰ معیار کا نمونہ بھی ہیں اور عرب کے اجتماعی اوضاع و اعتبار کے ترجمان بھی ۔اکرام جمالی اُن کے منظوم اردو ترجمے پر کمر بستہ ہوئے ہیں جو یوں کہیے ہفت خوان طے کرنے کا عمل ہے اور بڑی جرأت و ہمت کا متقاضی ہے۔اس سلسلے کی پہلی کڑی ”رکو کہ رو لیں “امراءالقیس کے معلقے کا ترجمہ ہے جوکتابی صورت میں آج سے تین برس قبل اپریل دو ہزار دو میں شائع ہوا تھا۔اور اپنے چند در چند خصائص کی بنا پر اربابِ ادب میں پذیرائی کا مستحق قرار پایا تھا۔

(3)

امراءالقیس ذوالقروح جندح بن حجربن عمرو الکندی شاہانِ کند ہ سے نسبی تعلق رکھتا تھا۔ماں کلیب اور مہلہل بن ربعیہ کی بہن تھی۔اُس کے بزرگوں نے نجد میں ریاست قائم کی تھی ۔شہزادہ تھا، ناز و نعمت میں پرورش پائی، جوان ہوا تو عیش و عشرت کو شعار بنا دیا ۔عورت اور شراب سے گہرا تعلق پیدا کیا۔مؤلف تاریخ الادب العربی استاد احمد حسن زیات کے الفاظ میں

(عربی سے اردو ترجمہ) اُس نے بے راہ روی کی زندگی گزاری ۔کثرت سے شراب پیتا ، عورتوں سے عشق بازی کرتا ، لہو لعب کا دلدادہ تھااور شعر کہتا تھا۔

(تاریخ الا دب العربی استاد احمد زیات ۔صفحہ 37مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی۔)

باپ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا ۔فاطمہ (عنیزہ) سے کہ اُس کی پھوپھی زاد تھی ، اظہارِ عشق میں ایک تشبیب کہی اور باپ کے عتاب کا نشانہ بنا اور گھر سے نکلنا پڑا۔اُس کا بیشتر وقت اب عرب کے اوباشوں اور گھٹیا درجے کے لوگوں میں گزرتا ۔یہ لوگ صحرا میں جابجا گھومتے پھرتے ۔جہاں کہیں کوئی سرسبز خطۂ زمین اور پانی کا جوہڑ نظر آتا ، وہیں خیمے گاڑ لیتے ۔اور عیش و نشاط کی مجالس برپا کر دیتے ۔شراب کے پے بہ پے دور چلاتے اور جی کھول کر ہوس رانی کرتے ۔تا آں کہ جوہڑ کا پانی سوکھ جاتا اور سبزہ خشک ہو جاتا۔ پھر ایسے ہی کسی اور مقام کی تلاش میں رخت ِ سفر باندھ لیتے۔گھر کا نہ رہا تو امراءالقیس نے دشت خرامی اور صحرا نوردی سے مستقل رشتہ قائم کر لیا۔رہگزاروں کی خاک چھانتا اور جہاں نخلستان یا چشمۂ آب نظر آتا وہاں بسیرا لینے ٹھہر جاتا ۔اپنی شاعری میں اُس نے اُن مقامات کا ذکر کیا ہے جن سے وہ عالمِ آوارگی میں گزرا ہے۔ان مقامات سے وابستہ ان وارداتِ شور و شوق کی یادیں بھی ہیں جن کے بیان میں وہ جذباتِ ہوا و ہوس کوبگٹٹ چھوڑ دیتا ہے اور شرم و حیا کے جملہ تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے عورتوں سے اختلاط کے واقعات کو اُن کی جزیات کے ساتھ معرضِ سخن میں لاتا ہے۔اُس کی عریاں بیانی کا شہکار اُس کا معلقہ ہے۔

ابنِ قتیبہ کہتا ہے امراءالقیس اہلِ نجد سے ہے ، جن آثار و دیار کا اُس نے ذکر کیا ہے وہ بنو اسد کے ہیں ۔اُس کا باپ بنو اسد کا بادشاہ تھااور اُن سے ٹیکس لیا کرتا تھا۔ایک دفعہ انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تو وہ اُن کی طرف گیا اوراُن کے سرداروں کو پکڑ کر خوب مارا ۔اس سے عبید العصا مشہور ہو گیا۔

(الشعر الشعراءلا بن قتیبہ جلد اول اردو ترجمہ از پروفیسر عبدالصمد صارم الازہری صفحہ 83مطبوعہ ادارہ علمیہ۔نئی انارکلی لاہور)

بنو اسد کے اسیروں میں عبید الابرص بھی تھا۔جب وہ لوگ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے یہ شعر پڑھے ۔

ترجمہ:اے آنکھ اشک بار ہو بنی اسد پر جو نادم ہیں ، جو سرخ قبوں والے ، بہت چوپایوں والے اور شراب والے ہیں ۔رک جا تُو ذلت کا انکار کر دے۔ٹھہر جا تُو نے بڑی سخت بات کی ہے ۔یثرب کی وادیوں اور یمامہ کے محلات میں مصیبت زدوں اور جلائے ہووں کی چیخ و پکار ہے ۔اور اُلو کی آوازیں ہیں ، تُو اُن کا بادشاہ ہے اور وہ تا قیامت تر ے غلام ہیں ۔(الشعر الشعراءاردو ترجمہ از پروفیسر صارم الازہری )

بادشاہ نے رحم کھایا اور انہیں چھوڑ دیا۔وہ تہامہ سے ایک دن کے فاصلے پر تھے ، اُن کے کاہن عوف بن ربیعہ اسدی نے کہا ، ”اے میرے بندو! انہوں نے کہا ہم حاضر ہیں اے پروردگار۔اُس نے کہا، ”سرخ بالوں والا جبار بادشاہ کون ہے جو اونٹوں میں سانڈ کی ماند ہو اور جس پر شور و شغب کا اثر تک نہ ہو ، میں اُس کا خون بہتا دیکھتا ہوں ، وہ کل صبح لوٹ جائے گا ۔“انہوں نے پوچھا ، ”اے پروردگار ! وہ کون شخص ہے ؟“وہ بولا ، ”حجر!“بنی اسد فی الفور سوار ہوئے اور آن کی آن میں حجر کے گھر پہنچ گئے ۔ابھی صبح نہیں ہوئی تھی ، وہ دنیا و مافیھا سے بے خبر خوابِ شیریں کے مزے لے رہا تھاکہ وہ اس پر جھپٹ پڑے اور پلک جھپکتے میں اُسے تہہ تیغ کر دیا۔وہاں سے فرار ہوتے وقت حجر کی اونٹنیاں بھی بھگا لے گئے۔امراءالقیس دمون میں تھا کہ اُسے باپ کے قتل کی اطلاع ملی ۔ہرچند کہ باپ نے اُسے خانہ بدر کر رکھا تھا مگر باپ آخر باپ ہے ، وہ اس کا بہیمانہ قتل کیسے برداشت کر سکتا تھا۔غیرت کا اقتضا بھی تھا کہ وہ حجر کے قاتلوں سے انتقام لے ۔آنکھوں میں خون اتر آیا ، قسم کھائی کہ جب تک بنو اسد سے اس قتل کا بدلہ نہ لے لوں گا ، نہ گوشت کھاؤں گا نہ شراب پیوں گا۔اس موقع پر اُس نے یہ شعر کہے۔

