شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

دو ہاتھ کا فاصلہ

مطیع الرحمان

”سبز پہاڑیوں کے بیچ مخملیں میدان میں وہ ناچ رہی تھی

اُس کا بدن ناچتا ہے اور لوگوں کے دل۔ وہ سولہ میں ہے یا سترہ میں اور وہ اُن میں سے ہے جو مار دیتی ہیں کبھی دکھا کرکبھی چھپا کر۔اور جن سے آسودگی ہے گھر، دل اور بستر پہ ۔

نہ مانی جائے اُن کی مگر تھوڑی کہ اثبات اُن کا نفی اور نفی اُن کا اثبات ہے۔“بابا کہہ رہا تھا۔

میرے سر کے اوپر ایک پرندہ پُھر سے اُڑتا گیا۔میں نے سوچا کہ وہ بابا کی بات کو بھی اپنے پَروں میں باندھ کر لے گیا ہے۔

کاروبار میں نقصان نے لہو چاٹا تو گھر والی کی چخ چخ نے دماغ۔ وہ سارا الزام میرے دوستوں کے سر ڈال رہی تھی کہ وہ میرے ہی چنیدہ تھے”میں نہ کہتی تھی کہ ان دوستیوں ووستیوں میں کچھ نہیں رکھا۔میں تو کہنا چاہتی ہوں کہ!!“

مگر وہ جو کہنا چاہتی تھی میں وہ سننا نہیں چاہتا تھا۔میں نے ”کچھ کرتے ہیں“کا مبہم جملہ اُس کی طرف لڑھکایا اور بیڈروم کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔

اور یہ ”کچھ کرنا“ کیا تھا۔ایک قلمی کاغذی بندہ کر بھی کیا سکتا تھا۔سوچا کہانی لکھ کر بوجھ اُتار دوں۔ہم چار تھے اور چور ہمیں میں تھا۔کاروبار میں گھاٹا بے سبب تھوڑی ہوتا ہے۔کون ہے وہ؟کون ہےکون ہے بھلا؟؟ سوچتے سوچتے دماغ دہی بن گیاکچھ نہ سوجھاہمارا طریق ہی واہیات تھا۔کاروبارکا۔ نہ کوئی نوکر نہ کوئی باسہاں۔ مجھے امتیازی حیثیت یوں ہی ملی ہوئی تھی۔جیسے چلتے ہمراہی کسی ایک ہم سفر کو آگے کر دیں۔

مہینہ اُوپر ہو گیا۔میز پر رکھے ہوئے صاف کاغذوں کے کورے بدن پردھول نے تہہ جما لی تھی۔ دل بوجھل ہوتا گیا ۔کہانی اندر خانے ہی گلنے سڑنے لگی ۔گلے میں اک پھانس سی لگ گئی۔

جب کچھ کہتے چُپ رہتے نہ بن پائی تو میرے قدم خودبخود دریا کی سمت میں اٹھتے گئے۔

دریا پار کہو ، شہتوت ۔اخروٹ اور انجیر کے جھنڈ میں وہ خلقِ خدا سے بھاگ کر پناہ گزیں ہوا تھا۔پر خلقِ خدا کب چھوڑتی ہے انہوں نے بابا کووہاں بھی جا لیا۔ کہتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے مسئلوں کا حل باتوں باتوں میں بتا دیتا ہے اور دل کی بھی بُوجھ لیتا ہے ۔

”نہ مانی جائے اُن کی مگر تھوڑی وہ جن سے آسودگی ہے گھر دل اور بستر پہ!!“ بابا کہہ رہاتھا۔

ہم بہت سے لوگ اُس کے آگے نیم دائرے میں سر نیہوڑائے بیٹھے تھے ۔دائیں ہاتھ پہ کڑوی دھریک کے موٹے تنے کے ساتھ سبز کائی کا لباس پہنے پانی کا مٹکہ رکھا تھا۔مٹی کے چند کوزے جہاں تہاں پڑے ہوئے۔میں نے اوپر دیےےکھا۔جھنڈ کے پھڑپھڑاتے پتوں کے بیچ آسمان کی نیلاہٹ ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی تھی۔

