شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

ڈراکیولا

مشرف عالم ذوقی

مصنف کا بیان

”میں ہر بار تمہارے گھر کی الگنی پر گیلے کپڑے کی طرح سوکھتی رہی۔ تم میرے لئے مٹھی مٹھی بھر دھوپ لاتے تھے۔ اور میں تھی، ، برف جیسی یخ۔ دھوپ تمہاری مٹھیوں سے جھر جھرجاتی تھی.... سوکھتی کیسے میں....؟ تمہارے ہی گھر کی الگنی پر ٹنگی رہی۔ دُکھ دینے کے لئے تمہیں۔“

وہ کچھ ایسا ہی سوچتی تھی۔ اپنے بارے میں۔ وہ یعنی، صوفیہ مشتاق احمد۔ اُسے اپنے بارے میں کچھ بھی سوچنے کا حق حاصل تھا۔ جیسے یہ کہ راتیں کیوں ہوتی ہیں؟ جیسے یہ کہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں میں ، اُس کی بھولی بسری عمر کیسے سماجاتی ہے۔ جیسے یہ کہ صبح کیوں ہوتی ہے۔ سورج کیوں نکلتا ہے۔ دھوپ سے زندگی کا کیسا رشتہ ہوتا ہے۔

قارئین! مجھے احساس ہے کہ میں نے کہانی غلط جگہ سے شروع کردی۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا میرے ساتھ اکثر ہوا ہے۔ مگر پیارے قارئین! مجھے اس بات کا اعتراف کرلینے دیجئے کہ مجھے اس کہانی کو لکھنے کا کوئی حق نہیں تھا اور یقین جانیے، اس کہانی کے کرداروں سے ملنے سے قبل تک مجھے اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ زندگی سے جڑی بے حد معمولی سچائیاں اتنی تلخ، اتنی سنگین بھی ہوسکتی ہیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آج کے عہد میں، جس کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ مہذب ترین دنیا کا کوئی تصور جارج بش کے پاس بھی نہیں ہے، اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی، انسانوں کے قتل عام کی اس سے بدصورت مثال شاید تاریخ کے بے رحم صفحوں پر بھی مشکل سے ہی ملے___ مجھے احساس ہے کہ انسانی بم، جینوم، کلوننگ اور نیوٹکنالوجی کے اس عہد میں، میںآپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جارہا ہوں، جس پر چوتھی دنیا کے مہذب ترین لوگ شاید ہی بھروسہ کرسکیں___ انسانوں کو غلام بنانے والی کہانیاں اور غلاموں سے کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ بدترین سلوک کی فنتاسیاں، معاف کیجئے گا، لوگ بھولے نہیں ہیں___ تاریخ کے صفحات اذیت اور جبر کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن یقین جانئے، میں ایسی کوئی رس بھری، لذیذ داستان آپ کے سامنے رکھنے نہیں آیا___ اور آپ ہنسیں گے، یقیناً آپ کو ہنسنا چاہئے___ کہ خود کو مہذب ثابت کرنے کی ریس میں اگر آپ کو کوئی ایسا قصہ سنایا جائے کہ عظیم طاقتوں میں سے ایک بننے جارہے ملک ہندستان میں، سن 2005 میں، ایک مسلمان لڑکی اپنی شادی کے لئے، ’شاہزادوں‘ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی اور اچانک ایک دن اُس نے ایک تنہا، اُداس کمرے میں آسیبی داستانوں کے مشہور زمانہ کردار ڈراکیولا کو دیکھ لیا___تو چونکئے گا مت___

اور یقین جانیے، ہماری اس کہانی کی کردار صوفیہ مشتاق احمد کے ساتھ یہی ہوا___

٭٭

آدھی رات کا گجر بج چکا تھا۔ کمرے میں زیروپاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں چل رہی تھیں۔ پتّے سرسرارہے تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں تھا۔ پھر بھی چمگادرڑوں، بھیڑیوں، الّو اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں رات کے پُرا سرار سناٹے کو اور بھی زیادہ خوفناک بنا رہی تھیں اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی___ نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں پر رینگ رہا تھا ___کیا ویمپائر___ ؟ اُف، خوفناک آوازوں کا ریلا جسم میں دہشت کا طوفان برپا کرنے کے لئے کافی تھا۔ سہمی ہوئی سی وہ اٹھی۔ بدن میں کاٹو تو خون نہیں___ وہ اٹھی، اور تھرتھراتی، کانپتی کھڑکی کی طرف بڑھی۔ لڑکھڑاتے کانپتے ہاتھوں سے کھلی کھڑکی کے پٹ بند کرنے چاہے تو ایک دم سے چونک پڑی۔ کوئی تھا جو دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگ رہا تھا۔ اُف۔ اُس نے خوفزدہ ہو کر دیکھا۔ یکبارگی خوف سے نہاگئی۔ یقینایہ ڈراکیولا تھا، ہونٹ انسانی خون سے تر___ دانت، لمبے، بڑے اور سرخ___ وہ اپنے کو فن سے باہر آیا تھا۔ صبح کی سفیدی تک اپنے ہونے کا جشن منانے یا پھر انسانی خون کا ذائقہ تلاش کرنے.... وہ یکبارگی پھر خوف سے نہاگئی۔کسی اسپائیڈر مین کی طرح ڈراکیولا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آرام سے چھپکلی کی طرح___ پنجوں پر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر.... رینگتا ہوا، ڈراکیولا، ایکدم، دوسرے ہی لمحے اُس کے پاس تھا___ اُس کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک تھی.... اور اُس کے نوکیلے دانت اُس کی نازک ملائم گردن کی طرف بڑھ رہے تھے.... اُس کی آنکھوں میں نیم بے ہوشی کی دھند چھارہی تھی....

مصنف سے صوفیہ مشتاق احمد کی بات چیت

’اُف، ڈرائوناخواب ، لیکن اس صدی میں ڈراکیولا___ آپ کتابیں بہت پڑھتی ہیں، ڈرائونی کتابیں۔۔۔۔؟“

”نہیں پڑھتی۔“

”پھر یہ خواب۔۔۔۔۔؟“

”نہیں، یہ خواب نہیں ہے۔ دیکھئے....!!“

مصنف کے لئے یہ صبرآزما لمحہ تھا۔ یقیناً اُس کی گردن کی ملائم جلد کے پاس کئی داغ تھے___ لیکن کیا یہ ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان تھے یا.... “مصنف اس اذیت گزار لمحوں کے سفر سے، پھیکی ہنسی ہنستا ہوا اپنے آپ کو باہر نکالنے کا خواہشمند تھا۔

”یقیناً یہ داغ.... آپ سمجھ رہی ہیں نا، ایک صبح ہم اٹھتے ہیں۔ اور کیڑے نے.... کیڑا.... آپ سمجھ رہی ہیں نا....؟“

”کیڑا....“صوفیہ مشتاق احمد کا چہرہ اس وقت، لیوناڈوی ونچی کی پینٹنگ مونالزا کی طرح ہورہا تھا، جس کے تاثر کو آپ لفظوں کا لباس پہنا ہی نہیں سکتے۔ یقینا.... وہ کیڑا ہی تھا۔ نوکیلے دانتوں والا ایک خوفناک کیڑا.... اور آپ سے زیادہ کون جانے گا کہ اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا.... دوسرا کون ہوسکتا ہے....“

ہے....ہے....ہے....، مصنف پھیکی ہنسی ہنسنے پر مجبور تھا.... ”یہ سب تو دانشوری، دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ہے....ہے....!!“

مصنف کے الفاظ کھو گئے تھے.... لیکن وہم وگمان کی ایک بے نام سی کہانی یہ بھی تھی کہ مصنف نے وہ داغ دیکھے.... اور یقیناً وہ داغ اُس کی گردن پر موجود تھے....

لیکن اس کہانی کے ساتھ اس بے معنی گفتگو، ڈراکیولا، صوفیہ مشتاق احمد کی گردن میں پڑے ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان کا کوئی رشتہ نہیں ہے___ لیکن یقیناً اس گفتگو کے بعد ہی اس کہانی کی بنیاد پڑی تھی، اور یقیناً___ اب جو کچھ میں سنانے جارہا ہوں، وہ بیان کی شکل میں ہے اور اس بیان میں، میں شامل ضرور ہوں، لیکن یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ اس کہانی میں، اپنی طرف سے میں نے کوئی اضافہ یا الٹ پھیر نہیں کیا ہے.... اس سے پہلے کہ الگ الگ بیانات کا سلسلہ شروع ہو، مختصراً اس کہانی کے کرداروں سے آپ کا تعارف کرادوں۔ دلّی جمنا پار رہائشی علاقے میں ایک چھوٹی سی مڈل کلاس فیملی___ بڑی بہن ثریا مشتاق احمد۔ عمر پینتیس سال۔ ثریا کے شوہر اشرف علی___ عمر چالیس سال۔ نادر مشتاق احمد، ثریا کا بھائی۔ عمر بیس سال۔ اور ہماری اس کہانی کی ہیروئن (نہیں معاف کیجئے گا، بڑھتی عمر کے احساس کے ساتھ ایک ڈری سہمی سی لڑکی ہماری کہانی کی ہیروئن کیسے ہوسکتی ہے) صوفیہ مشتاق احمد، عمر 25سال۔