ترجمہ: ” دمون میں رات لمبی ہو گئی ۔اے دمون ! ہم یمنی ہیں اور ہم اپنے خاندان سے محبت کرتے ہیں ۔

یہاں اُس نے ایک جملہ کہا کہ جس کے لفظ لفظ سے اُس کا دردِ دل چھلکا پڑتا ہے۔

ترجمہ:”میرے باپ نے مجھے چھوٹی عمر میں گنوا دیا اور بڑی عمر میں اپنے خون کا بدلہ مجھ پر چھوڑ گیا۔

رات ہوئی ، بجلی چمکی تو اُس نے یہ منظر دیکھ کر شعر کہے:

ترجمہ:”رات بجلی کوندی ، میری نیند اچاٹ ہو گئی ، بجلی پہاڑ کی بلندیوں پر چمک رہی تھی ۔بنو اسد نے اپنے مربی کو قتل کر لیا۔اب ہر صدمہ اُس صدمے کے آگے ہیچ ہے۔

(بحوالہ اشعرالشعراءابن قتیبہ و تاریخ الادب العربی زیات)

اُس نے بکر بن وائل پر حملہ کیا ۔یہ لوگ بنو کنانہ کے ہاں پناہ گزین تھے ۔بنی اسد کے بنو کاہل بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس موقع پر اس نے کہا :

ترجمہ”حیف کہ بنو کاہل بچ گئے ۔انہوں نے ایک جبار بادشاہ کو قتل کردیا ہے ۔بخدا میرے باپ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔تاللہ لا یذھب شیخی باطلاً۔

امراءالقیس اس حملے میں ناکام ہوا مگر اُسے فتح کا دعویٰ تھاجسے تسلیم نہیں کیا گیا۔عبید کا قول ہے :”اے ہمیں ہلاکت و ذلت سے ڈرانے والے تیرا باپ مارا گیا ہے ، تُو اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے کہ تُو نے ہمارے سردار کو قتل کر دیا ہے۔“اب وہ دربدر کی خاک چھانتا عرب قبائل سے مدد طلب کرتا پھرا۔مگر کہیں سے اسے خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔بالآخر کسی تدبیر سے اُسے قیصرِ روم تک رسائی حاصل ہو گئی ۔یہاں عجیب واقعہ یہ ہوا کہ قیصر کی بےٹی اُس کی محبت میں مبتلا ہو گئی۔دونوں میں خاصا میل ملاپ ہونے لگا۔لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک کسی کے چھپائے کہاں چھپتے ہیں ، بنتِ قیصر سے ملاقات ہر چند کہ خفیہ تھی مگر کسی ذریعے سے اس کی اطلاع طماح بن قیس اسدی کو ہو گئی ۔اُس کے باپ کو حجر نے قتل کیا تھا۔اب انتقام کا موقع تھا۔چنانچہ اُس نے قیصر کو اس وارداتِ عشق سے آگاہ کر دیا ۔امراءالقیس سخت خوفزدہ ہوااور وہاں سے بھاگ نکلا ۔وہ انقرہ میں تھاکہ قیصر کا قاصد اُسے واپس لانے کے بہانے وہاں پہنچا ، اُسے ایک خلعت دیا کہ زہر میں بجھا ہوا تھا، جس کے پہنتے ہی اُس کا سارا بدن پھٹ گیا اور جسم کا بندھ بندھ جدا ہو گیا ۔اسی عالم میں اُس کی موت واقع ہوئی ۔مرتے وقت اُس نے یہ شعر کہے۔

ترجمہ:”کتنے عمدہ خطبے اور کیسے شاندار وار اور کیسے بھرے لگن کل انقرہ میں رہ جائیں ۔بحوالہ اشعرالشعراءابنِ قتیبہ اُردو ترجمہ پروفیسر عبد الصمد صارم الازہری (

مؤلف تاریخ الادب العربی کے مطابق امراءالقیس497عیسوی سے 545عیسوی(130قبلِ ہجرت سے 80 قبلِ ہجرت تک(زندہ رہا۔یوں اُس کی مدتِ حیات اڑتالیس پچاس برس ہوتی ہے۔اُسے معاصر شعراءسے شاعرانہ معرکے بھی درپیش رہے۔ایک دلچسپ معرکہ وہ ہے جو امراءالقیس اور علقمہ بن عبدہ میں پیش آیا۔امراءالقیس اور علقمہ بن عبدہ میں سے ہر ایک کو شاعری میں اپنی بڑائی کا دعویٰ تھا۔دونوں میں ایک روز بحث چھڑ گئی کہ ہم میں سے بڑا شاعر کون ہے۔علقمہ نے کہا میں تمہاری بیوی امِ جندب کو حاکم بناتا ہوں ، وہ جو فےصلہ کرے گی اُسے ہم دونوں مان لیں گے۔امِ جندب نے کہا کہ تم دونوں ایک ہی قافیے اور ایک ہی ردیف میں قصیدہ کہو اور اس میں عمدہ گھوڑے کی صفات بیان کرو۔چنانچہ دونوں نے اشعار کہے ، دونوں کی شاعری سن کر اُمِ جندب نے فےصلہ سنایا کہ علقمہ امراءلقیس سے بڑا شاعر ہے ۔امراءالقیس نے پوچھا اس ترجیح کی وجہ کیا ہے تو اُس کی بیوی نے جواب دیا کہ تم نے کہا ہے کہ کوڑے مار مار کر اور ڈانٹ کر میں نے گھوڑے کو قابو میں کیااور علقمہ کا گھوڑا بغیر کسی کوڑے اور ڈانٹ کے ہوا سے باتیں کرتا ہوا نکل گیا۔یہ سن کر امراءالقیس نے کہا کہ علقمہ ہر گز مجھ سے بڑا شاعر نہیں ہو سکتا ، تم اُس پر عاشق ہو گئی ہو ۔پھر اُس نے اُمِ جندب کو اس غصے میں طلاق دے دی۔

( بحوالہ الموشح تالیف علی مرزبانی ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کا مقالہ عربی زبان میں ادبی تنقید کی روایت۔مشمولہ مجلہ نقوش لاہور سالنامہ 1990)

(3)

