شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

غزلیں

حیدر قریشی

فصلِ غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے

درد کی موجوں میں بھی تیزی ہوجاتی ہے

پانی میں بھی چاند ستارے اُگ آتے ہیں

آنکھ سے دل تک وہ زرخیزی ہو جاتی ہے

اندر کے جنگل سے آجاتی ہیں یادیں

اور فضا میں صندل بیزی ہو جاتی ہے

خوشیاں غم میں بالکل گھل مل سی جاتی ہیں

اور نشاط میں غم انگیزی ہو جاتی ہے

شیریں سے لہجے میں بھر جاتی ہے تلخی

حیلہ جوئی جب پرویزی ہو جاتی ہے

بے حد پاور جس کو بھی مل جائے، اس کی

طرز یزیدی یا چنگیزی ہو جاتی ہے

کو شش جتنی بھی بچنے کی کر لوں، پھر بھی

اردو میں کچھ کچھ انگریزی ہو جاتی ہے

غزلوں میں ویسے تو سچ کہتا ہوں لیکن

کچھ نہ کچھ تو رنگ آمیزی ہو جاتی ہے

حسن تمہارا تو ہے سچ اور خیر سراپا

ہم سے ہی بس شر انگیزی ہو جاتی ہے

ظاہر کا پردہ ہٹنے والی منزل پر

سالک سے بھی بد پرہیزی ہو جاتی ہے

رومی کو حیدر جب بھی پڑھنے لگتا ہوں

باطن کی دنیا طبریزی ہو جاتی ہے

وحید احمد

پھول اتنے تھے ، دہائی صاحب!

وہ چلی تو نظر آئی صاحب!

اُس نے پانی سے اٹھایا تھا خمیر

اور پھر آگ دکھائی صاحب!

میں بھلا کب نظر آ سکتا تھا

اُس نے آواز لگائی صاحب!

اور اب شہر میں دھر آئی ہے

دشت کی آبلہ پائی صاحب!

شوقِ مجبوری میں ہم سنتے ہیں

آپ کی ہرزہ سرائی صاحب!

ہم نے وہ بات کہ دل ہی میں رکھی

تم نے چہرے میں چھپائی صاحب!

یہ زمیں ہے سو اُگا سکتی ہے

آسمانوں کی خدائی صاحب!