تو اس کہانی کا آغاز جنوری مہینہ کی 8 تاریخ سے ہوتا ہے۔ سردی اپنے شباب پر تھی۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ دانت سرد لہری سے کٹکٹا رہے تھے۔ لیکن جمنا پار پریہ درشنی وہار، فلیٹ نمبر بی 302 میں ایک ناخوشگوار حادثہ وقوع پذیر ہوچکا تھا۔

کوئی تھا، جو تیزی سے نکلا___ پہلے لڑکھڑایا، پھر باہر والے دروازہ کی چٹخنی کھولی اور تیز تیز، سرد رات اور کہاسوں کے درمیان، سیڑھیوں سے اُترتا ہوا، بھوت کی طرح غائب ہوگیا___

’وہ چلا گیا....‘ یہ جیجو تھا۔ صوفیہ مشتاق احمد کا جیجو، آنکھوں میں خوف اور الجھن کے آثار ___ وہ چلا گیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے۔‘ نادر مشتاق احمد نے نظر یں اٹھائیں۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے ویتنام اور ناگا ساکی ایٹم بم دھماکے کے بعد ندیوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے آسمان چھو گئے ہوں___ ’کیا ہوا، اُس سے پوچھتے ہیں۔

’لیکن، کیا پوچھیں گے آپ___ ثریا جیجو کی طرف مڑی تو۔ پھر ایک لمحے کو نظر اٹھا کر اُس نے نادر کی طرف دیکھا___ جذبات پر قابو رکھو، اُف، دیکھو.... وہ کیا کررہی ہے....‘

’شاید وہ آرہی ہے....“ جیجو نے ہونٹوں پر انگلی رکھی___

’’کوئی، اُس سے کچھ بھی نہیں پوچھے گا۔ “ یہ ثریا تھی___

”تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو باجی۔ کوئی اُس سے بھلا کیا پوچھ سکتا ہے۔ وہ بھی اس ماحول.... اور ایسے عالم میں۔ لیکن.... کچھ....“

”کچھ نہیں ہوگا۔“

”ہم نے فیصلہ کرنے میں....“

ثریا مشتاق احمدنے ایک لمبا سانس لیا۔ آواز ڈوبتی چلی گئی___ کہہ نہیں سکتی.... مگر___ اُس نے اپنے شوہر اور نادرمشتاق احمدپر ایک گہری نظر ڈالی۔ آپس میں بات کی تھی۔ اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا راستہ ہی کیا تھا۔“

”وہ آرہی ہے اور اب ہمیں خاموش ہو جانا چاہئے___ اور یقیناً ہمارے تاثرات ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ اُسے کسی بات کا شک ہو کہ ہم اُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں___ اور یقیناً ہمیں اُس کی نفسیات کو بھی سمجھنا ہوگا۔“

یہ جیجو تھا___

باہر کہاسا زمین پر گر رہا تھا۔ رات برف سے زیادہ ٹھنڈی ہوگئی تھی___ دروازہ چرچرانے کی آواز ہوئی۔ برف پگھلی۔ دھند چھٹی۔ سامنے صوفیہ کھڑی تھی۔ صوفیہ مشتاق احمد۔ ایک لمحے کو وہ ان کے پاس آکر ٹھہری۔ لیکن رُکی نہیں___ دوسرے ہی لمحے، وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی___

پہلا بیان: ثریا مشتاق احمد

میں ثریا مشتاق احمد۔ پیدا ہوئی اترپردیش کے بلند شہر میں۔ محلہ شیخاواں۔ مسلمانوں کا محلہ۔ زیادہ تر شیخ برادری کے مسلمان___ پاس میں مسجد تھی۔ پاپا مشتاق احمد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ اسٹیشن روڈ پر۔ پنج گانہ نمازی___ پیشانی پر سجدے کے داغ۔چہرہ ایسا نورانی اور معصوم کہ میں نے زندگی میں آج تک نہیں دیکھا اور ممی تو جیسے گائے تھیں۔ نادر چھوٹا بھائی تھا۔ اُس سے پانچ سال چھوٹا اور صوفیہ اُس سے دس سال چھوٹی تھی___ بچپن میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں مٹکاتی تو شرارت سے سارا گھر خوشی سے جھوم جایا کرتا۔

کالج میں داخلے سے قبل ہی اشرف زندگی میں آگئے تھے___ کیسے، یہ لمبی کہانی ہے۔ چھوٹے سے شہر میں ایسی کہانیوں کے پر لگ جاتے ہیں۔ پھر کبوتر کی طرح پرواز کرتی یہ کہانیاں شیخاواں کے ایک گھر سے دوسرے گھر میں گونجنے لگی تھیں___

مما کو ہائپرٹینشن تھا___

پپا جلد گھر آجاتے تھے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بناکر___ پڑوس والی مسجد سے نماز کی صدا بلند ہوتے ہی، وہ تیز تیز لپکتے مسجد پہنچ جایا کرتے۔ وہاں سے آتے، تو لفظوں کے تیر سے اُداس اور گھائل ہوتے___ ممی اور وہ گھنٹوں اشرف کے بارے میں باتیں کرتے رہتے___ مثلاً کیوں آتا ہے۔ کیا کام ہے___ خاندان تو اچھا ہے نا___ یہ لڑکی ناک تو نہیں کٹائے گی۔ صوفیہ تو کافی چھوٹی ہے___

نادر نے صرف ایک بار جلتی آنکھوں سے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا___ بجیا، یہ کیا تماشہ ہے۔ چاروں طرف تم دونوں کے ہی ریڈیو بج رہے ہیں۔

’تو بجنے دو نا....‘

تب گول گول آنکھیں نکال کر صوفیہ نے اُس کی طرف دیکھا تھا۔

’ایک ریڈیو میرے لئے بھی لادو نا....‘

’پاگل، ایک ریڈیو نے ہی طوفان مچا دیا ہے....‘ نادرناگواری سے بولا۔

لیکن میں یہ کہانی کیوں سنا رہی ہوں۔ میری اور اشرف کی کہانی میں اگر کچھ دلچسپ ہے تو صرف یہ کہ ہم نے لومیرج کی تھی۔ پھر اشرف دلّی آگئے۔ اور میں بھی دلّی آگئی___ اور جیساکہ مہانگروں میں ہوتا ہے ایک دن خبر آئی ۔ پپا نہیں رہے۔ دوسرے سال خبر آئی۔ ممی نہیں رہیں۔ شیخاواں اُجڑ گیا۔ گھر ویران ہوگیا۔ بلند شہر سے رشتہ ٹوٹ گیا___ نادر اور صوفیہ دونوں دلّی آگئے۔ کبھی کبھی احساس ہوتا، اشرف ان دونوں کی موجودگی سے پریشان تو نہیں ہیں۔ لومیرج کا یہ بھی ایک فائدہ تھا کہ اشرف کسی بھی بات پر بولتے یا ٹوکتے نہیں تھے۔ مگر من میں کچھ گانٹھیں تو پڑہی جاتی ہیں___ کبھی جب اشرف کو، اُن کی اپنی دنیا میں قید اور اُداس دیکھتی تو دل کی بات ہونٹوں پر آجاتی....

’وہ.... ایک دن پرواز کرجائیں گے....‘

’ہاں....‘

’کون جانتا تھا، ممی پاپا اس طرح ذمہ داریوں سے باندھ کر....‘

اشرف کہیں اور دیکھ رہے ہوتے___

’تم ان دونوں کی موجودگی کو لے کر.... نہیں میرا مطلب ہے....‘

اشرف گہرا سانس کھینچ کر کہتے ہیں___ ’بچے ہیں.... لیکن.... پرائیویسی کے یہی دن ہیں۔ یہ دن واپس نہیں آتے.... یہ دن چلے گئے تو....‘

نہیں، مجھے احساس تھا، اشرف کی رومانی دنیا میں نئی نئی فنتاسی اور خوبصورت کہانیوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے.... وہ اکثر اس کا ذکر بھی کیا کرتے.... مثلاً ہنسی ہنسی میں.... ”ثریا، یہ لباس کیوں بنایا گیا.... شادی کے بعد گھر میں میاں بیوی کو لباس نہیں پہننا چاہئے.... نیچرل ڈریس.... آخر ہم قد رتی لباس میں کیوں نہیں رہ سکتے....؟ بس یہی تو چار دن ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ سوئمنگ.... ایک ساتھ....“

اشرف جب دن میں اُسے لے کر کمرہ بند کرنے کی کوشش کرتے تو وحشت سی ہوتی___ صوفیہ کیا سوچے گی۔ بڑی ہورہی ہے۔ پھر جیسے آج ’اُجیالے‘ میں، کمرے کے بند سناٹے میں کوئی کیڑا چپکے سے منہ نکالتا___ اشرف ایکدم سے بوکھلا کر اُس سے الگ ہو جاتے۔ خود ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیتے....