گو کہ اس اعزاز میں ایک دو نام اور بھی آتے ہیں لیکن از خلف تا سلف اکثر اربابِ فن کی یہ رائے ہے کہ جاہلی شعراءمیں سب سے بڑا شاعر امراءالقیس ہے۔عربی ادب کی تواریخ اور نقد و انتقاد کے موضوع پر تالیف ہونے والی کتابوں میں آشنایانِ فن کی آراءنقل ہوئی ہیں ۔جن سے میں بہ خوفِ طوالت صرفِ نظر کرتا ہوں اور بحیثیتِ شاعر ان امتیازات کی بابت گفتگو پر اکتفا کرتا ہوں جو اہلِ جاہلیت کی شاعری میں امراءالقیس کو حاصل ہیں ۔قدیم عربی شاعری کی مقبول ترین صنف قصیدہ تھی ۔مختلف اور متنوع موضوعات اسی کے وسیلے سے اظہار پاتے تھے ۔مدح ، ذم، رثا، رزم، غزل و تغزل، وقوع گوئی و منظر کشی ، شکایتِ دوراں اور کئی دیگر موضوعات کے بیان کا یہی وسیلہ تھا ۔اُس کے متعین اصول تھے جن کی پابندی شعراء پر لازم تھی ۔امراءالقیس چند در چند خصوصیات کی بناءپر جاہلی عرب میں اس صنف کا شاعرِ اعظم قرار پاتا ہے۔اس کی طبع ایجاد پسند نے شاعری میں نوع بنوع جدتیں پیدا کیں ۔جن سے ناقدینِ ادب نے اعتناء برتا ہے ۔اور دل کھول کر اس کے اکتساباتِ ہنر کی تحسین کی ہے۔استاد احمد زیات کے بقول ، ”وہ پہلا شخص تھا کہ ٹیلوں پر ٹھہرا اور دیارِ حبیب کی یاد میں رویا۔“ابنِ قتیبہ کہتا ہے ، ”امراءالقیس نے بہت سی جدتیں کی ہیں اور اہلِ عرب نے اُن کو پسند کیا اور لیا ہے ۔چنانچہ اُس کے قربِ ماخذ ، رقتِ کلام اور دیارِ حبیب پر دوستوں کے ٹھہرانے کو سب نے پسند کیا ہے۔(الشعرالشعرائے)

اسی سے ملتی جلتی باتیں دوسرے فن شناسوں نے بھی کی ہیں ۔ٹیلے یا کھنڈر پر رک کر اُس سے وابستہ ماضی کی یادوں کو دوہرانے اور تازہ کرنے کی روایت میں قدیم عربی شاعر ی میں مستحکم اور مستقل حیثیت حاصل کر لی اور قصیدے کی تشبیب کا جزوِ اعظم قرار پائی۔عہدِ رسالت و دورِ صحابہ اور اموی و عباسی اور مابعد کے ادوار کی قصیدہ گوئی میں اسے ناگزیر سمجھ کر اختیار کیا گیا۔نعتیہ قصائد تک کا اہتمام ہوا۔حضرت امام بوصیری کے شہرۂ آفاق و لازوال قصیدہ بردہ میں بھی ”ذی سلم“ کے ہمسایوں کی یاد میں اشک ہائے خون آمیز سے نظم کا آغاز ہوا۔بات بڑھی ہے تو داستانِ عشق بن گئی ہے ۔نہایت پاکیزہ و ارفع و اعلیٰ عشق ۔فارسی کے بعض قصائد کی تشبیب میں بھی اس روایت کے اثرات جھلکتے دکھائی دیتے ہیں ۔قدیم ایرانی شاعر منو چہری کے کلام میں رنگِ عرب آمیختہ بہ آہنگ حجم خاصا چوکھا ہے ۔بہرنوع شعر عرب میں اس روایت کی داغ بیل امراءالقیس نے ڈالی اور اُسی نے اسے کمالِ فن سے آب و تاب بخشی۔بات دوستو ں کو اس دعوت سے شروع ہوتی ہے :

قفا نبک من ذکری حبیب و منزل

ترجمہ:دونوں دوستو !ذرا ٹھہرو کہ حبیب اور اُس کے گھر کی یاد میں رو لیں ۔

پھر یہ ذکر و اذکار واقعہ در واقعہ اور سلسلہ در سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے ۔اس میں کیفیاتِ نشاط بھی ہیں اور لمحاتِ الم بھی ۔”قفانبک “سے ”أنابیش“(اَناَبیش (عنصل تک کہ اس کا اختتام ہے، ایک داستان مرتب ہوتی ہے۔جو دراصل شاعر کی آب بیتی ہے۔اس میں کہانی کے تینوں مراحل آغاز ، وسط اور انجام موجود ہیں ۔شاعر عالی نسب عرب اور بادشاہ زادہ ہے ، گو کہ بے گھر ہے مگر شخصیت کی تمکنت و وقار برقرار ہے۔مضمون پست ہی سہی مگر طرزِ اظہار میں وہ شخصی طمطراق و تفاخر اور شان و شکوہ کا احساس قائم رکھتا ہے۔قصیدے کے رموزِ فن سے آگاہ ہے اور انہیں ملحوظ رکھنا اور چابکدستی سے برتنا خوب جانتا ہے۔اسے جزیات کے بیان میں دسترس حاصل ہے۔اس کے تجرباتِ حیات گوناگوں ہیں ۔صحرائی و بدوی طرزِ زندگی ہو یا قریہ و شہر کا اندازِ زیست، اُن کا کوئی گوشہ کوئی پہلو اس کے مشاہدات کی زد سے باہر نہیں ۔چونکہ اس کا بیشتر وقت ریگستانوں میں آوارگی کرتے گزرا تھا اس لئے اس کے صبح و شام اور روز و شب پر صحرائی مناظر مستولی نظر آتے ہیں اور ان ہی کی دھوپ چھاؤں اس کے کلام میں نمایاں ہے ۔کہیں جھلسا جلا اور تڑخا تڑپا دینے والی تمازتِ آفتاب اور صرصر و سموم کے روح فرسا اور جان لیوا جھکڑ ہیں ، کہیں نخلستانوں کی سکون بخش فضا ہے ، کہیں کوسوں کی آبلہ پائی اور تشنہ کامی کے بعد کی چشمہ سار پر بسیرا لینے کا فرحت بخش لمحہ میسر ہوتا ہے۔پھر دوران سفر ریگزار کی خنک راتوں کا کیف ، چاروں جانب چھٹکی ہوئی چاندنی ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ، جمال آفریں صبحیں اور سرور آگیں شامیں ۔یہ صحرائی زندگی ہمارے ہاں علامہ اقبال کی شاعر ی میں عکس فگن ہے اور محاکات کے دلکش و دلآویز رنگوں اور ندرتِ تشبیہات و استعارات کا کمال دکھاتی ہے۔

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

راکھ پڑی ہوئی اِدھر ، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

(بالِ جبریل۔ذوق و شوق)