رستم نامی

ہمارے بھی ذرا حالات پھرتے

وہ پھرتا جب تو پھر دن رات پھرتے

کبھی تو خود کو بھی آتے میسرّ

کبھی ہم بھی ہمارے ساتھ پھرتے

جھمیلوں سے ہمیں فرصت جو ملتی

کبھی گلگت کبھی گلیات پھرتے

نہیں پھرتے تھے ہم پھرنے سے لیکن

تمہارے بعد کس کے ساتھ پھرتے

نہیں تھا یہ نصیبوں میں کہ نامی

لئے ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ پھرتے

محمد زماں مضطر

گر زلف رخِ یار پہ لہرائی نہ ہوتی

آفاق پہ گھنگھور گھٹا چھائی نہ ہوتی

جب خالِ رخِ یار کی ارزانیاں ہوتیں

دنیا میں کسی چیز کی مہنگائی نہ ہوتی

سورج سے میں ہر وقت جو آنکھیں نہ ملاتا

مفقود مری قوتِ بینائی نہ ہوتی

جھل مل سرِ مژگاں کبھی کرتے نہ ستارے

شب کو جو تری یاد مجھے آئی نہ ہوتی

کام آگئے جنگل میں تری یاد کے جگنو

کام آگئے جنگل میں تری یاد کے جگنو

رہ ورنہ مسافر نے کہیں پائی نہ ہوتی

دھوکہ مجھے دیتیں نہ کبھی دستکیں گھر کی

تُو بن کے اگر بادِ صبا آئی نہ ہوتی

ڈس لیتے مجھے حسن کے سنپولۓ مضطر

شانوں سے جو کاکل کی شناسائی نہ ہوتی

محمد حنیف

اٹھو اے دل زدگاں آسماں بنانا ہے

ہمیں اُڑا کے دھواں آسماں بنانا ہے

زمیں بنانی ہے ہم کو برائے در بدراں

برائے گمشدگاں آسماں بنانا ہے

ملالِ حسرتِ تعمیر کیا بتائیں تجھے

مکاں بنانا یہاں آسماں بنانا ہے

اسی غبارِ گماں میں ہماری دنیا ہے

بہ ایں غبارِ گماں آسماں بنانا ہے

بنا رہے ہیں مگر کچھ سمجھ نہیں آتی

کہاں زمین کہاں آسماں بنانا ہے

ابھی سے کرنے لگے ہو تھکان کی باتیں

ابھی تو ہم سفراں آسماں بنانا ہے

ہمارے سر میں یہ سودا ہے ایک مدت سے

جہاں نہیں ہے وہاں آسماں بنانا ہے

وہاں زمین کا نام و نشان بھی نہیں ہے

احمد حسین مجاہد

من کو شانت کیا تھا، گھر مہکا رکھا تھا

بھولی بسری یاد نے انت مچا رکھا تھا

گاڑی مجھ کو جیسے چھو کر گزر گئی تھی

میں نے خود کو اور کہیں الجھا رکھا تھا

سانسوں کی تاریک گزرگاہوں سے آگے

اُس نے مجھ میں اپنا دیا جلا رکھا تھا

تیزی سے بہتے پانی پر گاڑ کے نظریں

ہم دونوں نے پُل کو ناؤ بنا رکھا تھا

میں نے اُس کو موت کی آنکھ سے دیکھا ورنہ

وہ اک عام سا شخص تھا اُس میں کیا رکھا تھا

بیچ بھنور کے اُس نے اُتار دیا کشتی سے

میں نے رختِ سفر میں آئینہ رکھا تھا

افضل گوہر

ضرور اب کے خلل سا دماغ میں کوئی ہے

ہَوا جو پوچھ رہی ہے چراغ میں کوئی ہے

شبِ وصال کی لذت کما دلِ وحشی

کہ چاند جھانک رہا ہے تو باغ میں کوئی ہے

تُو کہہ رہا ہے ترے پاؤں خوبصورت ہیں

میں کہہ رہا ہوں کہ ماتھے کے داغ میں کوئی ہے

چراغ رکھ تو دیا ہے منڈیر پر لیکن

میں جانتا ہوں ہَوا کے سراغ میں کوئی ہے

ہم اپنی عمر بھی ڈھوتے ہوئے نہیں تھکتے

ترے جہان میں ہم سا فراغ میں کوئی ہے

حصیر نوری

ہر ایک جذبہ مرا بے کراں سمندر ہے

اب اپنی ذات ہی اپنے سفر کا محور ہے