”جانے وہ کب میرے دل کی بوجھے گا۔“میں نے سوچا۔

”اُس نے تو کہانی چھیڑ دی ہے “۔اوربابا کہہ رہا تھا،

”تو سبز پہاڑوں کے بیچ وہ جمع ہوئے ہیں اور اُن میں حاکمِ وقت بھی ہے اور ملکہ بھی ہے اور شہزادی بھی اور اُن میں وہ بھی ہے جو سب میں شامل بھی ہے اور سب سے جدا بھی۔ اور شہزادی اُسی کی دعا کی دین تھی۔

تو اُن کے بیچ وہ ناچ رہی ہے اُس کا بدن ناچتا ہے اور لوگوں کے دل اُس کے لمبے لہرئے دار بال اُس کی دودھیائی ہوئی پنڈلیوں کو چھوتے ہیں۔ اُس کی آنکھوں کے کٹورے نشہ برساتے ہیں۔ تنگ کپڑوں میں اُس کے کولہوں کے گڑھے تک صاف نظر آتے ہیں۔ سینے کی اٹھان اُس کی چولی کے بس میں نہیں۔ اور کمر اُس کی ہے بھی اور نہیں بھی۔“

ناچنے والی ناچ رہی ہے ۔لوگ باگ تالیاں پیٹتے ہیں ۔جوان دل اُس کی اٹھانوں نچانوں کے ساتھ اٹھ رہے ہیں۔ بیٹھ رہے ہیں۔وہ اُن میں سے ہے جو مار دیتی ہیں۔ کبھی دکھا کر، کبھی چھپا کر اور جن سے آسودگی ہے گھر دل اور بستر پہ۔

وہ ناچ رہی ہے اور کہانی چل رہی ہے۔

کہانی چل رہی ہے اور کہانی میں کہانیاں ہیں۔ اور کہانی بھی انہی کے جیسی ہے کہ یہ بھی مار دیتی ہے کبھی دکھا کر، کبھی چھپا کر اور وہ بھی تو کہانی کی مانند ہے کہ گلے میں پھنستی بھی گلے سے لگتی بھی اور گلے پڑتی بھی ہے۔“

بابا نے اپنی لمبی بل کھاتی سفید داڑھی پہ ہاتھ پھراکمر دیوار سے ٹکا، دیر کی دیر آنکھیں موندیں، پھر گھنی سفید پلکیں اٹھائیں اوربولا:

”تو سنو بھی اور دیکھو بھی کہ ناچنے والی ناچ ناچ کے تھک گئی ہے۔یا بدن اُس کا اپنے ہی نشے میں دھت کہ قدم اُس کے ڈگمگاتے ہیں اور وہ تیوراتی ہوئی ایک بڑے پتھر سے پیٹھ جما کے لیٹ گئی ہے۔“

بابا کہانی سناتا نہیں ”کہانی کرتا“ ہے۔کہ سناتا بھی ہے اور دکھاتا بھی۔ ہم سن رہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ناچنے والی ایک بڑے پتھر کے سہارے لیٹ گئی ہے ۔اُس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی ہے اور پہاڑیوں پہ خوشبوئیں بکھر رہی ہیں۔

”وہ تھک کر لیٹ گئی ہےمگر اُس کی جگہ خالی نہ رہی اور یہاں کوئی بھی جگہ خالی نہیں رہتی۔کوئی آیا کوئی گیااور نیا آنے والا ایک اچھلتا کودتا بھورا بندر ہے!