اے رہینِ خانہ تُو نے وہ سماں دیکھا نہیں

گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام

وہ حضر بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل

وہ نمودِ اخترِ سیماب پا، ہنگامِ صبح

یا نمایاں بامِ گردوں سے جبینِ جبرئیل

وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروب آفتاب

جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیل

اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں

اہلِ ایماں جس طرح جنت میں گردِ سلسبیل

صحرا کے حوالے سے اقبال یہاں برسبیلِ سخن یاد آگئے ورنہ اُن کے اور امراءالقیس کے معنوی عوالم و آفاق ایک دوسرے سے قطعاً مختلف و متضاد ہیں ۔کہنا یہ تھا کہ امراءالقیس کی فضائے شاعری صحرائی ماحول اور اُس کے متعلقات سے وجود میں آتی ہے۔اور زیب و زین پاتی ہے۔اس کے موضوعات ، اس کی تشبیہات ، اس کے استعارات ، اس کی محاکات ، اس کے محرکاتِ فن ، سبھی اس کے قریبی ماحول اور فضا و ہوا سے ماخوذ ہیں ۔یہیں سے اخذ کردہ شعری مواد کو وہ توانا تخیل اور زبردست خلاقی سے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے کہ بڑے بڑے فصحاءو بلغاءسخن میں اس کی سرداری کے معترف ہو جاتے ہیں ۔وہ جاہلی عرب کے اجتماعی رسوم و آداب اور نفسیاتی و اخلاقی کوائف کا بہت بڑا ترجمان ہے ۔امراءالقیس لذاتِ حیات پر مرتا اور اُن کے حصول کا کوئی لمحہ اور کوئی موقع رائیگاں جانے نہیں دیتا۔مگر غور کیجئے تو خوداُس کی زندگی مسلسل غم و الم سے عبارت ہے۔”رکو کہ رو لیں “ سے اُس کے معلقے کا آغاز ہی اُس کی پُردرد و حسرت ناک رودادِ زیست کی طرف بڑا ہی بلےغ اشارہ ہے۔پھر نوبنو اورنوع بنوع تجربات کی یاد بلکہ یادوں کا دُور تک پھیلا ہوا سلسلہ ہے، جس میں گفتنی و نا گفتنی سبھی کچھ سمایا اور سمویا ہوا ہے ۔عنیزہ (فاطمہ کہ اس کی بنتِ عمہ تھی) کی جدائی کاداغ اُسے جلائے رکھتا ہے ۔ابتدائی اشعار میں اُس نے اپنا تمام تر سوزِ جان و التہابِ قلب بھر دیا ہے۔

ترجمہ:” اے دوستو! دونوں ذرا رکو کہ ہم حبیب اور اُس کے گھر کی یاد میں رو لیں ، جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقاماتِ دخول و حومل اور توضح و مقراة کے درمیان واقع تھا، جس کے آثار اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اُس پر جنوبی اور شمالی ہوائیں برابر چلتی رہیں ۔

مطلب یہ ہے کہ بادِ جنوب کچھ ریت اڑا کر لے جاتی تھی تو بادِ شمال اُسے پھر وہیں لا کر ڈال دیتی تھی ۔چنانچہ وہ آثار باقی رہتے تھے۔ہمارے عربی زبان و ادب کے فاضل اجل اور اُردو کے منفرد شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس حسن سے یہ منظر غزل کے شعر میں پیش کیا ہے۔سبحان اللہ

ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب

کوئی دم میں موجۂ بادِ شمال آ جائے گا

عنیزہ کیا گئی ، نہ وہ گھر رہے نہ وہ آنگن ، نہ وہ دیار رہے نہ آثار ، نہ وہ زماں نہ مکاں ، سب کچھ اجڑ گیا۔ویرانی وہ کہ جہاں زندگانی پوری تابانی سے وفور دکھاتی تھی ، اب وہاں ہو کا عالم ہے ۔جہاں انسانوں کے بسیرے تھے وہاں وحشی جانوروں کے ڈیرے ہیں ۔

سفید ہرنوں کی مینگنیاں اُس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسے پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے ۔“(اُردو ترجمہ از قاضی حسین)

وہاں سفید ہرنوں کی مینگنیوں کا پایا جانا اس بستی کے اجاڑ اور بے آباد ہونے کی دلیل ہے ۔مشہور ہے کہ سفید ہرن کچھ زیادہ ہی وحشت زدہ ہوتا ہے اور بہ نسبت دوسرے جانوروں کے ویرانوں میں رہنا پسند کرتا ہے ۔ ع ”نہیں بھولتا اُس کی رخصت کا وقت “ ، وہ بھی کیا گھڑی تھی گویا قیامت سر پر کھڑی تھی

ترجمہ شعر”:جب صبحِ فراق وہ (محبوبہ اور اُس کے ہمراہی(رختِ سفر باندھ رہے تھے ، میری یہ حالت تھی گویا میں قبیلے کے کیکروں کے پاس کھڑا اندرائن توڑ رہا تھا۔“اندرائن کی تیز کڑواہٹ آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنے کا سبب بنتی ہے۔

یہ شعر تشبہہ کی عمدہ مثال ہے۔

ترجمہ شعر:”میں رو رہا تھا اور احباب میرے پاس اُن میدانوں میں اپنی سواریوں کو روکے ہوئے کہہ رہے تھے کہ (غمِ فراق سے (ہلاک نہ ہو اور صبرِ جمیل اختیار کر ۔“(ترجمہ از مولانا قاضی سجاد حسین)

ترجمہ شعر:”میں کہتا تھا ، ”میں بھلا رونے سے کیونکر باز آسکتا ہوں کہ میری شفا ان ہی آنسوؤں میں ہے ۔کیا ان مٹے ہوئے آثار کے پاس کوئی ایسا فریاد رس ہے جو قابلِ اعتماد ہو ۔

یہ وارداتِ حزن و یاس ہے مگر یہ کیفیت فوراً ہی ماضی کی اُن یادوں میں بدل جاتی ہے جن کا تعلق ان لمحات وواقعات سے ہے جو پُر ماجرا بھی تھے اورپر نشاط و پر تعیش اور نہایت ہوسناک اور عریاں بھی۔اُم الحویرث ، ام الرباب اور سلامہ(سلمیٰ) سے بدنی اختلاط کا بے باکانہ بیان ہے۔

ایک مقام دارہِ جلجل کا ذکر کرتا ہے کہ عنیزہ اس چشمے یا حوض پر ہمجولیوں کی معیت میں مل گئی ۔یہ دن بڑا ہی کیف افزا تھا۔امراءالقیس نے ان دو شیزاؤں کی خاطر اپنی اونٹنی ذبح کر دی اور گوشت سے اُن کی ضیافت کی ۔یہ دو شیزائیں بڑی شوخ اور چنچل تھیں ، شرارت سے مسکراتی ہوئی گوشت کے ٹکڑے ایک دوسرے پر پھینکتی تھیں ، چربی کے لچھے اچھالتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے ریشمی جھالریں ہوا میں اُڑ رہی ہوں ۔اب اُس کے پاس سواری کو کچھ نہ تھا ، کجاوہ بھی کسی اور کجاوے پر باندھ دیا گیا تھا، نہ اونٹنی رہی نہ اُس کا کجاوہ ۔بامر مجبوری عنیزا نے اُسے اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا۔یوں اُسے دست درازی و دست اندازی کا موقع ہاتھ آگیا۔مگر ایسا لگتا ہے کہ اُسے بے نیل و مرام کجاوے سے اتر جانا پڑا ۔

