شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

نظمیں

آصف ثاقب

مشغلہ

انتظار

غبارِ راہ میں ایسا ہوں انتظار میں گم

جسے میں ”دیکھتا“رہتا ہوں وہ سراب نہیں

ہوا اُڑا کے نگاہوں میں دھول بھرتی ہے

یہ کیسے حسنِ مناظرپہ جم کے تارا ہوں

سوار کوئی نہیں ہے نہ کوئی محمل ہے

میں انتظار کی لاحاصلی سمجھتا ہوں

مجھے خبر ہے کہ خوش منظری نہیں اس میں

یہ لفظ اصل میں صرفِ نظر سے نکلا ہے

٭

معذور

برسوں سے یہ عالم ہے

معذورِ سماعت ہوں

بچپن میں رہا کتنا

محروم کہانی سے

پھر دورِ جوانی تھا

کانوں میں وہ سرگوشی

جو عہدِ محبت تھی

صحرا کی صدا بن کر

تفہیم سے خارج تھی

بوڑھا ہوں تو اب گھر میں

اولاد گریزاں ہے

معذورِ سماعت ہوں


رانا سعید دوشی

شریکینِ حیات

میں جب بھی نظم بنتا ہوں

غزل آکر سرہانے بیٹھ جاتی ہے

غزل سے بات کرتا ہوں

تو نظمیں منہ بناتی ہیں

سعی کرتا ہوں دونوں کو منانے کی

مگر بے سود

آخر کار

دونوں سے خفا ہوکر

میں گھر سے بھاگ جاتا ہوں

کسی ”نثرین “ کے کوٹھے پہ جاکر

بیٹھ جاتا ہوں

ذرا خوش فہمیوں کے پھول چنتا ہوں

”جسے میری زیادہ آرزو ہوگی

وہ میرے پاؤں پڑ کر بھی منالے گی

زیادہ دیر تک ناراضگی کا کرب

میں بھی سہہ نہیں سکتا

گلے شکوے بھلا کر میں بھی

اس کے ساتھ چل دوں گا!“

بہت ہی جلد سپنا ٹوٹ جاتا ہے

میں بعد از شام اٹھ کر

خود ہی اپنے گھر کو جاتا ہوں

سبھی شکوے گلے تہہ کرکے

بستر کے سرہانے چھوڑ آتا ہوں


ارشد جمال ہاشمی

کچھ تو بولو

(نثری نظم)

لب کھو لو اور کچھ بولو

میں نے سنا ہے کہ تم بڑے ہو

مجھ سے بڑے

اس سے بھی بڑے

وہ جو چلا ہے آگ لگانے بستی میں

وہ جو تلا ہے زہر فضا میں گھولنے پر

اٹھا ہے طوفان اٹھانے گلشن میں

اس سے بھی بڑے ہو

بہت بڑے ہو

میں نے سنا ہے

تمہارے دم سے باقی ہیں

چاند کی چاندنی ، پھول کی خوشبو، مست پون

مگر ذرا آنکھیں کھولو اور دیکھو

چاندنی جسم جلانے لگی ہے

پھول سے بدبو آنے لگی ہے

اور پون بھی چلنے لگی آندھی کی چال

مجھ کو تو ایسا لگتا ہے

تم بھی اس کے پیچھے کھڑے ہو

اگر نہیں تو سامنے آؤ

لب کھولو اور کچھ بولو

تم یوں ہی خاموش رہے تو

اس کی لگائی آگ میں اک دن

میرا سب کچھ جل جائے گا

ہاں لیکن یہ یاد رہے

میرے لہو کو چاٹ کے شعلہ جب بھڑکے گا

وہ بھی ہو جائے گا خاک

(ہوگا تمہارا بھی قصہ پاک )

اب بھی وقت ہے سامنے آؤ

لب کھو لو اور کچھ بولو

٭٭٭

مرزا ساجد بیگ

ثبوتِ محبت

ہمارا!

ثبوتِ محبت یہی ہے

ترا نام لکھ کر

قلم توڑ دی ہے

٭٭٭

بابر خان

یہ تو ممکن ہے جب!

یہ تو ممکن ہے جب

تو اگر ساتھ دے

تو اگر ساتھ دے

تو یہ دوری ہے کیا

اورملاقات کیا

بن کے سایہ مرا

تو مرے ساتھ ہے

٭٭٭

اوصاف شیخ

ویلنٹائن ڈے

ضروری تو یہی تھا

کہ میں اس دن کی

روایت کے حوالے سے

تمہیں کچھ دیتا

مگر میں کیا کروں جاناں

جہاں میں ہوں

وہاں اب تو پھول کیا

گھاس بھی اگتی نہیں ہے

دکانوں پر سجے

ان کاغذی،

خوش رنگ ، بدبو دار پھولوں سے

تو بہتر ہے

یہ ایک فقرہ

جو گرچہ بارہا

پہلے بھی تم سے کہہ چکا ہوں

پھر بھی تازہ اور خوشبو دار

ہے اب تک

”مجھے تم سے محبت ہے“

٭٭٭٭

رویز ساحر

ایک عجیب تماشا


شام گئے

جب دنیا کے

دھندوں سے تھک کر

میں اپنے

گھر آنگن کے

خالی کمرے میں

واپس آیا

تو اپنی

ان پھٹی پھٹی

آنکھوں سے

میں نے

ایک عجیب تماشا دیکھا

(دیکھتا کیا ہوں)