”جائو۔ تمہیں آزاد کرتا ہوں۔“

مصنف سے ثریا مشتاق احمد کی مختصر سی گفتگو کے کچھ حصے

”تو گویا تم سمجھ رہی تھی.... کہ کیڑے....‘

”ہاں....!!“

”یقیناً یہ کیڑے صوفیہ نے بھی دیکھے تھے....؟“

”اور نادر نے بھی....“

”پھر ؟“

”نادر کو اپنی خودداری کا احساس تھا___ وہ ایک بوجھ کی طرح اس گھر میں رہنے کے خلاف تھا اور اسی لئے اپنے لئے ایک چھوٹی سی نوکری کا بندوبست کرتے ہی....“

”اُس نے یہیں تمہارے قریب ایک فلیٹ لے لیا۔“

”ہاں۔ اور پھر صوفیہ کو بھی لے گیا....“

”نہیں۔ شروع میں نہیں لیا گیا۔ اُسے اپنی مجبوریوں کا احساس تھا۔ مگر.... صوفیہ چپ چاپ رہنے لگی ___ سارا سارا دن گم سم___ اپنے آپ میں کھوئی۔ کسی سے بولنا چالنا تک نہیں۔ بس جی چاہا تو کبھی کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی۔ اُس کا بس چلتا تو سارا سارا دن بستر پر سوئی رہتی مگر جیجو اور پرائے کے گھر میں رہنے کا احساس.... اور اچانک اُس دن.... وہی کیڑا....

”کیڑا....؟“

ثریا مشتاق احمد اپنے بیان میں گم ہوگئی تھیں۔

ثریا مشتاق احمد کے بیان کا دوسرا حصہ

مٹیا مارفوسس۔ آپ نے یقیناً یہ کہانی پڑھی ہوگی۔ نہیں، میں کیڑے میں، یا کیڑا مجھ میں تبدیل ہوگیا، ایسی کوئی بات نہیں۔ مگر وہ تھا، یہیں___ کمرے میں___ صبح، سورج نکلنے سے پہلے ہی، بسترچھوڑتے ہوئے، میں نے اُسے اشرف کی آنکھوں کے پاس رینگتے ہوئے صاف دیکھا تھا۔ نہیں، مجھے کہیں سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یقیناً وہ تھا۔ اور میرے بھگانے سے پہلے ہی....!“

اُس دن ارم کا برتھ ڈے تھا۔ اِرم کون۔ میری بیٹی۔ اشرف کی آنکھوں کا تارا۔ پانچ برس کی ارم کولے کر اشرف کی آنکھوں میں خوابوںکے اتنے جھومر اور فانوس دیکھے کہ ڈر ڈر جاتی.... وہ ایک خوبصورت شیشے کا ایکوریم تھا، جو اشرف اُس کے لئے خصوصی طور پر لے کر آئے تھے___ شیشے کی رنگین دنیا میں تیرتی سپنیلی مچھلیاں.... ’یہ سون مچھریاں ہیں....‘ اشرف نے کہا تھا___ ایک دن میری بٹیا اس سے بھی خوبصورت ایک سون مچھلی بن جائے گی___ انسانی سون مچھلی۔ پھر اپنی ہی بات پر وہ زور سے ٹھہاکہ لگا کر ہنسے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے شام کی پارٹی کے بارے میں وہ کچھ تفصیلات بتاکر گئے تھے۔ بچوں کی فہرست بن گئی تھی۔ ڈرائنگ روم خوبصورت ڈھنگ سے سجانے کے لئے کہہ گئے تھے....’ کیڑا‘.... ایک بار پھر اشرف کے دروازہ کے باہر نکلتے ہی میں نے کیڑے کی جھلک دیکھی تھی۔ کیڑا.... میں چیختے چیختے رہ گئی___ تب تک اشرف باہر نکل چکے تھے.... چار بجے شام میں وہ واپس آئے تو ڈرائنگ روم کو ویسے کا ویسا پاکر وہ چیخ اٹھے۔

’صوفیہ کہاں ہے....‘

’وہ.... سورہی ہے....‘

’کیا۔ سات بجے تک بچے آجائیں گے۔ اتنے سارے لوگوں کو پالنے کا ٹھیکا لے لیا ہے تم نے۔ یہ سونے کا وقت ہے.... اور تم.... تم کیا کرتی رہی....‘

اشرف غصے سے بول رہے تھے.... کیڑا اُن کی آنکھوں کی پتلیوں پر چپ چاپ بیٹھا تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر دیوار سے سٹی ہوئی، تھر تھر کانپ رہی صوفیہ کو میں نے پہلی بار دیکھا۔ شاید اشرف نے بھی صوفیہ کا یہ رنگ دیکھ لیا تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھہرے۔ اپنے کمرے میں داخل ہوگئے۔ دروازہ زور سے بند کرلیا___

نادر مشتاق احمد کا بیان

نہیں۔ میں اشرف بھائی کو قصوروار نہیں ماننا۔ یقیناً ہم نے اُن کی زندگی میں سیندھ لگائی تھی۔ تقدیر کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن اپنے اپنے فیوچر کے لئے کسی کی زندگی میں جبر کے طور پر داخل ہونے کا ہمیں کیا حق تھا___ صوفیہ اُس دن کا فی روئی تھی۔ مجھے احساس تھا۔ شاید جان لیوا تنہائی کے اُداس مکالمے اُسے بار بار پریشان کررہے تھے۔ مجھے اُسے ایک بھائی کی سطح پر، اس سناٹے سے باہر نکلنا تھا۔ اور میں نے اُسے نکالا۔ دوسرے دن، یعنی اس ناخوشگوار حادثے کے دوسرے دن میں اُسے اپنے گھر لے گیا اور ایک دو ماہ بعد اُس کا داخلہ کمپیوٹر میں کرادیا۔ شاید اُسے اپنی تنہائیوں کو بانٹنے کا موقع مل جائے۔ میں جانتا تھا۔ وہ کوئی دوست نہیں بناسکتی۔ بوائے فرینڈ تو بالکل نہیں۔ لیکن بڑی ہوتی صوفیہ کی ذمہ داری سے آزاد ہونے کا خیال مجھے زیادہ ستائے جارہا تھا۔ کیونکہ مجھے امریکہ جانا تھا۔ میرے خواب امریکہ میں بستے تھے اور پھر شروع ہوا آنکھ مچولی کا کھیل___ نہیں صاحب ۔پہلی بار احساس ہوا، کہ بجیا نے خود لڑکا پسند کرکے کتنی قابلیت دکھائی تھی___ رشتہ دار، عزیز، جان پہچان والے، رشتہ گھر، شادی ڈاٹ کام، مہندی ڈاٹ کام لڑکا دیکھنے کا سفر شروع ہوا تو جیسے ایک نئے بازار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ نہیں صاحب۔ مجھے معاف کیجئے۔ یقیناً اس لفظ سے بہتر کوئی لفظ میرے پاس نہیں ہے۔ بازار، ہر کسی نے اپنے اپنے جانور کو پال پوس کر تیار کیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر فروخت کرنے کے لئے۔ قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں۔اُس پر گھر گھرانہ، شجرہ نسب کی تفصیل___ یہ بازار میرے لئے اور بجیا کے لئے نیا تھا۔ صوفیہ ہمیں گاڑی میں آتے، جاتے ہوئے دیکھتی۔ بجیاکو فون پر باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ پھر واپس آکر ہمارے خاموش چہرے پر اپنی ادھ کھلی آنکھیں رکھ کر، واپس اپنے کمرے میں لوٹ جاتی بجیا کو کبھی کبھی غصّہ آجاتا....

’سب کے رشتے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں....‘

جیجو ایک لمبا سانس بھر کر کہتے....’ فکر کیوں کرتی ہو ، آسمان سے ایک دن....‘

وہ صوفیہ کے کمرے میں جاتے۔ اُسے بانہوں کے سہارے واپس لے کر آتے___ کیا کمی ہے اس میں.... اور ابھی عمر کون سی ہوئی ہے....‘ وہ ایک بار پھر ٹھنڈا سانس بھرتے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ کیوں صوفیہ۔ ایک دن چپکے سے ایک شاہزادہ آئے گا اور ہوا کے رتھ پر بیٹھا کر....

’نہیں۔ کوئی نہیں آئے گا۔‘ صوفیہ مسکرانے کی کوشش کرتی۔

’آئے گا....‘ جیجو میری طرف مڑتے۔ ’نادر، اس قدر پریشان ہونے ضرورت نہیں ہے۔ صوفیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی میں نے کم کم دیکھی ہے، اس کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر کمی کیا ہے صوفیہ میں___‘ جیجو ہنستے۔ بس ایک کمی ہے۔ خوبصورت کے ساتھ خوب سیرت بھی ہے۔ اور خوب سیرت ....’لڑکیوں کے بازار زرا ٹھنڈے ہیں....‘

’میں کیا خوب سیرت نہیں تھی....‘ ثریا آنکھیں تریرنے کی کوشش کرتی تو جیجوفلک شگاف قہقہہ بلند کرتے___’ خود پر کیوں لیتی ہو۔ صوفیہ مختلف ہے۔ اور ایک دن....