پہنچ ہی جائے گی کاشانہء ستمگر تک

اک آگ بھڑکی ہوئی جو دلوں کے اندر ہے

مرا وجود سمندر کا ظرف رکھتا ہے

مرا وجود مگر بوند کے برابر ہے

اُسی کا حسن ہے اک آفتابِ عالم تاب

اُسی کے نُور سے ہستی مری منور ہے

دل و دماغ سے انساں کے چھن گیا ہے سکوں

جدھر بھی دیکھئے برپا عجیب محشر ہے

یہاں تو ملتی ہے بے جرم بھی سزا یارو

یہ زخم خوردہ بشر عہدِ نو کا مظہر ہے

اسیر اس میں تمہارا قصور ہی کیا ہے

یہ بحرِ ذات ہے ہر موج اس کی خود سر ہے

صابر عظیم آبادی

دورِ کیف و نشاط سے گزرے

ہم بڑی احتیاط سے گزرے

جستجو میں تری کہاں نہ کہاں

شاہراہِ بساط سے گزرے

ہر قدم چومنے بڑھی منزل

جب رہِ ارتباط سے گزرے

ہم خوشی کو امر بنانے میں

درد کے پل صراط سے گزرے

عشق کے راستے میں کانٹے ہیں

دل ذرا احتیاط سے گزرے

رکھ کے نفرت کو اپنے پیچھے ہم

سرحدِ اختلاط سے گزرے

اُس کو پانے کے بعد ہی صابر

حالتِ انبساط سے گزرے

اکرم درویش

جب شناسائی کا بوجھ ڈالا گیا

ہم پہ تنہائی کا بوجھ ڈالا گیا

پائے مجنون پر دشتِ لیلیٰ میں کیا

آبلہ پائی کا بوجھ ڈالا گیا

تیرے نازک بدن پر عجب رنگ سے

تیری انگڑائی کا بوجھ ڈالا گیا

تختہء دار پر حق پہ قائم رہے

جن پہ سچائی کا بوجھ ڈالا گیا

رونقِ بزم کے واسطے آپ پر

جلوہ فرمائی کا بوجھ ڈالا گیا

عقل کو ذوقِ پرواز حاصل ہوا

دل پہ گہرائی کا بوجھ ڈالا گیا

جس نے سچائی سے رخ کو پھیرا یہاں

اُس پہ رسوائی کا بوجھ ڈالا گیا

حشر میں وہ بھی اکرم اذیتّ میں ہے

جس پہ اک رائی کا بوجھ ڈالا گیا

پوچھئے خلق سے اس پہ درویش کی

کیوں پذیرائی کا بوجھ ڈالا گیا

حسن عباسی

پہلے کچھ دیر چراغوں میں نظر آتا ہے

پھر وہ چہرہ مری آنکھوں میں نظر آتا ہے

اک زمانہ ہوا بچھڑے اُسے لیکن اب بھی

راہ چلتے ہوئے لوگوں میں نظر آتا ہے

تتلیاں ورنہ کہاں ڈھونڈتی اُس کو جا کر

اُس کا احساں ہے کہ پھولوں میں نظر آتا ہے

دشت و دریا کے مناظر میںہے بکھرا بکھرا

حسن جیسا ترے وعدوں میں نظر آتا ہے

دل بھی ساتھ اُس کے دھڑکتا ہو ضروری تو نہیں

ہاتھ جس کا مرے ہاتھوں میں نظر آتا ہے

یہ جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اندر کی گھٹن

ایسا ماحول تو باغوں میں نظر آتا ہے

جانے کیا ہے کہ سمندر ہی سمندر ہر سو

پچھلے کچھ روز سے خوابوں میں نظر آتا ہے

گفتار خیالی

ہوائیں سو رہی ہیں اور سمندر جاگتا ہے

انوکھا خوف ہے جو دل کے اندر جاگتا ہے

نگاہیں کھو بھی جاتی ہیں تو منظر جاگتا ہے

مگر ہر اک روش پر ایک محشر جاگتا ہے

ابھی کچھ دیر اپنے گھر کے دروازے نہ کھولو

تعاقب میں مرے دشمن برابر جاگتا ہے

مری تصوےر کے سب نقش گویا کھو گئے ہیں

کفِ تصویر میں میرا مقدر جاگتا ہے

مری خوابیدگی بہتر ہے میرے جاگنے سے

کہ پس منظر میں اک طوفان در در جاگتا ہے

طالب انصاری