وہ لمحہ بھر کو کسی ٹہنی پہ معکوس ہوتا ہے ، پھر ایک ہی جست میں مجمع کے بیچ اُس نے اگلے پاؤں اٹھائے ہوئے شور مچانے والے شور مچا رہے ہیں۔وہ پھدک کر ایک بڑھیا کی گود میں جا بیٹھتا ہے۔بڑھیا اُس کے بھورے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے ۔پھر وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتا ہے ۔کسی کے گلے میں اپنی بھوری باہیں ڈال کر جھول جاتا ہے۔کبھی لپک کر کسی کا چٹک سے بوسہ لے لیتا ہے۔مجمعے میں شور اٹھتا ہیتالیا ں پٹتی اور سیٹیاں بجتی ہیں۔

حاکم اور ملکہ اور شہزادی مسکراتے ہیں۔

(لوگوں کے بیچ ایک پتھر پہ وہ بھی پتھر بنا بیٹھا ہے ۔وہ جو سب میں شامل بھی ہے اور سب سے جدا بھی )

بندر ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر مجمعے کو سلام کرتا ہوا ناچنے والی کے پہلو میں دراز ہو جاتا ہے۔“

بابا اٹھا۔ سبز کائی میں لپٹے پانی کے مٹکے سے ایک کٹورا پانی بھر کر دوبارہ اپنی پھٹی چٹائی پر آن بیٹھا ۔

عجیب شخص ہے۔میں نے سوچا۔پل بھر میں ہمیں شکستہ چٹائی سے اٹھا کر وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں ناچنے والی تھک کر لیٹ گئی ہے۔اور اچھلنے کودنے والا بندر اُس کے پہلو میں دراز ہے۔جہاں حاکم بھی ہے اور رعایا بھی۔ملکہ بھی ہے اور شہزادی بھی۔ اور وہ بھی جو سب میں شامل ہے اور سب سے جدا بھی ۔

گھنے درختوں کے سر کے اوپر بہت دُور آسمان کی نیلاہٹ معدوم ہو چلی تھی۔شاید آسمان بادلوںسے ڈھک گیا تھا۔روشنی پھیکی ہونے لگی تھی۔بابا آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔اُس نے کھنکار کر گلاصاف کیا، پھر بولا؛

”تو پھر کیا ہوتا ہے کہ تالیاں پیٹنے والوں کا دائیں ہاتھ بائیں کو اور بایاں ہاتھ دائیں کو بھول جاتا ہے۔سیٹیاں بجانے والوں کی سیٹی گم ہو جاتی ہے اور خوف نے انہیں آن لیا۔ڈر نے انہیں کپکپا دیا ہے کہ بیچ میدان کے چڑیل کھڑی ہے ۔چڑیل کے چہرے پہ ہزاروں ندی نالے بنے ہیں ۔اُس کی آنکھوں سے شعلے برستے ہیں ۔بے تحاشہ بڑھے ہوئے میلے کالے دانت اُس کی کراہت میں اضافہ کر رہے ہیں اور پاؤں اُس کے الٹے ہیں ۔مجمع سے ایک چیخ بلند ہوتی ہے۔ پھر دوسری۔ پھر تیسری اور پھر چیخیں آپس میں گتھم گتھا ہوتی ہیں ۔چڑیل دھیرے دھیرے اونچی ہوتی جاتی ہے ۔قد اُس کا بڑھتے بڑھتے درختوں اور پہاڑیوں کو نیچے چھوڑ جاتا ہے۔وہ اونچی ہوتی ہوئی آسمان سے جاٹکراتی ہے ، جیسے آسمان میں لگا ستون۔دفعتاً ایک سکوت طاری ہوجاتا ہے ایک گہری خاموشی اور جان جاؤ کہ ”خاموشی“ضرور ہوتی ہے شور سے پہلیاور شور کے بعد۔اور ہم درمیان میں ہیں۔

ہم درمیان میں ہیں اور قد چڑیل کاگھٹنے لگا۔گھٹتے گھٹتے وہ عام سے قد کی عورت رہ گئی ہے۔پاؤں اُس کے الٹے ہیں اور چہرہ اُس کا ڈروانا ۔“

بابا نے بات روک لی اور سانس درست کرنے لگا۔آستانے پر ایک ملگجے اندھیرے نے ڈیرے ڈال دئے تھے۔درختوں سے سر پٹختی ہوائیں بڑی بھیانک آوازیں پےدا کر رہی تھیں۔جیسے بہت سے بھوت مل کر چلا رہے ہوں۔