میں سوچتا تھا۔ ایک دن .... ایک دن کیا ہوگا___ کوئی معجزہ ہو جائے گا___ چمتکار۔ امریکہ بار بار خوابوں میں منڈراتا ہے۔ اور حقیقت، آپ جانیں گے۔ نہیں ہنسیے مت، پریتی زنٹا، منموہن سنگھ اور ہمارے نیتائوں سے زیادہ کلنٹن، بش اور کیری مجھے اپنے لگتے تھے۔ جینفر لوپیز کے خیالوں میں، میں زیادہ ڈوبا رہتا تھا___ ایک لڑکا اور آیا تھا۔ فریاد عارف۔ لدھیانہ کا۔ قد پانچ فٹ دس انچ۔ عمر چالیس سال۔ باہر رہنے کا، دس برس کا تجربہ تھا۔ عمر زیادہ تھی تو کیا ہوا۔ یہ رشتہ ہمیں نیٹ سے ملا تھا۔ صوفیہ کی تصویر اور بایوڈاٹا لڑکے کو پسند آیا تھا۔ اُس کی تصویر بھی نیٹ سے ہم نے نکال لی تھی۔ شکل اچھی نہیں تھی۔ لیکن کیا شکل ہی سب کچھ ہوتی ہے.... ہاں، اُس کے ہونٹوں کے پاس ایک داغ تھا.... پتہ نہیں، کس چیز کا داغ تھا۔ جلے کا یا.... مگر داغ تھا___ ڈرتے ڈرتے ہم نے تصویرصوفیہ کے حوالے کی۔ مگر تصویر دیتے ہوئے یقیناً ہمارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نظر جھکی ہوئی تھی۔

صوفیہ مشتاق احمد کا بیان

تصویر میں ہاتھ میں لیتے ہی ہنس پڑی تھی۔ یہ پاپا کے کوئی دوست ہیں کیا.... نہیں، کم از کم جیجو مجھ سے اتنا برا مذاق نہیں کرسکتے۔ جیجو کے گھر سے باہر آنے کے بعد بھی میں جیجو کے لئے ذرا بھی خفا نہیں تھی۔ یقیناً وہ سب سے زیادہ مجھے پہچانتے تھے۔ اور یقیناً میرے لئے سب سے زیادہ جنگ بھی، وہی لڑتے تھے اور خاص کر ایسے موقع پر، جب کمرے میں یکایک کالی کالی بدلیاں چھا جاتیں.... پھر جیسے تیز تیز آندھیوں کا چلنا شروع ہو جاتا۔ نہیں، میں نے تصویر دوبارہ دیکھی.... اور اچانک چہرے کا طواف کرتی آنکھیں داغ کے نشان کے پاس آکر ٹھہر گئیں۔ ہونٹ کے نیچے کا حصہ.... تصور کی وادیوں میں، بوسے کے لئے سب سے خوبصورت جگہ۔ میں تو اس جگہ کا بوسہ بھی نہیں لے سکتی۔ میں ہنس رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔ کمرے میں دھند بڑھ رہی تھی۔ شاید باہر جیجو، بجیا اور نادر بھائی نے میرے ہنسنے کی آوازیں سن لی تھیں....

’صوفیہ۔‘

دروازے پر تھاپ پڑ رہی تھیں۔

نادر غصے میں تھے.... ’دروازہ کیوں بند کرلیتی ہو۔‘

بجیا کی آنکھوں میں ایک لمحے کو ناگواری کے بادل لہرائے....’ہم نے ابھی رشتہ منظور کہاں کیا ہے۔ صرف تم سے رائے پوچھی ہے....

’نہیں۔ وہ.... کیڑا۔‘

دروازہ کھولتے ہوئے میری آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھیں___ جیجو نے سہارا دیا___ صوفے تک لائے___ کچھ ہی دیر میں مکالمے بدل گئے۔

’مگرکیڑا....‘

نادر نے بجیا کی طرف دیکھا___ ’کیڑے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں۔ رات بھر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوا کا چھڑکائو کرو۔ یاگڈ نائٹ لگائو۔ مگر کیڑے نہیں بھاگتے....‘

بجیا یعنی ثریا مشتاق احمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ہونٹوں پر ایک طنز بھری مسکان تھی۔

یہیں کوئی تھا۔ جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ ایک دم سے کمرے کی دھوپ اُتر جاتی ہے۔ تاریکی چھا جاتی ہے.... کمرے میں کہاسے بھر جاتے ہیں اور.... میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر.... میں نے دیکھا.... جیجو آہستہ آہستہ میری طرف دیکھ رہے تھے___ پھر اُن کے ہونٹوں پرایک مصنوعی مسکراہٹ داخل ہوئی___

’ایک ستارا آئے گا....‘

”ستارے آسمان سے آتے آتے لوٹ گئے....“ یہ بجیا تھی۔

”ہاں، لیکن گھبراؤ مت، ایک ستارہ آئے گا اور یوں اچھل کر تمہاری جھولی میں جاگرے گا....‘ یہ جیجو تھا___ ہونٹوں پر ہنسی۔ پھر وہ تمہاری آنکھوں میں، کبھی ہونٹوں پر آکر چیخے گا.... یہ میں ہوں۔پاگل۔ پہچانا نہیں مجھے۔ تمہاری قسمت کا ستارہ....

اُس کے چہرے پر دھوپ بہت تھی۔ تم نے دیکھا نا، بھائی نظر نیچی کئے بہن کو ٹٹول رہا تھا۔

”میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی۔ راستہ بھٹک گئی___‘یہ وہ تھی۔ اُس کی آواز اندر کے روشن دان سے بلند ہوئی اور اندر ہی اندر گھٹ گئی۔

جیجو کا بیان

دراصل اُس 40سال کے ادھیڑ مرد کی تصویر دیکھ کر مجھے خود بہت غصہ آیا تھا___ نادر اور ثریا، رشتہ کے لئے مجھے کم ہی لے جاتے تھے۔ دراصل وہ اس مہرے کو آخری وقت کے لئے بچا کر رکھنا چاہتے تھے اور کسی خاص موقع پر ہی خرچ کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب میرے لئے بھی نیا تھا۔ کیونکہ ہر برس بدلتے کلینڈر کے ساتھ ہی، میں صوفیہ کو دیکھ کر اُداس اور پریشان ہو جارہا تھا اور آپ سمجھ سکتے ہیں، خود صوفیہ کی کیا حالت ہوگی___ میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ مسلمانوں کے یہاں، ایک خوبصورت جوان لڑکی کی شادی کو لے کر اتنی الجھنیں سامنے آسکتی ہیں۔ گھر گھرانہ اچھا۔خاندان سیّد۔ مگر کسی کو لڑکی کا قد کچھ کم لگتا۔ کسی کو عمر کچھ زیادہ۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ پوچھنے والوں کا گریبان پکڑ کر کہوں، کہ اٹھارہ سال سے رشتہ تلاش کرتے ہوئے تم لوگوں نے اسے 23سال کا کردیا ہے اور اب___ شایدمیرے اسی غصّے کی وجہ سے نادر اور ثریا مجھے کبھی اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ مگر.... کبھی کبھی اپنی بڑی ہوتی ارم کو دیکھ کر گہری سوچ میں گرفتار ہو جاتا ۔ کیا میرے ساتھ بھی___ اور ہوایوں، کہ اچانک اُس دن ارم کو دیکھا تو ایکدم سے چونک گیا___ ارم غائب تھی۔ ارم میں صوفیہ آگئی تھی___

مصنف کا بیان

قارئین، ایک بار پھر مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا۔ کہانی شروع ہوئی تو سوچ کے دائرے پھیلتے چلے گئے۔ یہ میں کہا ں جارہا ہوں۔ کیا یہ بھی کوئی کہانی ہوسکتی ہے۔ ایک مسلمان لڑکی کو لڑکے کی تلاش ہے۔ عمر 23سال، خوبصورت، تعلیم یافتہ___ تہذیب کی اتنی صدیاں پار کرنے کے بعد بھی، چوتھی دنیا کے، ہتھیاروں کی ریس میں آگے نکلنے والے ایک بڑے ملک میں، یہ مسئلہ ایک کہانی کا جزو بن سکتا ہے، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا___

اُس دن، میں دوبارہ نادر مشتاق احمد کے گھر گیا۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر بیل پر اُنگلی رکھی۔ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔

’آئیے۔‘

’نادر؟‘

’وہ باہر گئے ہیں۔‘

صوفیہ، صوفے پر دھنس گئی۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی___

’چائے بناؤں!‘

’نہیں۔ ابھی رہنے دو۔‘

میں آہستہ آہستہ آنکھیں گھماتا کمرے کی ویرانی کا جائزہ لے رہا تھا۔ دیوار پر قطارمیں اُڑتی چار چڑیائیں کچھ اور ہی کہانی بیان کررہی تھیں۔ تیسری والی چڑیا کی قطار ٹوٹ گئی تھی۔ تیسری چڑیا کیل سے جھول رہی تھی۔ پتہ نہیں کب سے۔ دیوار پر کنارے مشتاق احمد کی تصویر لگی تھی۔ تصویر پر ذرا بھی گرد نہیں تھی۔جیسے ابھی ابھی گرد صاف کی گئی ہو۔ لیکن کمرے کی باقی چیزیں....