ایک روز ریت کے کسی ٹیلے پر عنیزہ نے اُس سے نہ ملنے کی ایسی قسم کھائی جس کا توڑ ممکن نہ تھا۔پھر وہ عمر بھر ایک دوسرے سے نہ مل سکے ۔اس موقع پر محبوبہ سے طرزِ تخاطب میں التجا اور عجز و نیاز کا رنگ خاصا متاثر کن ہے۔فاطمہ(عنیزہ) سے اظہارِ عشق یہی نہیں کہ امراءالقیس کے گھر سے اخراج کا باعث بنا بلکہ اس سے اُس کی جان بھی خطرے میں پڑی۔ایک موقع پر اُس کے والد حجر نے اپنے غلام ربیعہ کو بلا کر کہا کہ امراءالقیس کو قتل کر کے اُس کی آنکھیں نکال کر لا دو ۔ربیعہ نے ایک نیل گائے کا بچہ ذبح کیا اور اُس کی آنکھیں نکال کر لا دیں ۔حجر بہت نادم ہوا ۔غلام نے کہا آپ اطمینان رکھیے میں نے اُسے قتل نہیں کیا ۔حجر بولا تو اُسے لے آ، وہ اُسے لے آیا ۔باپ نے اُسے شعر کہنے سے منع کیا مگر وہ باز نہ آیا ۔باپ کو اُس کی شعرگوئی کا پتا چلا تو پھر گھر سے نکال دیا۔

(بروایتِ ابنِ قتیبہ اشعرالشعراء۔اردو ترجمہ)

امراءالقیس کے ہاں نادر و نوتشبیہات کے چند نمونے ملاحظہ ہوں :

ترجمہ:”پرندوں کے تر اور خشک دل اُ س(باز)کے گھونسلے کے نزدیک پڑے یوں لگتے ہیں جیسے عناب یا سڑی ہوئی کھجوریں ہوں ۔

اُمِ حویرث اور اُمِ رباب کی چھب ڈھب اور سج دھج دیکھئے۔

ترجمہ: جب وہ دونوں کھڑی ہوتی تھیں تو اُن(کے بدن) سے مشک کی لپٹیں یوں اٹھتی تھیں گویا بادِ صبا لونگ کی خوشبو سے لدی آتی ہو۔

ترجمہ: وہ ایسے ان چھدے موتی کی مانند ہے جس میں زردی اور سفیدی ملی ہوں ۔اور اُس صاف پانی میں پلا ہو جسے کسی نے گدلا نہ کیا ہو۔

ترجمہ:وہ ایسی نرم و نازک انگلیوں سے چیزیں پکڑتی ہے گویا وہ (انگلیاں ) وادئ ظبی کے کینچوے یا پیلو کی مسواکیں ہیں ۔

گھوڑے کی تعریف میں فردوسی اور انیس کی خیال آرائیاں آپ نے دیکھی ہوں گی ، اس باب میں ہمارے ان دو عظیم سخنوروں کے تخیل کی اڑانیں بھی کچھ کم نہیں ، اس جانور کی ایک ایک ادا امراءالقیس کے تیز و تاباں مشاہدے اور تجربے کی زد میں ہے۔یہ بادیہ پیما سخنور اس کے وصف میں ایسی ایسی تشبیہات لاتا ہے کہ ذوقِ شعر وجد کرتا ہے۔اسپِ تازی اپنے انفرادی طبعی خصائص میں یوں بھی ضرب المثل ہے پھر جب وہ اس کے بے باگ و بے باک کندی شہزادے کے زیر ران ہو تو اس کی رفتار میں عجب آن بان اور شوکت و شان آجاتی ہے۔کھونٹے سے بندھا ہو تو بھی وقار اعتبار رکھتا ہے۔چلے توقیامت ، رُکے تو گردشِ دوراں تھم جائے۔چند مثالیں دیکھئے۔

ترجمہ:بیک وقت بڑا حملہ آور اور تیزی سے پیچھے ہٹنے والا، آگے بڑھنے والا ، پشت پھیرنے والا ، اُس پتھر کی طرح جس کو سیلاب (کے بہاؤ)نے اوپر سے گرایا ہو۔

ترجمہ:اُس کی کوکھیں ہرن کی سی ہیں اور پنڈلیاں شترمرغ کی سی۔بھیڑیے کا سا دوڑتا ہے اور لومڑی کے بچے کا سا پویا۔

ترجمہ:جب وہ گھر کے پاس کھڑا ہوتا ہے تو اُس کی کمر دلہن کی خوشبو ، پیسنے کے پتھر یا حنظل(اندرائن( توڑنے کی سل (کی طرح) معلوم ہوتی ہے۔

ترجمہ:باوجود چھریرے پن کے نہایت گرم رو ہے ۔جب اُس کی گرمئی رفتار جوش مارتی ہے تو اُس کی آوازہانڈی کے اُبال کی طرح سنائی دیتی ہے۔

ترجمہ:(گلے کے(وحشی جانوروں کا خون جو اُس کے سینے پر لگ گیا ہے ، کنگھی کئے ہوئے سفید بالوں میں مہندی کے عرق کی طرح معلوم ہوتا ہے ۔

ضمناً یاد آیا آپ نے اقبال کا یہ شعر یقیناً پڑھا ہو گا۔

گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا

بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

اس میں مضمون کی ارفعیت ظاہر ہے۔مگر اس خصوصیت کو تشبیہہ کی ندرت چار چاند لگا رہی ہے ۔مضمون مختلف ہے مگر قندیلِ رہبانی امراءالقیس کے ہاں کس طرح جلوہ ریز و تجلی خیز ہے ، ملاحظہ فرمائیے:

ترجمہ:یہ بجلی چمک رہی ہے یا اُس راہب کے چراغ ، جس نے بٹے ہوئے فتیلوں پر تیل جھکا دیا ہے۔

ترجمہ:رخِ درخشاں سے وہ شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی کو یوں روشن کر دیتی ہے جیسے خدا رسیدہ راہب کا چراغ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیرے کو اجال دیتا ہے۔

جگہوں اور مقامات کے تعلق سے اُس نے موسمی اور جغرافیائی کیفیات کی حسبِ موقع خوب عکاسی کی ہے ۔اس میں تشبیہہ ، استعارے ، مجاز، کنائے اور محاکات کے رنگ گھلے ملے ہیں اُن سے جہاں کلام کی معنویت بڑھتی ہے وہاں جمال آفرینی کا فریضہ بھی بطریقِ احسن انجام پایا ہے ۔معلقے کا آخری شعر ہے۔