تو لوگوں نے پھر شور بلند کیا ہے ۔بابا نے بات چلا دی۔

”واہ وا واہ وااور تالیاں بجتی ہیں اور سیٹیاں بجتی ہیں۔اور وہ جو سب میں شامل ہے اور سب سے جدا بھی وہ چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔لوگ اُس کی خامشی پہ تحیرّ کرتے ہیں ۔نہ تالی نہ سیٹی نہ داد نہ واہ۔ تو کیا وہ کچھ سمجھ نہیں رکھتا؟ کچھ نہیں جانتا؟ اور وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے ۔

شہزادی کہنی مار کر حاکم کو اُس کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ملکہ اور حاکم کی گردن میں ہلکا سا خم پڑ جاتا ہے کہ شہزادی اُسی کی دعا سے زمین پر اتری تھی!“

بابا کے چاندی ایسے سفید بال اُس کی پیشانی پہ اتر آئے ۔اُس نے دائیں ہاتھ کی لمبی انگلیوں سے بال اوپر اٹھائے، تب گویا ہوا؛

”مجمع پہ مکمل خاموشی طاری ہے پر سنو! اور دیکھو کہ ایک نوجوان خاموشی کے سمندر میں پتھر پھینک رہا ہے ۔وہ بیچ میدان کے اترتا ہے ۔اُس کے دونوں ہاتھوں میں چمکدار خنجر ہیں ۔وہ یکبارگی دوہاتھ چلاتا ہے ۔دایاں بازو بائیں اور بایاں بازو دائیں کو شانوں سے جدا کرتا ہے۔اُس کے بازو زمین پر پڑے ہیں ۔خون کے فوارے پھوٹ پڑے ہیں ۔کٹے ہوئے بازو خون میں لت پت ہیں۔پر نوجوان کے چہرے پر کرب کا کوئی نشان نہیں۔خون اُس کا نچڑتا جاتا ہے نچڑتا جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ اپنے ہی خون میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوب گیا ہے۔“ بابے نے بات روکی اور پانی کا کٹورہ منہ سے لگا لیا۔ سورج پرے ہی پرے کھسک رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ درختوں کے پھڑپھڑاتے پتوں کے بیچ آسمان کی سرخی ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی تھی۔بابا بولا۔

”تالیاں بجانے والے تالیاں بجاتے ہیں اور سیٹیاں بجانے والے سیٹیاں بجاتے ہیں۔تب پکارنے والا پکارتا ہے کہ یہ سب کھیل ہے تماشا ہے۔اور ہر تماشے میں کچھ اندر ہوتا ہے اور کچھ باہر۔بلانے والا بلاتا ہے بلانے والا بلاتا ہے، ناچنے والی کو اور بندر کو ا ور چڑیل کو۔وہ تینوں اپنے بازو کاٹنے والے نوجوان کے ساتھ آن کھڑے ہوتے ہیں۔حاکم ، ملکہ اور شہزادی مسکراتے ہیں ۔لوگ چپ ہیں اور لوگ رعایا ہیں۔اور چاروں تماشہ گر میدان میں ہیں ۔پکارنے والا پکارتا ہے کہ ساتھیویہ ایک کھیل ہے!ایک تماشا ہے روپ کا بہروپ کااور ہر سال کی طرح آج بھی بہترین بہروپئے کا انتخاب حاکمِ وقت خود کریں گے۔اور جیتنے والے کے گلے میں ”بہروپ مالا“ اپنے مبارک ہاتھوں سے ڈالیں گے۔تماشے آپ نے دیکھے ہیں اور ایک تماشا ابھی باقی ہے۔

رعایا شور مچاتی ہےوہ خوش تھے تماشا گروں نے خوب رنگ جمایا ہے۔دیکھئے کہ مالا کس کے گلے کی زینت بنتی ہے۔