’اندھیرا ہے‘ میں آہستہ سے بولا۔ جبکہ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ کھڑکی کے پاس پردہ پڑا تھا۔

’اِس گھر میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے....‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔

’اور وہ ڈراکیولا....‘

میں آہستہ آہستہ کھڑکی کے پاس بڑھا۔

’نہیں، یہاں نہیں۔....‘ یہاں میرے ساتھ آئیے۔ میرے کمرے میں....‘

وہ تیزی سے اٹھی___ مجھے لے کر اپنے کمرے میں آگئی___ سنگل بیڈ کا دیوان پڑا تھا___ چادر کئی دنوں سے بدلی نہیں گئی تھی___ کمرہ بے رونق تھا اور یقیناً اس کمرے میں کھڑکی کے راستے کہرے، داخل ہو جاتے ہوں گے___

’یہاں.... یہاں سے۔ یہ دیوار جو ہے.... آپ دیکھ رہے ہیں نا....‘

’مگر یہاں تو کوئی قبرستان نہیں ہے۔‘

’آہ۔ نہیں ہے....‘ صوفیہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی___ میں نے کب کہا، کہ یہاں قبرستان ہے۔ مگر بن جاتا ہے۔ رات کے وقت۔ اپنے آپ بن جاتا ہے، دھند میں ڈوبا ہوا ایک قبرستان۔ ڈھیر ساری قبریں ہوتی ہیں۔ ایک کھلا ہوا کوفن ہوتا ہے۔ وہ یہاں.... یہاں دیواروں پر رینگتا ہوا، کھڑکی سے اچانک میرے کمرے میں کود جاتا ہے....

’یقیناً، وہم.... اور وہم کا تعلق تو....‘

’مجھے پتہ ہے۔ وہم ہے میرا۔ مگر کیا کروں۔ وہ رات میں، آپ یقین کریں میرے کمرے میں ہوتا ہے....‘

’کیوں؟‘

’اب یہ بھی بتانا پڑے کا بھلا۔ خون پیتا ہے.... یقین نہیں ہو، تو یہ داغ دیکھئے۔‘ اُس نے اپنی گردن دکھائی۔ گردن پر یقیناً نیلے داغ موجود تھے۔

’کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بھی مانتی ہوں، وہم ہے مگر۔ وہ ہے۔ وہ آتا ہے....اور ....‘

میں نے کہانی بدل دی۔ ’اوہ.... تم نے بتایاتھا۔ تم بار بار مرتی تھی___

’کون نہیں مرے گا ایسے___ جب آپ بار بار اُسے سجا کر باہر لے جاتے ہوں۔ یا کبھی کبھی سج دھج کر گھر میں ہی نمائش یا میلہ لگا دیتے ہوں۔ ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی بھی کتنی بار مرتا ہے۔ کتنی بار مرسکتا ہے کوئی۔ میں تو ہر بار، ہر پل....‘

صوفیہ کہتے کہتے رُک گئی تھی___

’مگر اُس دن نہیں مری۔ اُس دن۔ میں نے سوچ لیا تھا اور مطمئن تھی۔‘

’اُس دن....‘

’ارے وہی۔ اِن ڈسنٹ پروپوزل۔‘ وہ کہتے کہتے رُکی___ ایک ہنسی چہرے پر شعلے کی طرح کوندی۔ پروپوزل، کبھی بھی ان ڈسنٹ نہیں ہوتا۔ مگر بجیا اور بھیا کسی ساتویں عجوبے کی طرح اُس پروپوزل کو لے رہے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں پہلی بار کمرے میں کھکھلاکر ہنسی تھی۔ ’اب مزہ آئے گا۔‘ وہ ٹھہری___ پھر بولی۔ اب کسی کو کیا پتہ۔ میرے جسم میں کتنے انگارے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ اب تو شاید سرد بھی ہونے لگے ہوں یہ انگارے___ نہیں، سرد نہیں۔ بڑھتے بڑھتے پورے جسم میں پھیل گئے ہیں۔ پھیلتے پھیلتے.... آپ نہیں سمجھیں گے۔‘ اُس نے گہرا سانس لیا۔

’لیکن پروپوزل۔؟‘

’وہ بھی نیٹ سے برآمد ہوا تھا۔‘ صوفیہ کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔ عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ تھکے ہارے لوگوں کے لئے یہ بھی ہاتھ آیا ایک موقع تھا مگر___ جس وقت بجیا اور بھائی اُس سے ملنے ہوٹل گئے، وہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ یہ بجیا نے ہی بتایا۔

اِن ڈسنٹ پروپوزل

ہوٹل کی لابی میں اس وقت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ نادر اور صوفیہ اُس کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ ظاہر ہے، وہ لڑکی کی تصویر دیکھ چکا تھا۔ لیکن اُس نے ملنے کا تجسس نہیں دکھایا تھا۔ سگریٹ کے گول گول مرغولے کے درمیان اُس کے چہرے کے تاثر کو پرکھا نہیں جاسکتا تھا___

نادر نے گلہ کھکھارتے ہوئے اُسے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس کی اُنگلیوں میں، مہنگی سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ عام طور پر مسلمان مردوں میں سونا پہننے کا رواج نہیں ہے۔ گلے میں بھی سونے کا ایک چین پڑا تھا۔ یقیناً اُس کی منشا یہ تھی کہ سامنے والا اُسے کسی رئیس سے کم نہ سمجھے۔

ثریا نے پہلو بدلا اور ناگوار آنکھوں سے نادر کو دیکھا___ اُس نے سگریٹ آرام سے ختم کیا۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کے باقی ٹکڑے کو مسلا۔ پھر مسکرایا___

’معاف کیجئے گا۔ سگریٹ میری مجبوری ہے۔‘

’کیوں نہ ہم معاملے کی بات کریں۔‘ نادر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ’مجھے بھی جانے کی جلدی ہے۔ دراصل میں سوچ رہا تھا___ نہیں، جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گزاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار___ سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہوسکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئے گا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہیں پسند آئے تو آپ جاسکتے ہیں۔ کوئی جہیز لیتا ہے۔ کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کسی کی کوئی___ میرے پاس سب کچھ ہے۔ خود سے حاصل کیا ہوا___اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘ وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اُس نے گولی داغ دی....

”ایک دوسرے کو اچھی طرح پر سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گزاریں۔“

اُس نے ہمارے تاثرات کی پرواہ نہیں کی۔ جملہ ختم کرنے ہی اٹھا اور دوسری طرف منہ کرکے دوسرا سگریٹ سلگالیا۔ لائٹر کی خوبصورت ٹیون کے ساتھ ایک شعلہ لپکا تھا جس کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی___

۔۔۔۔

واپس گھر لوٹنے تک جیسے یہ دنیا ایک چھوٹے سے سیپ میں بندہو چکی تھی۔ صوفے پر برسوں کی بیمار کی طرح ثریا دھنس گئی۔ دوسرے صوفے پر نادر نے اپنے آپ کو ڈال دیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ دل ودماغ پر پتھرائو چل رہے تھے___ کب کس وقت صوفیہ آکر قریب میں بیٹھ گئی، پتہ بھی نہیں چلا۔ مگر جیسے ساری دنیا الٹ پلٹ ہوچکی تھی___ سیپ کے منہ کھل گئی تھے۔ یا سیپ، لہروں کی مسلسل اُچھال کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھی۔

’کیوں، کیا ہوا....؟‘

یہ صوفیہ تھی۔ معمولی کے خلاف اُس کے ہونٹوں پر ایک ہنسی بکھری ہوئی تھی۔ جیسے وہ یقیناً اس موسم کی عادی ہوچکی ہو....!

جیجو پاس میں آکر بیٹھ گئے۔ جیسے لاشیں ہوتی ہیں۔ سخت، اکڑی ہوگئی۔ صوفیہ نے جیجو کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کھکھلا کر ہنس دی۔

’یہ آتش بازی بھی پھس ہوگئی۔ کیوں جیجو....؟‘

لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ نادر مشتاق احمد اور ثریا مشتاق احمد کی آنکھوں میں حساب کتاب کا سلسلہ جاری تھا___

’بتادوں؟‘ یہ نادر مشتاق احمد تھا۔

’نہیں، جیجو نے درد کی تاب نہ لاکر آنکھیں بند کرلیں___

’بتانے میں حرج ہی کیا ہے....‘ ثریا کی آواز دبی دبی تھی....