کچے آنگن میں اُتر آئی ہے دھیرے دھیرے

شکر ہے دھوپ ادھر آئی ہے دھیرے دھیرے

یہ کرن جلد بہت جلد پلٹ سکتی ہے

روزنِ در سے جو در آئی ہے دھیرے دھیرے

تیری گلیوں سے پرے رینگتی پھرتی تھی کہیں

راہ پہ راہگزر آئی ہے دھیرے دھیرے

مرگِ دل کا تو ہوا سانحہ برسوں پہلے

روح تک اس کی خبر آئی ہے دھیرے دھیرے

پہلے تو گھاؤ لگا دل میں نہ بھرنے والا

اور اب آنکھ بھی بھر آئی ہے دھیرے دھیرے

میں تو وہ خواب بھی اب بھول چکا ہوں طالب

جس کی تعبیر نظر آئی ہے دھیرے دھیرے

ڈاکٹر محمد رفیق

رنگیں نوادرات میری زندگی میں ہیں

دو چار حادثات مری زندگی میں ہیں

ہر موڑ پہ ہے کوہِ گراں میری راہ میں

کتنی سہولیات میری زندگی میں ہیں

ہر آن شہرِ دل میں ہے دھڑکا لگا ہوا

خاصے تحفظات میری زندگی میں ہیں

آغازِ نو بہار میں یادوں کا اک ہجوم

رقصاں تصورات میری زندگی میں ہیں

حالات دگرگوں ہیں مگر اس کے باوجود

مثبت توقعات میری زندگی میں ہیں

ہر اک سے جن کا تذکرہ ممکن نہیں رفیق

کچھ ایسے واقعات میری زندگی میں ہیں

طارق سلیم

ستم رسیدہ زمانہ گزیدہ لوگوں سے

ہمارا ربط ہے بس چیدہ چیدہ لوگوں سے

کوئی تعلقِ خاطر فروغ کیا پاتا

کھچے کھچے رہے ہم بھی کشیدہ لوگوں سے

یہ موج تیری طرف بھی تو لوٹ سکتی ہے

کلامِ خشک نہ کر آبدیدہ لوگوں سے

خوشا جنوں کا یہ عالم خوشا یہ وحشتِ عشق

بھرا ہے دشت گریباں دریدہ لوگوں سے

بغیر ان کے نجانے جہان کا کیا ہو

یہ بزم ہے تو انہی خواب دیدہ لوگوں سے

نہ ہو سکا سخنِ گرم سے بیاں طارق

جو کہہ گیا مرا اشکِ تپیدہ لوگوں سے

پرویز ساحر

جنوں کی انتہا ہے ، میں نہیں ہوں

مجھے یوں لگ رہا ہے ، میں نہیں ہوں

اسی ہونے نہ ہونے کا ہے جھگڑا

مرا ہونا ہی کیا ہے ، میں نہیں ہوں

یہ جو صحرا بصحرا پھر رہی ہے

یہ میری آتما ہے ، میں نہیں ہوں

زباں سے چاہے جو کچھ بھی کہوں میں

یہ امرِ واقعہ ہے ، میں نہیں ہوں

لگی تجھ سنگ جب سے پیت میری

مجھے کہنا پڑا ہے ، میں نہیں ہوں

مجھے تسلیم ہے میرا نہ ہونا

کہ میرا مجھ میں کیا ہے ، میں نہیں ہوں

تو کیا یہ سب فریبِ آرزو ہے

تو کیا یہ واہمہ ہے ، میں نہیں ہوں

کہاں میں اور کہاں میری فقیری

یہ سب اُس کی عطا ہے ، میں نہیں ہوں

کوئی سمجھے نہ سمجھے اس کو لیکن

مرا یہ مدعا ہے ، میں نہیں ہوں

اگر ہوتا تو جانے کیا نہ کرتا

مجھے اس کا پتہ ہے ، میں نہیں ہوں

یہ جس کو پوجتی ہے ساری دنیا

کوئی مجھ سے سوا ہے ، میں نہیں ہوں

سرِ افلاک جو پہنچی ہوئی ہے

مری آہِ رسا ہے ، میں نہیں ہوں

اُسی کو زیب دیتا ہے یہ ہونا

وہی سب سے بڑا ہے ، میں نہیں ہوں

اگر کوئی کہے ”میں ہوں “ تو سمجھو

کہ وہ یہ مانتا ہے ، میں نہیں ہوں

درونِ آئینہ جو عکس سا ہے

یہ مجھ سا دوسرا ہے ، میں نہیں ہوں

مرا اُس کا تعلق ہے ازل سے

کہ وہ مجھ سے جدا ہے ، میں نہیں ہوں