ترجمہ:جوا (مقام کا نام ہے)کے اطرافِ بعید میں درندے کہ سر شام عرقاب ہو گئے تھے ، انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پیاز کی جڑیں پانی پر تیر رہی ہوں ۔“محاکات کے اعلیٰ نمونے انسانی جذبات کی دل آویز مصوری ، زبان و محاورے کی لطافتیں اور ترکیب و بندش کا استحکام ، شاعر کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہے۔اشعار میں موسیقیت کا عنصر انہیں لطیف و دلپذیر نغمے کی حیثیت عطا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب کے معروف مغنی اور مطربائیں اُس کا کلام گاتی تھیں اور داد پاتی تھیں ۔بعض فحش اور پست موضوعات کے باوصف فقط کمالِ فن کی بنا پر عربی مدارس کے نصاب میں دیگر شعرائے عرب کے معلقات کے ساتھ امراءالقیس کی نظم بھی شامل رہی ہے اور اب بھی ہے۔وفاق المدارس کے اعلیٰ درجات میں بھی اُس کی تدریس ہوتی ہے ۔یونیورسٹی کی سطح پر ایم اے عربی کے نصاب میں اُس کی شمولیت ہمیشہ ضروری سمجھی گئی۔۔دنیا کی اکثر ترقی یافتہ زبانوں میں اُس کے ترجمے اور شرحیں ہو چکی ہیں ۔خود ہماری زبان میں اُس کے کئی تراجم اور شرحیں موجود ہیں ۔اربابِ نقد و نظر نے شعرو ادب کی بابت نظری و عملی مباحث میں اُسے لائقِ اعتنا گردانا ہے۔اور دعویٰ اثباتِ دعویٰ اور ردِ دعویٰ میں اُس کے اقتباسات سے استناد کیا ہے۔میری گزارش ہے کہ قدیم عرب کے اجتماعی مزاج کو سمجھنے کے لئے اس نوع کی منظومات کا توجہ سے مطالعہ ناگزیر ہے۔سفلی جذبات کی جب ترفیع(sublimation( ہوتی ہے توتاریخ عالم میں کیا انقلاب رونما ہوتا ہے یہی بھٹکے اور بہکے ہوئے عرب اسلام لا کر انسانی تہذیب و تمدن کو کن رفعتوں تک لے گئے۔ارتقاءانسانی میں اُن کا کارنامہ اتنا روشن و تابناک ہے کہ اُس کے ذکر سے تاریخ کے صفحات دمک رہے ہیں ۔

کارواں رفتہ و اندازہءجاہش پیداست

زیں نشاں ہاکہ بہر راہگزار افتداست

(4(

جناب اکرام جمالی نے امراءالقیس کی نظم کا ترجمہ جس لگن ، انہماک ، ریاضت اور تخلیقی سرشاری سے کیا ہے ، اُس نے اُسے مستقل بالذات تخلیق کے مقام پر فائز کردیا ہے۔اسے اگر آپ اصل عربی متن سے الگ ہٹ کر بھی پڑھیں تو اس میں آپ کو ایک دلپذیر اُردو نظم کی بیشتر خوبیاں مل جائیں گی۔اُردو کا جوہرِ زبان بحال رکھتے ہوئے انہوں نے نظم کی پیشکش میں وہ اہتمام برتا ہے کہ عربی ماحول و مزاج اپنے تمام تر جلال و جمال کے ساتھ ہر کہیں عکس ریز ہے۔پڑھنے والا بیک وقت اُردو شاعری کی لطافت اور گھلاوٹ سے بھی لذت یاب ہوتا ہے اور عربی کے رس ، رنگ ، ذائقے اور چاشنی سے بہرہ اندوز بھی۔ترجمے کے فن میں یہ خاصا مشکل کام ہے۔بالخصوص اس صورت میں کہ ترجمہ نظم کا ہو اور نظم میں ہی کیا جارہا ہو۔یہ بڑی پتّے ماری اور جگر داری کا کام ہے۔تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جنابِ اکرام جمالی نے اسے نہایت قرینے اور سلیقے سے انجام دیا ہے۔

امراءالقیس کا قصیدہ لامیہ ہے اور جیسا کہ اس صنف کے اصول ِ ہےئت کا تقاضا ہے ، تما م اشعار ایک ہی قافیے اور وزن میں ہیں ، فاضل مترجم نے ہےئت کی روایتی پابندیوں سے یکسر انحراف برتا ہے اور ترجمے کے لئے نظمِ آزاد کو ترجیح دی ہے ۔یہ بڑا مستحسن اقدام ہے کہ اس سے نظم کی تمام تر معنویت کے ساتھ اردو میں منتقل کرنے کی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔یہ بھی ہے کہ اگر روایتی ہےئت کو اپنایا جاتا تو شاید وہ مذاقِ جدید کی چیز نہ بن پاتی اور نظم میں نئی ہےئتوں اور اسالیب کی عادی طبائع کو اسے قبول کرنے میں تامل ہوتا ۔ترجمے میں تازگی اور برجستگی کی بجائے یبوست اور بے مزگی پیدا ہو جاتی۔موجودہ فارم میں ترجمہ اتنا رواں دواں ہے کہ پڑھتے ہوئے طبیعت خودبخود اُس کے بہاو


¿ کے ساتھ بہنے لگتی ہے۔پکھلی کا نالہ سرن یوں بھی فراز سے نشیب کی سمت بہتا ہے اور اپنی روانی میں بڑا ہی سرجوش واقع ہوا ہے۔برسات میں تواس کی سرعتِ رفتار دیو ہیکل چٹانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔تاریخی قصبہ بفہ اور سرن باہم دگر لاینفک ہیں ۔اس قصبے کے باشندوں کا مزاج بھی آبِ رواں کا سا اور ”موج زخودرفتہ“ کی طرح تیز خراماں اور ” ہستم اگر می روم گر نہ روم نیستم“سے عبارت ہے۔اس میں آپ وادی
¿ سرن کے دےگر مقامات کو بھی شامل سمجھئے۔مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اکرام جمالی کی طبیعت میں روانی کا مادہ اُن کے ماحول کی نسبت سے جبلی ہے۔لہجہ شگفتہ و پربہار اور باوقار ہے۔زبان و بیان پر گرفت اُسے اعتبارِ فن عطا کرتی ہے۔

میں عرض کر چکا ہوں کہ نظم کا بالخصوص کسی رفیع (sublime(منظوم کارنامے کا کسی دوسری زبان میں منظوم ترجمہ کرنا بڑا جوکھم ہے۔اس میں نہ فقط مترجم کا ہر دو زبانوں پر قادر ہونا لازم ہے ، اسے شاعری میں خلاقانہ بتوغ بھی حاصل ہونا چاہیے تاکہ اصل کا عطر ِ سخن کھنچ کر ترجمے میں آ جائے اور جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اُس کا جوہر بھی برقرار رہے ۔دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی سے نظموں کے بے شمار تراجم اُردو نظم میں ہوئے مگر اُن میں چند ہی ایسے ہیں جنہیں اُردو کے مذاقِ سخن نے قبول کیااور پسندیدگی کی سند عطا کی ہو۔تھامس گرے کی شہرہ آفاق ”ایلجی“(مرثیہ( کا ترجمہ علامہ علی حیدر نظم طباطبائی نے ”شامِ غریباں “کے عنوان سے اُردو نظم میں ایسا کیا کہ بذاتہ ایک تخلیقی شہکار بن گیا۔اسی طرح تھامس مور کی نظم ”light of other days“ کو نادر کاکوروی نے اُردو نظم کا لباس پہنایا ۔ترجمہ اس برجستگی سے ہوا کہ اُس کی سطریں اور مصرعے ضرب المثل کی طرح زبانوں پر چڑھ گئے۔مغنیہ ریشماں نے اپنے خاص سرتال اور لحن میں اُسے گایا تھا تو ”اکثر شبِ تنہائی میں “کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا اور ادب اور موسیقی کی دنیا میں اُس کی دھوم مچ گئی۔علامہ اقبال نے بعض انگریز شعراءکی نظمیں اُردو نظم میں منتقل کیں ، یہ ترجمے ترجمہ نہیں اصل معلوم ہوتے ہیں ۔علامہ اقبال کی فنکارانہ خلاقی نے اُن میں کے ہر ترجمے کو بنفسہ تخلیق بنا دیا ہے۔ تقسیم برصغیر سے قبل انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی نظموں کا ایک مجموعہ (اصل اور ترجمہ( ”دو آتشہ“ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔یہ کتاب کمال کی چیز تھی ۔اس میں اُس وقت کے نامور سخن وروں کے بہت اچھے منظوم تراجم تھے۔اردو میں روسی ، فرانسیسی ، بنگلہ ، چینی ، جاپانی ، عربی ، فارسی ، پنجابی ، پشتو ، بلوچی ، براہوی، سندھی ، ہندی ، سنسکرت وغیرہ زبانوں کی منظومات کو منتقل کیاگیا۔ان میں بعض تراجم اردو کے شعری سرمائے میں لائقِ قدر اضافہ ہیں ۔