’نہیں۔ مجھے بتائیے۔‘ صوفیہ اور قریب آگئی۔ میں جانتی ہوں مجھے کوئی پسند نہیں کرسکتا۔ میں کتنی بار آپ لوگوں سے کہہ بھی چکی ہوں۔ مگر___ اﷲ کے واسطے بتائیے ہوا کیا ہے....‘

اور پھر، جیسے ایک کے بعد ایک آتش بازی چھوٹتی چلی گئی۔ آتش بازیوں کا کھیل رُکا تو دوسرا بم کا گولہ صوفیہ نے داغ دیا۔

’میں تیار ہوں۔ اُسے آنے دیجئے۔ کب بلایا ہے___‘ ثریا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا___ میں تھک گئی ہوں۔ اب حوصلہ نہیں ہے، اب یہ کھیل ختم ہوجانے دیجئے۔ اب ایک آخری کھیل___ ہم سب کے فائدے کے لئے۔ وہ پھر رُکی نہیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی___

ایک خوفناک کہانی کا انت

قارئین۔ کوئی دنیا اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی دنیا اس سے زیادہ بدصورت نہیں ہوسکتی۔ یہ میرا مانتا ہے۔ اور شاید یہ اسی لئے بطور مصنف میں اس کہانی کا گواہ رہا___ بطور مصنف میں نے اپنے آپ کو بھی اس کہانی میں شامل کیا___ مجھے نہیں معلوم، ثریا اور نادر نے صوفیہ کی رضامندی کو اپنی منظوری کی ہری جھنڈی کیسے دے دی۔ یا پھر صوفیہ اس پروپوزل کے لئے مان کیسے گئی۔ اس ترقی یافتہ ملک میں شادی کے اس بھیانک بازار کا تصور میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ شاید اسی لئے اس خوفناک کہانی کا انت سنانے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے اور اسی لئے اب میں آپ کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں۔ جو ہوگا، آپ کے سامنے آئے گا___ جنوری ماہ کی بھیانک ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی۔ اُس دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ مگر صوفیہ مطمئن تھی۔ وہ شان سے گانا گنگناتی ہوئی اٹھی___ دوپہر تک سرد لہری میں اضافہ ہوچکا تھا___

گھڑی کی تیزی سے بڑھتی سوئیاں ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاریاں کررہی تھیں۔

٭٭

ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے کو گھیر کر سب بیٹھ گئے تھے۔ جسے کسی میّت میں بیٹھے ہوں۔ جنازہ اٹھنے میں دیر ہو___ ایک ایک لمحہ برسوں کے برابرہو۔ پھر جیسے ہونٹوں پر جمی برف، بھاپ بن کر پگھلی___

’آہ، یہ نہیں ہونا چاہئے تھے....، یہ جیجو تھا۔

’کیا ہوگا؟ ‘ ثریا کی آنکھوں میں اُڑ کر وہی کیڑا آگیا تھا___

نادر نے بات جھٹکی___ رات میں یہ کیڑے پریشان کردیتے ہیں۔‘

’شی....وہ آرہی ہے....‘ جیجو نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی.... ’اور جان لو، وہ کوئی کیڑا نہیں ہے۔‘

اور جیسے وقت تھم گیا___ صوفیہ ایک لمحے کو اُن کے سامنے آکر رُکی۔

’آپ لوگ.... آپ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں۔‘

٭٭

نہیں۔ یہ وہ لڑکی تھی ہی نہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈر جانے والی___ پتوں کی طرح بکھرجانے والی___ اُس کی ساری تیاریاں مکمل تھیں___

وقت آہستہ آہستہ قریب آرہا تھا۔

اُس نے پلٹ کر جیجو کی طرف دیکھا___ نہیں جیجو نہیں تھے۔ جیجو کی جگہ کوئی لاش تھی۔ چہرے پر، کاٹو تو خون کا نشان نہیں۔ آنکھیں بے حرکت....

اُس نے پلٹ کر بھائی کی طرف دیکھا۔ بھائی ہمیشہ کی طرح نظریں نیچی کئے، اپنے آپ سے لڑنے کی کوشش کررہا تھا___

بہن نے چہرہ گھمالیا تھا۔ اس لئے وہ بہن کے جذبات کو نہیں دیکھ سکی___

پھر جیسے کمرے میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوا___

’پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں بس، وہ آتا ہوگا___ میں کمرے میں ہوں۔ آپ اُسے کمرے میں ہی بھیج دیجئے گا۔‘

اُس کی آواز نپی تلی تھی۔

پھر وہ وہاں ٹھہری نہیں۔ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی___

صوفیہ کا آخری بیان

کوئی امتحان ایسا بھی ہوسکتا ہے، اُس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اپنی خاموشی کے ریگستان میں چب چب سلگتی رہی۔ کسی نے بھی اُس کے اندر کی آواز کو کب سنا تھا۔ کسی نے بھی اُس کے اندر کی لڑکی کو کب دیکھا تھا۔ خود اُس نے بھی نہیں۔ نہیں۔ یہ سچ ہے۔ ایک عرصہ سے وہ اپنے آپ سے نہیں ملی۔ کمپیوٹر کوچنگ سے گھر اور گھرسے اپنے اُداس کمرے کا حصہ بنتے ہوئے بس وہ خلاءمیں ڈوبتے ابھرتے بھنور کو دیکھنے میں ہی صبح سے شام کردیتی___ کمرے کے آسیب چپ چپ اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے___ اُسے سمجھنے والا کون تھا۔ اُسے پڑھنے والا کون تھا___ وہ عشق نہیں کرسکتی تھی۔وہ اپنے لئے کوئی لڑکا پسند نہیں کرسکتی تھی۔ انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپتے تھے۔ کسی لڑکے سے دو منٹ چیٹنگ کے بعد ہی اُس کی سانس دھونکتی کی طرح چلنی شروع ہو جاتی۔ بدن کانپنے لگتا۔ سائبر کیفے کی ایک ایک شئے گھومتی ہوئی نظر آتی۔ وہ بدحواس پریشان سی گھر آتی تو....‘

لیکن گھر کہاں تھا۔ ماں باپ ہوتے تو گھر ہوتا۔ بہن اور جیجو کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ بھائی کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ گھر میں تو سپنے رہتے ہیں۔ سپنوں کے ڈھیر سارے ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار___ یہ چھوٹے چھوٹے تارے تو ہتھیلیوں سے چھوٹ چھوٹ کر گرتے رہے۔ اندھیرے کمرے میں آسیبی مکالمے رہ گئے تھے___

’کھانا بنایا___؟‘

نہیں۔

’کیوں؟‘

خواہش نہیں ہوئی___

’خواہش یا....؟‘

ہونٹوں پر ایک ناگوار ساتاثر اُبھرا۔ کیا بس اِسی کام کے لئے رہ گئی ہوں___

”ہوسکتا ہے۔ بھائی نے یہی سوچا ہو۔“

’نہیں۔ بھائی اُ س سے محبت کرتا ہے۔

’سارے بھائی محبت کرتے ہیں مگر....‘

’میرا بھائی‘.... وہ کہتے کہتے رُک جاتی....

تمہارا بھائی ہر لمحہ، تمہارے اندر ہوتا ہے۔ جانتی ہو کیوں؟۔

’نہیں۔‘

’اُس کے پاس سپنے ہیں....‘

’تو....؟‘

’وہ اُڑناچاہتا ہے۔ اُڑکراپنے لئے بھی پسند دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر تم۔ افسوس۔ تم نے اُس کے سپنوں کو راکشس کے ان دیکھے قلعے میں نظر بند کر رکھا ہے۔ وہ تم سے چھٹکارا چاہتا ہے___‘

’نہیں۔‘ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہوگئی___‘ جھوٹ بولتے ہو تم۔ کوئی چھٹکارا نہیں چاہتا۔ سب پیار کرتے ہیں مجھ سے۔ ہاں، بس، عمر کے پنکھ پرانے پڑ رہے ہیں۔ پنکھ پرانے ہو جائیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ میں ایک بے ارادہ سڑک بن گئی ہوں۔ کوئی گزرنا ہی نہیں چاہتا۔‘

’نہیں ڈرو مت۔‘

کمرے کے آسیب اُسے گھیر رہے ہیں۔ خود سے باتیں کرتے ہوئے سارا دن گزار لیتی ہو۔ پتہ ہے بہن کیا کہتی ہے؟

’نہیں۔‘

’بھائی پر ناراض ہوتی ہے۔ اسی لئے تو تمہیں وہاں سے نکالا گیا۔ تم کوئی کام ہی نہیں کرتی تھی۔ بس سوتی رہتی تھی۔‘

’سوتی کہاں تھی۔ میں تو خود میں رہتی تھی۔ خود سے لڑتی تھی۔‘

’کیا ملا۔ بہن نے بھائی کے یہاں بھیج دیا۔‘

’بھیجا نہیں۔ میں خود آئی....‘ کہتے کہتے ایک لمحے کو وہ پھر رُک گئی....

’دراصل تم ٹیبل ٹینس کی بال ہو.... سمجھ رہی ہونا، چھوٹی سی ٹن ٹن.... بجنے والی بال.... لیکن اس بال کو راستہ نہیں مل رہا ہے....