ہیولے کی طرح ہوں میں جہاں میں

اگر تُو ہی نہ چاہے ، میں نہیں ہوں

مری اپنی کوئی مرضی نہیں ہے

کہ جو تیری رضا ہے ، میں نہیں ہوں

نہیں منظور مجھ کو یہ اذیتّ

یہاں ہونا سزا ہے ، میں نہیں ہوں

جہاں میں صوفیاءجتنے بھی آئے

ہر اک نے یہ کہا ہے ، میں نہیں ہوں

مجھ اپنے خدائے مہرباں سے

بس اتنا ہی گلہ ہے ، میں نہیں ہوں

کسی مجذوب کا کہنا ہے ساحر

مرے اندر خدا ہے ، میں نہیں ہوں

تاج الدین تاج

اس بار بھی جذبات کی شدت سے لکھا ہے

خط اُس نے جو لکھا ہے محبت سے لکھا ہے

پھیلی ہے اُسی نام کی خوشبو مرے اندر

جو نام درِ دل پہ عقیدت سے لکھا ہے

لکھتا ہی نہ تھا میں تو کسی کا بھی قصیدہ

اس بار مگر اپنی ضرورت سے لکھا ہے

تُو نے تو اسے اور معانی دئے ورنہ

یہ شعر کسی اور ہی نسبت سے لکھا ہے

اتنا بھی بہت ہے کہ مرا نامہء اعمال

کاتب نے زرِ حرفِ ندامت سے لکھا ہے

لکھا ہے ہواؤں نے جو پانی پہ ترا نام

اے جانِ جہاں! تیری اجازت سے لکھا ہے

افسانہء تنہائی سرِ دیدہء نرگس

قدرت نے عجب رنگِ مسرت سے لکھا ہے

اس عہدِ گراں گوش میں آواز کا نوحہ

مشکل تھا مگر ہم نے سہولت سے لکھا ہے

مرتضیٰ اشعر

مہیب رات کی تاریکیوں سے ڈر جاتا

نہ چاند ہاتھ پکڑتا تو میں کدھر جاتا

مجھے تو ساتھ لئے پھرتی ہے سڑک شب کی

کہ میرا گھر ہی نہیں ہے جو میں بھی گھر جاتا

بچا لئے تھے توقف نے آندھیوں سے پیڑ

کسی سے بور، کسی کا لگا ثمر جاتا

تجھے اُٹھائے ہوئے ہیں کسی دعا کے ہاتھ

وگرنہ حبس کے موسم میں تو بھی مر جاتا

ترا یقین مجھے جو چراغ کر دیتا

میں تیری رات میں دن کی طرح بکھر جاتا

کسی نے باندھ دیئے تھے مرے قدم ایسے

اُسی کے پاس ملا خود کو میں جدھر جاتا

وہ عکس ہاتھ جھٹکتا نہ آنکھ سے اشعر

ذرا سی دیر یہ دریا اگر اُتر جاتا

شاہد مجید

شاہد مجید

بچھڑ جانے سے ڈرتے ہی رہے ہم عمر بھر دونوں

بہت نزدیک رہ کر بھی رہے ہم دُور تر دونوں

نجانے کون سا لمحہ جدا کر دے ہمیں پھر سے

اسی اُمید پر ملتے رہے ہم عمر بھر دونوں

طوافِ عمر جاری ہے عجب کیفِ تنفس ہے

ابھی تک جامہء احرام ہیں قلب و نظر دونوں

کہیں سے لوٹ کر آنا کہیں کو لوٹ کر جانا

بڑی مشکل میں رکھتے ہیں مجھے میرے سفر دونوں

وہی میں ہوں وہی تُو ہے، وہی دن ہیں وہی راتیں

اسی اک رنگ کی پوشاک ہیں شام و سحر دونوں

یہاں تصویر خود اپنے مصور کو بناتی ہے

اسی حیرت میں گم ہیں آئینہ اور عکس گر دونوں

مشتاق شبنم

ابھی تک تو فقیرِ رہ گزر زندہ سلامت ہیں

اگرچہ ہو گئے ہیں دربدر زندہ سلامت ہیں

چراغوں کی طرح سے جل رہے ہیںظلمتِ شب میں

ہزاروں سر فرازِ دار پر زندہ سلامت ہیں

نئے موسم نے آتے ہی چمن کو بانجھ کر ڈالا

شجر ہائے گلستاں بے ثمر زندہ سلامت ہیں

اشفاق جلوی

جو سن کے گالیاں ، دیتا کوئی جواب نہیں

وہ لاجواب ہے ، اُس کا کوئی جواب نہیں