میری رائے میں ”رکو کہ رو لیں “ بھی باعتبار ِ معیار اسی قبیل کی ایک کاوش ہے ۔جس دھوم دھام کا اصل قصیدہ ہے اسی نوع کا اہتمام بحدِ امکان ترجمے میں بھی ہے ۔اکرام جمالی نے عربی متن میں ڈوب کر اس سے ترجمے کے موتی نکالے ہیں ۔وہ اصل کے ساتھ گام بگام چلے اور قدم بقدم بڑھے ہیں ۔ایک زبان کی نظم کو دوسری نظم کے موزوں قالب میں ڈھالتے ہوئے مترجم کی مشکلات کے پیش نظر اُسے کسی حد تک آزادی برتنے کی اجازت ہوتی ہے ۔اکرام صاحب نے بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھایا ہے ۔کمال یہ ہے کہ انہوں نے قصیدے کے ایک ایک لفظ کو اُس کی معنوی دلالتوں اور تلازمات کے ساتھ اردو نظم میں یوں منتقل کر دیا ہے کہ اصل و ترجمہ ایک دوسرے کے عین مطابق ہو گئے ہیں ۔بطورِ مثال ابتدائی چند اشعار کا ترجمہ دیکھئے۔

عربی سے اردو ترجمہ از مولانا قاضی سجاد حسین”ذرا ٹھہرو کہ ہم محبوبہ اور اس کے اس گھر کو یاد کر کے رولیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقاماتِ دخول اور حومل اور توضیح ومقراة کے درمیا ن واقع ہے، جس کے نشان اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس میں جنوبی اور شمالی ہوائیں (برابر(چلتی رہتی ہیں ۔

اکرام جمالی نے اسے یوں اُردو نظم میں منتقل کیا ہے؛

رکو! کہ رو لیں

بیاد جاناں

وہ گھر (عنیزہ کا( یاد کر کے

جو ریت کے اس بسےط ٹیلے پہ

(اس جگہ(تھا

دخول و حومل کے درمیاں تھا

(جو اک پڑاو


¿ (

وہ جس کے اطراف میں تھے

مقرات اور توضح

(اجڑ چکا ہے(

نشانِ خاکستر (پسِ کارواں ( کو لیکن

مٹا سکا ہے

نہ لمسِ بادِ جنوب اب تک

نہ رقصِ بادِ شمال اب تک

مقامات (دخول ، حومل، مقرات اور توضح ( عرب کے ، ماحول و فضاعرب کی ، جذبات ایک عرب عاشق کے کہ شاعر بھی ہے، ذہنی کیفیت ناسٹیلجیا کی ، یاد ِ ماضی عذاب بنی ہوئی ، لہجہ سخت حزنیہ۔شعر عرب کے رمز شناس جانتے ہیں کہ ”قفانبک“میں بیان کا کیا زور و شور ہے۔پسِ منظر میں ایک کارواں ہے کہ اُس مقام سے گزر رہا ہے کہ جہاں کبھی عنیزہ کا مسکن ہوا کرتا تھا۔یہاں پہنچ کر عہدِ رفتہ کے تصور سے عاشق (شاعر(تڑپ اٹھا اور رفیقانِ راہ سے رک جانے کو کہا۔

عآو


¿ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہمبات میں التجا کا رنگ ہے ، یہ امور جملہ متعلقات کے ساتھ ترجمے میں آگئے ہیں ، اُردو نظم میں بھی وہی بلاغت ہے جو اصل عربی شعروں میں ہے ۔مشاہدے ، فکر، احساس، جذبے ، تخیل اور تخلیقی ابال میں عرب شاعر اور اردو مترجم ہمدست و ہمقدم ہی نہیں ، یک دل و یک جان ہو گئے ہیں ۔لطف یہ ہے کہ ہر دو اپنے اپنے عہد میں سانس لے رہے ہیں ۔امراءالقیس چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول میں جاہلی عرب کا شاعر تھا، اس کے کارنامہء سخن کو اسی عہد کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اکرام جمالی کا ترجمہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں انجام پاتا ہے اور اس عہد کے اردو شاعری کے امیال و عواطف ، عمومی فنی رحجانات اور ہئیت و اسلوب کی نمائندگی کرتا ہے۔اس کے بعض حصوں کو علیحدہ کر کے دیکھئے اور الگ الگ عنوان دے دیجئے تو ان کی حیثیت ہمارے دور کی مختصر اردو نظموں کی سی ہو جائے گی ۔آپ ان میں عصرِ رواں کی اردو شاعری کا سا رنگ ، رس ، کیف اور اثر پائیں گے۔اس نوع کی دو مثالیں ملاحظہ کیجئے :

بہت سی راتیں

گزاریں ایسے

جو موجِ دریا کی مثل مجھ پر

غموں کے پردے

بڑھا بڑھا کر گرا رہی تھیں

کہ آزمائیں مری محبت کو

خوف و حرماں کی تیرگی سے

وہ تیرگی میں بھرے اجالے

(چمک ہے اس کی جبیں پہ ایسی)

کہ جیسے (جنگل میں )شام ہی سے

خدا رسیدہ بزرگ راہب کے شب کدے کا چراغ

دیوٹ پہ ضو فشاں ہو

یہ ایک سلسلہِ کل کی اجزائی کڑیاں ہیں مگر انہیں الگ الگ کر کے دیکھئے تو ان میں سے ہر ایک معنی و مفہوم اور خیال و تاثرمیں مستقل بالذات حیثیت کی حامل ننھی منی سی نظم ہے۔کل کی سلسلہ بندی میں برابرانکا کردار ہے۔واقعات و حوادث منظر بہ منظر جس طرح امراءالقیس کے اصل قصیدے میں ابھرتے ، بڑھتے ، اترتے ، چڑھتے چلے جاتے ہیں ، یہ صورت ترجمے میں بھی بدستور موجود ہے ۔امراءالقیس کے چند در چند کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس کی نظم کے کسی شعر کو آپ زائد یا بھرتی کا بیت قرار دے کر خارج نہیں کر سکتے ۔تمام اشعار باہم اس قدر مربوط و پیوست ہیں کہ کسی شعر کے نکال دینے سے سارا سلسلہ ء خیال درہم و برہم ہو جاتا ہے اور نظم کا مجموعی تاثر بگڑ جاتا ہے۔جمالی صاحب ترجمے میں اصل کی یہ خصوصیت برقرار رکھتے ہیں ۔اس کا اندازہ پوری نظم پڑھ کر ہی ہو سکتاہے۔