’کیا کروں میں....‘

’افسوس، تم ابھی کچھ نہیں کرسکتی___ تم صرف آگ جمع کرتی رہو۔ سن رہی ہو نا۔ آگ.... اپنے آپ کو برف کی طرح سردمت پڑنے دو۔ سرد پڑ گئی تو.... لاش کو اپنے گھر کون رکھتا ہے۔ وہ بھی بدبو دیتی لاش....‘

٭٭

ٹیبل ٹینس بال کی طرح ادھر اُدھر لڑھکنے کا سلسلہ جاری رہا___ پتہ نہیں، وہ کتنی بار مری۔ پتہ نہیں وہ کتنی بار زندہ ہوئی۔ بہن اور بھائی کے ہزاروں سوالوں سے لاتعلق، اپنے ہی آسیب سے لڑتی لڑتی تھک گئی تو اُس ’اِن ڈسنٹ پروپوزل‘ کے ئے اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اور یہ حیرت کرنے والی بات تھی___ پہلی بار اُسے لگا۔ کمرے میں آسیب اکٹھا نہیں ہوئے ہوں۔ پہلی بار لگا، اُس کہے ان کے مکالموں کی بھاپ سے کمرے میں کہاسے نہیں ’گرے‘ ہوں___ کمرے میں خوف کی چادر ہی نہیں تنی ہو___ کمرے میں ڈھیر سارے چمگادڑ نہیں اکٹھا ہوئے ہوں۔ جیسے بہن، دھیرے سے ہنستی ہوئی ایک دن بھائی سے بولی تھی، آسیب، وہاں آسیب رہتے ہیں سمجھاؤ اُسے۔ کمرے کو اپنی خاموشی سے اُس نے آسیب زدہ نبا دیا ہے اور یقیناً اُسے بھائی کا چہرہ یاد نہیں۔ بھائی نے ہمیشہ کی طرح نظریں جھکاکرکچھ دھیرے دھیرے کہنے کی کوشش کی ہوگی۔

مگر آج___

آوازوں کے تیر غائب تھے۔ شب خونی ہوا کا پتھرائو گم تھا___ آئینہ میں وہ پاگل لڑکی موجود نہیں تھی۔ جسے بار بار بہن کی بھنکار سننی پڑتی تھی۔ نہیں لڑکی۔ ایسے نہیں۔ مانگ ایسے نکالو۔ لباس، کپڑے کیا ایسے پہنے جاتے ہیں۔ زلفیں کیا ایسے سنواری جاتی ہیں۔

وہ دھیرے سے ہنسی___

آئینہ والی لڑکی جو بھی ہنسی۔

پھر وہ تیز تیز ہنستی چلی گئی___

٭٭

کمرے کی دیوار گھڑی پر ایک اُچٹتی نظر ڈال کر وہ کمرے سے ملحق باتھ روم میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ اُس نے ’اڈگا‘کر رکھا تھا، تاکہ ’اُس کی‘ آہٹ کی اطلاع اُسے باتھ روم میں مل سکے۔ باتھ روم کا ٹائلس ذرا سا گندہ ہورہا تھا۔ اُس نے شاور کے نیچے کے دونوں نل کھول لیے۔ گیزر چلا دیا۔ گرم گرم پانی جب تلووں سے ہوکر بہنے لگا تو وہ ٹائلس کو اپنے بے حد ملائم گورے ہاتھوں سے تیز تیز رگڑ نے لگی۔ ٹائلس کے چاروں طرف صابن کے جھاگ پھیل گئے تھے۔ اُس نے اپنے لئے ایک بے حدخوبصورت اور سینسیشنل نائیٹی کا انتخاب کی تھا۔ یہ نائیٹی سیاہ رنگ کی تھی۔ جو اُس کے گورے ’جھنجھناتے‘ بدن سے بے پناہ میچ کھاتی تھی۔ نائیٹی اُس نے باتھ روم کے ہینگر میں ٹانگ دیا۔ صابن کے گرم گرم جھاگ اور فواروں سے، وہ کچھ دیر تک اپنے ننگے پائوں سے کھیلتی رہی___ پھر مدہوشی کے عالم میں ٹوٹتے بنتے جھاگوں کے درمیان بیٹھ گئی___ ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔ دوسرے ہی لمحے کپڑے اُس کے بدن سے آزاد ہوکر اُڑتے چلے گئے۔ اُس نے نل بند کیا۔ جسم میں مچلتے طوفان کا جائزہ لیا___ صابن کے جھاگوں کو ہاتھوں سے اُڑایا___یا پھر اپنے ننگے بدن کے ساتھ وہیں لیٹ گئی___

کمرے کا دروازہ چڑمڑایا تو اچانک وہ، جیسے خواب کی وادیوں سے لوٹی___ منہ سے بے ساختہ آواز بلند ہوئی___

”آپ انتظار کیجئے___ آرہی ہوں۔“

ایک لمحے کو وہ حیران رہ گئی___ کیا یہ اُس کی آواز تھی___ ؟صوفیہ کی آواز___ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ صوفیہ کے تو منہ میں زبان ہی نہیں۔ کیا یہ وہ تھی....آج سارے موسم جیسے بدل گئے تھے___وہ بدل گئی تھی___

ایک لمحے کو باتھ روم کی کنڈی پر ہاتھ رکھ کر وہ ٹھٹھکی___، دروازہ بند کروں یا___ نہیں___ بند نہیں کروں گی___ بند کرنے سے کیا ہوگا___ آئینہ کے سامنے برقع پہننے سے کیا حاصل۔ شٹررکھنے والے کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔ اُسے پورا پورا۔ ایک وقت آتا ہے، جب مانگیں جسم سے آگے نکل جاتی ہیں۔ جسم کی ساری حدود توڑ کر۔ آگے۔ بہت آگے.... اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔ بیسن کے آئینہ میں اپنے عکس کو ٹٹولا.... نہیں وہ ہے۔ ایک مدہوش کردینے والی ’صفت‘ کے ساتھ.... نہیں، یقیناً، وہ کسی بیوٹی کنسٹٹ میں شامل نہیں ہے۔ مگر وہ.... ایک لمحے کو اُس نے پلکیں جھپکائیں___ آئینہ میں گیزر چل رہا تھا۔ نہیں یہ گیزر نہیں تھا۔ یہ تو وہ تھی۔ مجسم، سرتا پا آگ....

اُس نے گیزر بند کردیا۔ ٹھنڈے پانی کا شاور کھول دیا.... شاور کی بوندیں آگ میں گرتی ہوئی دھواں دھواں منظر پیش کررہی تھیں۔چاروں طرف سے آگ کی جھاس اُٹھ رہی تھی۔ ٹائلس سے___ برہنہ دیواروں سے___ آئینہ سے___ اور___ وہ ایک دم سے چونکی۔ کمرے میں کوئی انتظار کررہا ہے___ آگے بڑھ کر اُس نے ٹوول کھینچا___ ہینگر سے نائیٹی کھینچی۔ آئینہ کے سامنے کھری ہوئی۔ آئینہ میں بھاپ جم گئی تھی۔ تولیہ سے بھاپ صاف کرنے لگی۔ پھر ایک بار اپنے آپ کو ٹٹولا.... اور دوسرے ہی لمحے دھڑاک سے اُس نے باتھ روم کا دروازہ کھول دیا___

کمرے میں، یعنی وہ جو بھی تھا، دیوار کے اُس طرف منہ کئے کسی سوچ میں گم تھا۔ دروازہ بھڑاک سے کھلتے ہی وہ یکایک چونکا۔ اُس کی طرف مڑا اور یکایک ٹھہر گیا___

سلیولیس نائیٹی میں صوفیہ کا جسم کسی کمان کی طرح تن گیا___ ’آئی ایم صوفیہ مشتاق احمد۔ ڈاٹر آف حاجی مشتاق احمد۔ عمر پچیس سال۔ پچیس سے زیادہ لوگ تم سے پہلے مجھے دیکھ کر جاچکے ہیں___ تمہارا نمبر۔

’مجھے اس سے زیادہ مطلب نہیں....‘ یہ لڑکا تھا۔ مگر آواز میں کنپکپی برقرار___ جیسے پہلی بارجرم کرنے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں....

’بیٹھئے۔‘ وہ آہستہ سے بولی۔

لڑکا بیٹھ گیا۔ اُس نے لڑکے کے چہرے پر اپنی نظریں گڑا دیں۔ چہرہ کوئی خاص نہیں۔ گہیواں رنگ۔ ناک تھوڑی موٹی تھی۔ بدن دبلا تھا۔ قد بھی پانچ فٹ سات انچ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ وہ آسمانی جینس اورمیرون کلر کی ٹی شرٹ پہنے تھا۔ مینئل سفاری شوز اُس کے پائوں میں بالکل نہیں جچ رہے تھے___ لڑکا اُس سے آنکھیں ملانے کی کوشش میں پہلی ہی پائیدان پرچاروں خانے چت گرا تھا۔

’دیکھو مجھے....‘ وہ آہستہ سے بولی۔

’دیکھ رہا ہوں....‘ لڑکے نے اپنی آواز کو مضبوط بنانے کی ناکام سی کوشش کی۔

’نہیں تم دیکھ نہیں رہے ہو، دیکھو مجھے___ نائیٹی کیسی لگ رہی ہے....‘

اس بار لڑکے نے ایک بار پھر اپنی مضبوطی کا جوا کھیلا تھا___ ’اچھی ہے....‘

’اچھی نہیں۔ بہت اچھی ہے....‘ وہ مسکرائی___ کیسی لگ رہی ہوں میں....‘

لڑکا ایک لمحے کو سکپکایا___ وہ دھیرے سے ہنسی ....نظر جھکانے کی ضرورت نہیں ہے....دیکھنے پر ٹیکس نہیں ہے۔ اور تم تو.... کسی بازار میں نہیں، اچھے گھر میں آئے ہو.... یقین مانو۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اسی لئے تمہاری شرط کے بارے میں سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا___ تمہارے لئے یہی بہت ہے کہ تم مرد ہو۔ مرد ہو، اس لئے تمہارے اندر کا غرور بڑھا جارہا تھا۔ پہلے تم نے جہیز کا سہارا لیا۔ رقم بڑھائی، رقم دگنی تگنی کی اور پھر.... یقین مانو، میرے گھر والوں نے سوچا تھا کہ یہ موم کی مورت تو بُرا مان جائے گی۔ مگر میں نے ہی آگے بڑھ کر کہا.... بہت ہوگیا.... آخری تماشہ بھی کر ڈالو....‘