اور فیصلہ حاکمِ وقت نے کرنا ہے۔ پکارنے والا کہتا ہے، ”دیکھو مالا کس کے گلے میں سجتی ہے۔ہم مانتے ہیں چاروں تماشا گروں کے فن کو لیکن حاکمِ وقت نے چننا ہے کسی ایک کو۔اور میں کہتا ہوں ناچنے والی کوبندر کوچڑیل کواور بازو کاٹنے والے کو کہ وہ ہمیں آخری تماشا دکھائیں۔ اور اپنے اصل روپ میں آئیں کہ حاکمِ وقت نے فیصلہ کرنا ہے!!“

”تب بازو کاٹنے والا نوجوان سر سے اشارہ کرتا ہے۔ خون میں لتھڑے ، زمین پر پڑے اُس کے بازوؤں میں حرکت پیدا ہوئی ۔پھر وہ دوڑتے ہیں اور نوجوان کے شانوں پر آن جڑتے ہیں۔ دھرتی پہ ہری بھری گھاس لہلہا رہی ہے۔ اور خون غائب ہے۔

حاکم اور ملکہ اور شہزادی مسکرا کر داد دیتے ہیں، مجمع تالیاں بجاتا ہے۔پکارنے والا پکارتا ہے، ”دیکھا صاحب! یہ ہے فن۔ یہ ہے تماشا گری۔ یہ ہے جادو گری!!

مجمع میں شوراٹھتا ہے ۔

مالا اسی کو پہنائو اسی کا حق بنتا ہے۔ مالا پر اسی کو پہنائو، اسی کو پہنائو پہنائو پہنائو۔ اُن کی آوازیں پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں۔ لوگ شور مچا رہے ہیں اور لوگ رعایا ہیں۔

تو دیکھا جناب! یہ ہے تماشہ گری یہ ہے فن اور میں بُلاتاہوں چڑیل کو اور کہتا ہوں کہ وہ اپنے اصلی روپ میں آئے۔

چڑیل میدان میں دو قدم آگے چلتی ہے۔

اُس کے پائوں اُلٹے ہیں اور چہرہ بھیانک ہے وہ لمحہ بھر کے لئے لمبی ہو کر آسمان چھوتی ہے۔ پھر ایکا ایکی اپنے اصل قد میں لوٹتی ہے۔ وہ دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر اپنی کھال کھینچ لیتی ہے۔

تو وہ اب اپنی اصلی صورت میں ہے۔ وہ سولہ میں ہے سترہ میں جوان اور خوبصورت بھرے پُرے بدن کی لڑکی۔

یہی ہے مالا کی حقدار اسی کو پہنائو اسی کو پہنائو پہنائوپہنائوپہنائو۔۔۔۔پہاڑیاں بولنے لگتی ہیں۔ پر فیصلہ تو حاکم نے کرنا ہے کہ وقت نے انصاف کی باگ اُسی کے ہاتھوں میں تھمادی ہے اور وہ جوسب میں شامل بھی ہے اور سب سے جُدابھی، چُپ چاپ بیٹھا ہے۔

پھر بندر کی باری آتی ہے۔

اور کہانی چل رہی ہے۔ اور کہانی میں کہانیاں ہیں۔

اور کہانی سمندر ہے کہ جس میں دریا چلتے ہیں اور جسے اپنا دریا ملے وہ اُسے لے، چلتا بنے کہ بیٹھ رہنے سے چلتے رہنا بہتر ہے۔

اور بندر اُلٹی سیدھی قلابازیاں کھاتا ہے۔ پھر وہ اپنی کھال کھنچ کر اپنی اصلی صورت میں آتا ہے۔ خلقِ خدا حیرت سے چیختی ہے کہ وہ بندر نہیں ایک چھ سات سال کا بچہ ہے۔ یہ ہے تماشہ گری اور یہ ہے جادو گری۔ مانو کہ حق اسی کا ہے مالا پر۔ شور اُٹھتا ہے مالا اسی کو پہنائو پہنائوپہنائو۔ پہاڑیاں اُن کی آوازوں کو دگنا تگنا کرکے لوٹا رہی ہیں۔

رعایا شور مچاتی ہے اور ان میں وہ بھی بیٹھا ہے وہ جو سب میں شامل بھی ہے اور سب سے جدا بھی وہ چپ ہے خاموش ہے۔