میری تنہائی

پائوں میں گھنگھرو باندھے ناچ رہی ہے

٭٭٭٭


جمشید ساحل

اردو ڈیپارٹمنٹ

چند ویران کمرے

اجاڑ صحن

گرد سے اٹی کرسیاں

مقفل لائبریری

تھکے ہارے طالب علم

چیدہ چیدہ اساتذہ

ہر سو پھیلی اجنبیت

اور غوں غوں کرتی یہ روایتیں

٭٭٭

ارم کلثوم ملک

ڈر

دریا ہے اک میرے اندر

جس میں اگر

طغیانی آئی

میں خود اس میں

بہہ جائوں گی

٭٭٭

شبہ طراز

روشنی اے روشنی!!

کس انتظار میں؟؟

کس انتظار میں آنکھیں جلی رہیں میری

کس انتظار میں چوکھٹ پہ پاؤں سوکھ گئے

کس انتظار میں تاروں نے راستہ ناپا

کس انتظار میں بادل بھری سویر ہوئی

کس انتظار میں بیٹھے تھے آرزو کے بدن

کس انتظار میں سہمی رہیں تمنائیں

کس انتظار میں موسم دھنک بناتے رہے

کس انتظار میں چولہے جلے غریبوں کے

کس انتظار میں سکوں سے بھر گئیں جیبیں

کس انتظار میں ہاتھوں نے تتلیاں پکڑیں

کس انتظار میں آنچل نے جگنوؤں کو چنا

کس انتظار میں سبزے پہ کونپلیں پھوٹیں

کس انتظار میں؟؟

حفیظ ضیغم

تمہی بتاؤ

طویل رستہ جو طے کیا ہے

کسی قیامت سے کم نہیں تھا

قدم قدم پر نئی کہانی قدم قدم پر نیا فسانہ

عجب سفر تھا

کہ ہرمسافر یہ جانتا ہے

کہ اس کی منزل کہاں ملے گی

کہاں پہ رستہ کٹھن ملے گا،

کہاں پہ اُس کے قدم رکیں گے

سفر جو میں نے شروع کیا تھا،

مجھے تو کچھ بھی خبر نہیں تھی

کہاں ہے منزل کدھر ہے رستہ،

کدھر بیاباں، کدھر چمن ہے

مگر مرا وہ سفر مسلسل

کسی طلب کے بغیر جاری رہا تھا ہر دم

مجھے خبر تھی مرا یہ چلنا

مری ریاضت مرا تپسیہ

کوئی نتیجہ نہ پا سکے گا

یہ دل مرادیں نہ پا سکے گا

مگر میں چلتا رہا مسلسل

یہ راستے کے تمام پتھر

مری کہانی، مری مشقت

بڑی محبت بڑے ادب سے

سطر سطر کو بیاں کریں گے

کہ پتھروں پر نقوش میرے

برہنہ پائی کے سب امیں ہیں

وہ خار زاروں میں الجھی دھجیاں

مرے جنوں کی گواہی دیں گی

مگر یہ دشتِ طلب میں ٍکیسا

عجب طرح کا وہ موڑ آیا

کہ چلتے چلتے میں اُس جگہ پر پہنچ گیا ہوں

کہ اک طرف اب حسین رستہ،

حسین منزل، سہل سفر ہے

تو دوسرے میں بھٹک بھٹک کر

کسی بیاباں کی گھاٹیوں میں

تمام سپنوں سمیت مٹنے کا بھی خطر ہے

اے نکتہ دانو!تمہی بتاؤ

اے اہلِ دانش !تمہی کہو کچھ

کدھر کو جاؤں، کدھر چلوں میں؟؟

٭

شفقت صادق (قلعہ کسی۔مانسہرہ)

خدا کی قسم

نظر پھیرکر جو اِدھر سے ہے گزرا

وہ جس نے

مری سمت دیکھا نہیں ہے

خدا کی قسم

وہ مجھے چاہتا ہے

٭

جان عالم

ری برتھ (Re birth)

کہاں تھے ہم،

کدھر سے اس طرف ہم آگئے ہیں

یہ سبزے کی طرح

کیوں زندگی کے موسموں میں روز اُگتے ہیں

کہاں جاتا ہے یہ سبزہ؟؟

یہ سب کیا ہے

یہ سب دیکھا سنا کیو ں لگ رہا ہے

یونہی پہلے بھی

ان رستوں نے ہم کو ساتھ دیکھا تھا،

یونہی پہلے بھی

میں نے تم کوکچھ کہنے سے روکا تھا

(یونہی تم نے مری چپ پر خموشی اوڑھ لی تھی)

اگر پہلے وہاں ہم تھے

تو پھر ہم اس جگہ کیوں ہیں

یہ سب کیا ہے

یہ سب دیکھا سنا کیوں لگ رہا ہے؟؟

٭