باہر رات گر رہی تھی۔ نہیں، رات جم گئی تھی۔ جنوری ماہ کی ٹھنڈ لہریں جسم میں تیزاب برپا کررہی تھیں۔ لیکن وہ جیسے ہر طرح کے سرد وگرم سے بے نیاز ہو کر ٹک ٹکی باندھے اُسے دیکھ رہی تھی۔

’بستر پرچلو یا....‘

اتنی جلد.... اتنی جلدی کیا ہے....‘ لڑکے کی آواز گڑبڑائی تو وہ پوری قوت لگا کر چیخ پڑی___

’جلدی ہے۔ تمہیں نہیں۔ لیکن مجھے ہے۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں۔ کتنے بھوکے ہو تم___ پتہ ہے یہاں آکر، اس کمرے میں آکر مجھ سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے تمہیں___ بس اتنے بھوکے ہو۔ نہیں۔ باہر.... باہر والوں کی پرواہ مت کرو۔وہاں ایک بھائی ہے، جب تک میں باہر نہیں نکلوں گی۔ تیر کی طرح زمین میں گڑا، اپنے ناکارہ ہونے کے احساس سے مرتا رہے گا، سہمی سہمی سی ایک بہن ہوگی اور سہمے سہمے سے سوال ہوں گے___ نہیں اُن سوالوں کی پرواہ مت کرو___ میں کرتی تو اس وقت نائیٹی پہن کر تمہارے سامنے نہیں ہوتی اُنہیں بس یہی پڑی تھی کہ میری شادی ہو جائے___ تم پھر تم ملے۔ مجھے بستر پر آزماکر، میرے بدن کو منظوری دینے والے تھے۔ سچ، ایک بات بولنا۔ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے یا میرے بدن سے....‘

’وقت___‘ لڑکے نے پھر مضبوط لفظوں کا سہارا لیا___ ’وقت بدل رہا ہے۔‘

’وقت‘ ___وہ زور سے ہنسی___ ’بدل رہا ہے نہیں۔ بدل گیا ہے۔ لیکن تم کیوں کانپ رہے ہو۔ دیدار کرو میرا، دیکھو مجھے۔‘

کمرے میں نور کا جھماکا ہوا___

ایک لمحے کو اُس کے ہاتھ پیچھے کی طرف گئے___ نائیٹی کے ہک کھلے اور نائیٹی ہوا میں اُڑتی ہوئی بستر پر پڑی تھی___

لڑکا بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ اُس کی پلکوں پر جیسے انگارے رکھ دیئے گئے تھے___ نہیں، انگارے نہیں___ برف کی پوری سلی___ وہ جیسے پلک جھپکانا بھول گیا تھا___ ہوش اُڑ چکے تھے۔ آنکھیں ساکت وجامد تھیں.... ایک دھند تھی جو روشندان چیرتی ہوئی کمرے میں پھیل گئی تھی۔

’دیکھو مجھے....‘

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینہ کے قریب آگئی___ ”دیکھو مجھے۔ میں نے کہا تھا، نا۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں___ پچیس لوگ تم سے پہلے بھی مجھے دیکھے بغیر واپس لوٹ چکے ہیں___ سمجھ سکتے ہو۔ پچیس بار تو یونہی مری ہوں گی___ شادی کے ہر احساس کے ساتھ بدن میں انگارے پلتے ہیں___ جانتے ہونا، فرائیڈ نے کہا تھا، عورت مرد سے زیادہ اپنے بدن میں انگارے رکھتی ہے___ اور میں تو بڑی ہوئی تب سے انگارے جمع کرتی رہی تھی.... فلم سے سیریل، ٹی وی، دوست سہیلیوں کی شادی___ مجھ سے بے حد کم عمر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہونے کے قصہ.... ہر بار انگاروں کی تعداد بڑھا جاتی۔ میں ہر بار انگارے چھپالیتی.... وہ زور سے چیخی___ رنڈی نہیں ہوں میں۔ بازار میں نہیں بیٹھی ہوں۔ تم نے سودا نہیں کیا ہے میرا۔ میری میں نے بھی تسلی کی تھی کہ اگر تم میرے شوہر ہوئے تو تمہیں تو پورا پورا مجھے دیکھنا ہی ہے___ اور پھر.... میرے گھر والے یوں بھی تھک گئے ہیں۔“

اُس نے بے حد مغرور انداز میں آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھی۔ جیسے قلوپطرہ نے اپنی ایک جھلک دیکھی ہو اور فاتحانہ سراٹھاکر اپنے ملازموں سے کہا ہو___ یہ آئینہ لے جاؤ، اس کا عکس بھی مجھ سے کم تر ہے۔ کوئی ایسا آئینہ خانہ لاؤجو میری طرح دکھ سکے۔

وہ مغرور ادائوں کے ساتھ مڑی۔ بستر سے نائیٹی کو اٹھایا اور دوسرے ہی لمحے نائیٹی کے ’بدن‘میں داخل ہوگئی___

لڑکا ابھی بھی تھرتھر کانپ رہا تھا....

’یہ کوٹھا نہیں تھا اور اتنا طے ہے کہ تم آج تک کسی کوٹھے پر نہیں گئے___ دیکھو.... تم کانپ رہے ہو۔ نہیں، ادھر آئو۔ اُس نے بے جھجک اُس کا ہاتھ پکڑا۔ مرر کے سامنے لے آئی۔ یوں تو، تم کیسے لگ رہے ہو۔ جوناتھن سوئفٹ کے گھوڑے___ لیکن نہیں۔ تم گھوڑے بھی نہیں ہو.... تم ایک ڈرپوک مرد ہو جو ایک خوبصورت بدن کو آنکھ اُٹھاکر غور سے دیکھ بھی نہیں سکتا___‘

لڑکا بے حس وحرکت تھا۔ ساکت وجامد۔ لاش کی طرح سرد___

صوفیہ مشتاق احمد کی آنکھوں میں برسوں کی ذلت چنگاری بن کر دوڑ گئی___ بھوک، نفرت پر غالب آگئی___ دیکھتے کیا ہو___ میں پوچھتی ہوں۔ اب بھی تم اس کمرے میں کھڑے کیسے ہو۔ تم تو شرط کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہو۔ نامرد کیڑے۔ نہیں۔ وہیں کھڑے رہو اور جانے سے پہلے میری ایک بات اور سن لو۔ میں نے کہا تھا ناتم سے زیادہ بھوکی ہوں میں مگر رنڈی نہیں تھی۔ ارے، تمہاری جگہ میں ہوتی، میں نے شرط رکھی ہوتی تو کم از کم یہاں آنے کی جرأت کے بعد، میں نے نہیں کم از کم تمہیں چھوا ضرور ہوتا۔ دھیرے سے، تمہارے ہاتھوں کو.... کہ بدن کیسے بولتا ہے___ کیسے آگ اُگلتا ہے۔ لیکن تم.... تم تو بند کمرے میں، اپنی ہی شرط کے باوجود، چھونا تو دور اسے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے....‘ ایک لمحے کو جیسے اُس کے اندر برقی لہر دوڑ گئی۔ بے حد نفرت کی آگ میں سلگتے ہوئے صوفیہ احمد نے اُسے زور کا دھکا دیا....’گیٹ لاسٹ۔‘

لڑکا پہلے ہڑبڑایا۔ پھر سرعت کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایک لمحہ کو صوفیہ مشتاق احمد مسکرائی۔ اپنا عکس آئینہ میں دیکھا___ نہیں۔ اب اُسے مضبوط ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ باہر کہاسے گر رہے تھے۔ سرد ہوا تیز ہوگئی تھیں۔ کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ اُف، اس درمیان وہ جیسے وہ دنیا ومافیا سے بالکل بے خبر ہوگئی تھی۔ تیز، جسم میں طوفان برپا کرنے والی سردی کو بھی___ اُس نے اپنے ہی دانتوں کو کٹکٹانے کی آواز سنی اور اچانک ایک لمحے کو وہ ٹھہر گئی۔ وہی جانی پہچانی دستک___ خوفناک آوزاوں کا شور۔ جیسے دیواروں پر کوئی رینگ رہا ہو۔ کیا ویمپائر....؟ ڈراکیولا....؟ باہر یقیناً اس ’پُراسرار‘ تماشے کا حال جاننے کے لئے اُس کے گھر والے موجود ہوں گے___ اور اُس کا بے چینی سے انتظار بھی کررہے ہوں گے___

مگر.... یہ دستک....خوفناک آوازیں.... دیواروں پررینگنے کی آواز___ جیسے ہزاروں کی تعداد میں چمگادڑیں اُڑ رہی ہوں۔ پیڑوں پر اُلو بول رہے ہوں۔ شہر خموشاں سے بھیڑیوں کی چیخ سنائی دے رہی ہو___ وہی رینگنے کی آواز___ برفیلی، تیز ہوا سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے.... وہ تیزی سے آگے، کھڑکی کی طرف بڑھی___

گہری دھند کے باوجود شہر خموشاں کا منظر سامنے تھا اور وہاں دیوار پر چھپکلی کی طرح رینگتا ڈراکیولا، اس بار اُسے بے حد کمزور سا لگا___ شاید وہ شہر خموشاں میں واپس اپنے ’کوفن‘ میں لیٹنے جارہا تھا۔ جبکہ صبح کی سیپدی چھانے میں ابھی کافی دیر تھی___

٭٭