تو وہ خاموش ہے کہ فیصلہ تو حاکمِ وقت نے کرنا ہے۔

پکارنے والا پکارتا ہے کہ اب وہ اپنی اصل صورت دکھائے گی جو ناچتے ناچتے تھک کے لیٹ گئی تھی۔

تب ناچنے والی کچھ دیر کے لئے ناچتی ہے۔آنکھ نچاتی ہے، کولہے مٹکاتی ہے۔ اپنے ہاتھوں کو تھل تھل کرتے سینے پہ رکھتی ہےمجمع میں شور برپا ہوتا ہے۔ ایکا ایکی اُس کابل کھاتا بدن ساکت ہو تا ہے۔ وہ چولی کی اٹھان کو اور لمبے بالو ں کو مرمریں کھال کو کھینچ لیتی ہے۔ ”ہائے“ مجمع جیسے سسکی بھرتاہے۔

تو وہ اپنی اصل صورت میں آئی ہے، نوجوان دو شیزہ کی جگہ کوئی ستر سالہ بھوڑھا کھڑا مسکرارہا ہے۔ اُس نے داد طلبی میں اپنی گردن جھکا رکھی ہے۔

تو یہ ہے فنکاری، یہ ہے تماشاگری، جادوگری، بہروپ مالا اسی کو پہنائو اسی کو پہنائو پہنائو پہنائو پہنائو۔۔۔۔۔لوگ کہے جا رہے ہیں چلا رہے ہیں لوگ بھی اور پہاڑیا ں بھی۔ پر فیصلہ تو اُسی نے کرنا ہے کہ ہاتھ میں جس کے انصاف کی باگ ہے۔

کہ وقت نے اُسے حاکم بنایا تھا پھر وہ وقت کا حاکم بن گیا۔“

بابا بڑی دیر سے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ اُس کی ٹانگیں سو گئیں۔ اُس نے ٹانگیں پھیلا لیں۔ بوسیدہ پھٹی ہوئی چٹائی کی ایک اُدھڑی ہو ئی جگہ اُس کی ایڑھی پھنسنے سے اور بھی اُدھڑگئی وہ کچھ دیر اپنی رانوں پہ ہلکے ہلکے مُکے مارتا رہا۔ پھر کہانی چلا دی۔

”تو فیصلہ حاکم نے کرناہے۔ نوجوان لڑکی بن کے ناچنے والا بڈھا اور بندر بن کر اُچھلنے کودنے والا بچہ اور چڑیل بننے والی دوشیزہ اور اپنے بازو کاٹ کرپھر سے جوڑ لینے والا نوجوان سارے تماشاگر مالا کی لئے اپنی گردنوں کو خم دیئے کھڑے ہیں۔

لوگوں کو چُپ نے آن لیا ہے۔ حاکم ملکہ اور شہزادی مسکراتے ہیں۔

اور وہ جو لوگوں میں شامل بھی ہے اور جدا بھی، چُپ کی بُکل مارے بیٹھا ہے اور ہر سال کی طرح اس بار بھی سال کے بہترین تماشاگر کا فیصلہ حاکمِ وقت نے کرنا ہے۔ ہم مانتے ہیں چاروں تماشاگروں کو مگر فیصلہ تو اُس نے کرنا ہے جس کے ہاتھ میں انصاف کی باگ ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ وہ منصف مزاج ہے اور عدل پیشہ ہے۔ تو جوجیتے گا اُس کے گلے میں بادشاہ اپنے مبارک ہاتھوں سے !!پکارنے والے کی زبان ہل رہی ہے۔ ہونٹ کھلتے بھی ہیں بند بھی ہوتے ہیں۔ پر آواز اُس کے حلق سے اُچک لی گئی ہے۔