اکرام جمالی نے ترجمے کے لئے مفعول فعلن(زمانہ آیا ہے بے حجابی کاعام دیدارِ یار ہوگا( کا وزن ارکان کی کمی بیشی کے ساتھ اختیار کیا ہے ۔جو مزاجاً رواں دواں اور مترنم ہے۔سلاست اور صفائی کا وصف ہر کہیں موجود ہے ۔زبان سادہ اور سہل اور بیان پختہ و پرکارانہ ہے ۔الفاظ کے انتخاب اور ترتیب و ترکیب میں حسن کاری کا کمال پوری نظم میں جلوہ نماہے۔وضاحت طلب مقامات پر ایک دو مصرعوں یااجزائے مصرع کا اضافہ قوسین میں کر دیا گیا ہے۔مگر وہ اصل سے اس طرح مربوط ہو گیا ہے گویا اسی کا حصہ ہے۔قوسین میں دئیے ہوئے موزوں ٹکڑے مترجم کی تراوشِ فکر ہیں ۔

امراءالقیس عورتوں سے ارتباط و اختلاط کے بیان میں بیباکانہ سرائی اور عریاں گوئی کی انتہائی حدوں کو چھوتاہے ۔دارأ جلجل، مرضعہ کا خلوت کدہ، عنیزہ سے محل میں یکجائی، امِ حویرث ، امِ رباب ، سلمیٰ یا سلامہ سے مراسمِ شوق کی کیفیات اور ایسے ہی معاملات و واردات کا بیان امراءالقیس کے سے ہیجانی اسلوب میں اگر ناممکن نہیں تو سخت دشوار ضرور تھا۔ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی حدود و قیود بھی اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔ہرچند کہ جنسی عریانی و ہوس رانی کے بیان میں ہمارے بعض شاعر خوب کھلے اور کھل کھیلے ہیں ۔ریختی تو اس باب میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ریختے میں بھی اس کے شہکار نمونوں کی کمی نہیں ۔تاہم اکرام جمالی نے انہیں سند نہیں جانااور قصیدے کے اس نوع کے ابیات کا ترجمہ لہجے میں تہذیب اور ادا و انداز میں رکھ رکھاؤ ملحوظ رکھ کر کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ جمالِ فن کا جادو بھی جگاتے چلے گئے ہیں ۔

اصل کی طرح محاکات کے رنگ ترجمے میں بھی خاصے چوکھے ہیں ۔مناظر و واقعات کی تصاویر ، تشبیہہ کے آب ورنگ سے مزین ہیں ۔اکثر تشبیہات مرکب اور متحرک ہیں ، جزیات بیانی اپنا لطف رکھتی ہے۔

(دہک رہی تھی وہ صورت ایسی)

کہ جیسے موتی جواَن چھدا ہو

سفید رنگت میں جس کے (ہلکا سا)زرد

(شعلہ ) ملا ہوا ہو

وہ دّرِ یکتا

جو آبِ شفاف پر پلا ہو

وہ آبِ شفاف

جس کو کوئی نہ چھو سکا ہو

(عجیب منظر تھا)

اپنے گالوں کی آڑ لے کر

وہ مجھ سے آنکھیں چرا رہی تھی!

کہ جیسے وجرہ ٭کی نیل گائے

(کنکھیوں سے

بڑی محبت سے اپنے بچے کو دیکھتی ہو!)

(کبھی)وہ چہرہ ذرا اٹھا کر مجھے دکھاتی

٭وجرہ ایک مقام۔

وہ مینڈھیاں

جو گندھی ہوئی ہیں ، تنی تنی سی اٹھی ہوئی ہیں

مگر جو کچھ کچھ کھلے ہیں گیسو

وہ مینڈھیوں سے یوں مل گئے ہیں

کہ اُن میں جوڑا بھی چھپ گیا ہے

جہاں لمحات ِوصل انتہائی لذت زا اور عیش افزا تھے ، وہاں ہجر کی گھڑیاں بھی کچھ کم جان گداز نہ تھیں ۔

بہت سی راتیں

گزاریں ایسے

جو موجِ دریا کی مثل مجھ پر

غموں کے پردے

بڑھا بڑھا کر گرا رہی تھیں

کہ آزمائیں مری محبت کو

خوف و حرماں کی تیرگی سے

آپ نے اپنی شاعری میں شبِ ہجر کے کئی طور دیکھے ہیں ۔درازی میں اس کا دامن ، دامنِ قیامت سے بندھا ہے۔

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں

شب ہائے ہجرکو بھی رکھوں گر حساب میں

(غالب)

ہر آن مجھ کو تجھ بن اک اک برس ہوئی ہے

کیا ہو گیا زمانہ اے یارو رفتہ رفتہ

(میر تقی میر)

مجھے محسوس ہوتا ہے شبِ ہجر

رکی رہتی ہے لمحوں کی روانی

(احمد ندیم قاسمی)

اکرام جمالی کے ترجمے میں ایسی ہی رات کی ایک جھلک دیکھئے؛

(اور پھر وہ)

اک ایسی شب تھی

طویل انگڑائی لے کے بیدار ہو رہی تھی

(تو مضطرب ہو کے)

میں پکارا

شبِ دراز!

اے شبِ دراز سیاہ

نور سحر میں ڈھل جا!

(سحر کہ حرماں کی شدتوں میں

ذرا بھی کم تر نہیں ہے تجھ سے)

کہ وہ بھی بہتر نہیں ہے تجھ سے

سیدھا سادہ سا ، صاف اور راست سا اندازِ بیان ہے ، مگر لفظ لفظ میں درد و سوز اور اثر و تاثیر کا وہ عالم ہے کہ پتھر کو بھی گداز کئے دیتا ہے۔حاصلِ کلام یہ کہ جناب اکرام جمالی بحیثیت مترجم خاصے کامیاب و بامرادرہے ہیں ۔وہ اس اعتبار سے بھی نئی اردو شاعری میں سرخرو و آبرو مند ٹھہرتے ہیں کہ ان کا زیر نظر ترجمہ از بسکہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے، ایک عمدہ طویل نظم ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے عہد کی اردو شاعری میں طویل نظموں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ۔اس نظر سے دیکھئے تو جناب اکرام جمالی کی یہ کاوش اردو نظم میں ایک بڑا اضافہ ہے، جو بہر حال مستحقِ داد و تحسین ہے۔عربی متن کے حاشیے میں مفردات کے اردو ترجمے کی شمولیت سے اصل متن کی تفہیم میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔عربی ادب کے طالب علم اور عام شائقین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