شہزادی نے ضد پکڑی ہے کہ اس سال کے بہترین تماشاگر کا انتخاب وہ کرے گاجو چُپ کی بُکل مارے پتھر پہ پتھر بنا بیٹھا ہے۔ جو ہم میں ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ ہم میں شامل بھی ہے اور جُدا بھی ہے۔ شہزادی نے ضد پکڑی ہے اور شہزادی بھی اُن میں ہے جو مار دیتی ہیں۔ کبھی دکھا کر کبھی چُھپا کر اور جو کہانی کے جیسی ہے کہ گلے میں پھنستی بھی ہےگلے سے لگتی بھی۔ اور گلے میں پڑتی بھی ہے۔ اور وہ اُن میں ہےجن سے آسودگی ہےگھردل اور بستر پر اور ضد جن کی اٹل ہے، ہونی کی طرح، اور ہونی ہو کے رہتی ہے۔ تو شہزادی نے ضد پکڑی ہے اور کہانی چل رہی ہے۔ کہانی میں کہانیاں ہیں۔ اور کہانی بھی ایک ہونی ہے۔

تو ضد کرنے والی نے ضد پکڑی ہے۔ضد نے بادشاہ کا دل اور بادشاہ کے دل نے پکارنے والے کا۔” پکارا“ پکڑا ہے۔اور آواز اُس کے حلق سے اُچک لی گئی ہے۔ نہ مانی جائے ان کی مگر تھوڑی وہ جن سے آسودگی ہے گھر دل اوربستر پہ!!

پکارنے والا پکارتا ہے کہ بادشاہِ وقت نے کہا ہے بہترین تماشاگر کا فیصلہ کرنے کو اُسے جو سب میں شامل ہے اور سب سے جُدا بھی، اور جو ہر دور میں ہوتا ہے۔

توفیصلہ اب اُس نے کرنا ہے جو ہر دور میں ہوتا ہے۔ مالا اُس نے ہاتھو ں میں تھام رکھی ہے کہ حاکمِ وقت کی سُننا اُس پر عائد ہے۔ اور تم سنو!اور تم دیکھو کہ وہ چلتا جاتا ہے اُس کے آگے دودائرے چل رہے ہیں۔ ایک اُس کے بازؤوں کا دوسرا مالا کا جو اُس کے ہاتھوں میں لٹک رہی ہے وہ چلتا جاتا ہے تماشاگروں کے سینے دھک دھک کر رہے ہیں اُن کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں۔مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ دل سب کے اُچھل رہے ہیں۔ وہ چلتا جاتا ہے۔ حاکم ملکہ اور شہزادی کے چہروں پہ مسکان ہے۔

وہ آہستہ آہستہ چلتاجاتا ہے۔

تماشاگروں پہ نظر اُس نے گاڑرکھی ہے۔

کہتے ہیں کہ وہ چلتا جاتا ہے۔ چلتا جاتا ہے یہاں تک کہ اُس کے ہاتھوں اور حاکم ِوقت کی گردن کے بیچ دوہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے!!“بابا کی پلکیں بھاری ہونے لگی تھیں۔ سر اُس کا داہنی طرف ڈھلکنے لگا۔

”پھر؟مپھر کیا ہوا؟“ ہم سب نے پہلا سوال کیا۔

پھی ی ی ر ہاں پھی ی ی ی ی ر وہ جیسے خواب میں بول رہا تھا۔

پھی ی ی ر کو ن جانے دو ہاتھوں میں کی ی تنی لکیریں ہیں اورہر لکیر میں کی ی تنی صدیاں !“

بابا کی آنکھیں مندنے لگیں۔

پرے ہی پرے کھِسکتا سورج پہاڑیوں کی اوٹ میں چُھپ گیا تھا۔

شفق کی سُرخی کی جگہ شام کی سیاہی نے لے لی تھی۔

میں آہستہ آہستہ گھر کی راہ پر ہو لیا۔

وہ جو اِک پھانس سی گرہ سی لگی تھی۔ وہ کُھل گئی۔ بابا کا ایک جملہ میرے دل کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر اندر ہی اندر گونج رہا تھا۔ کہانی گلے میں پھنستی بھی ہےگلے سے لگتی بھی۔اور گلے میں پڑتی بھی!“دفعتا مجھے لگا جیسے میری گردن کسی بوجھ سے بھاری ہونے لگی ہے۔