خطائیں میری بھی یا رب ہیں بے شمار مگر

ترے کرم کی بھی وسعت کا کچھ حساب نہیں

کبھی جو علم کا اک آفتاب تھا مسلم

وہ جانے علم کا کیوں آج آفتاب نہیں

چمن کے کون سے پھولوں کو پھر میں تجھ سا کہوں

جو تجھ سا لالہ و نرگس، کنول ، گلاب نہیں

ہے جلنے والوں کا کہنا کہ عشق آگ ہے وہ

بجھا سکے جسے وہ آب میں بھی تاب نہیں

حیات والوں کا ہے قول وہ حیات نہیں

کہ جو حیات کو اشفاق فیض یاب نہیں

راشدہ اداس

چھوڑ بیٹھا ہے وہ مکاں اپنا

لے رہا ہے وہ امتحاں اپنا

چھین کر لے گیا کوئی آنکھیں

بخت سنورے گا اب کہاں اپنا

اُس کو رخصت تو کر دیا لیکن

ہو گیا دل دھواں دھواں اپنا

آنکھ موندی ذرا ستاروں نے

لٹ گیا رات کارواں اپنا

جاؤں کس کے لئے حویلی میں

کون رہتا ہے اب وہاں اپنا

بوڑھے برگد سے اُڑ گئے پنچھی

اب نہیں کوئی رازداں اپنا

دکھ ہے اس بات کا محبت میں

اُس نے بدلا ہے کیوں بیاں اپنا

کس سے شکوہ کروں کہاں جاؤں

اب کے دشمن ہوا جہاں اپنا

زخم بھرنے کو بھر ہی جاتا ہے

چھوڑ جاتا ہے پر نشاں اپنا

دل کا منظر اداس ہو جب بھی

چھوڑ جاتی ہوں میں مکاں اپنا

ظلِ ہما

سبھی سمجھتے ہیں اپنا نصاب پڑھتی ہوں

میں ڈائری میں لکھے اپنے خواب پڑھتی ہوں

ابھی ابھی ہی تو کھولی ہے اپنے غم کی بیاض

ورق الٹتی نہیں انتساب پڑھتی ہوں

ہمیشہ بعد میں لکھتی ہوں تم کو خط اے دوست

ہمیشہ پہلے تمہارا جواب پڑھتی ہوں

پڑھایا جاتا ہے کالج میں گو حساب کتاب

مگر جناب کو میں بے حساب پڑھتی ہوں

کتاب ہاتھ میں ہوتی ہے اُس کو پڑھتی نہیں

پڑھوں تو ساری عبارت خراب پڑھتی ہوں

شبہ طراز

کتنے جنگل تھے جہاں آگ لگا دی تم نے

کر کے ہموار زمیں باڑھ بنا دی تم نے

آؤ اب تم بھی مرے عشق کی قےمت دیکھو

شہر بھر میں تو کرا دی ہے منادی تم نے

کس کا دشمن تھا کہ جس نے یہ سنائی تھی خبر

پھاڑ کر خط مرا تصویر جلا دی تم نے

تم نہ پہچانے رہِ عشق میں قدموں کے نشاں

کس نے کی تھی یہ خطا، کس کو سزا دی تم نے

ہم کہ تھے خواب میں گم ، تیز ہوا تھی اتنی

دستکیں سن نہ سکے کتنی صدا دی تم نے

عرفانہ امر

وہ پنکھڑی تھی مہک تھی کلی سے نکلی تھی

جب اوڑھنی لئے اپنی گلی سے نکلی تھی

وہ حور تھی کوئی، پہنے تھی علم کا زیور

بشکلِ حرفِ دعا بندگی سے نکلی تھی

وہ اک غزل تھی جسے محفلوں نے ٹھکرایا

صدا بصحرا ہوئی ، راگنی سے نکلی تھی

وہ بارگاہِ معلیٰ میں معتبر ٹھہری

جو آہِ نیم شبی، بے کسی سے نکلی تھی

غبارِ وقت اُسے کیوں نہ راستہ دیتا

وہ صرف پل کی خوشی تھی، صدی سے نکلی تھی

ٹپک رہے تھے مرے دل پہ درد کے آنسو

وہ کیا ہنسی تھی جو دل کی لگی سے نکلی تھی

سو طائرانِ سخن لے اُڑے بہ ذوقِ غزل

عجب زمین مری شاعری سے نکلی تھی

عرفان تبسم

کسی کے غم میں اپنا دل جلا کر کچھ نہیں ملتا

کسی کو خانہء دل میں بسا کر کچھ نہیں ملتا

نظر سے اپنے پیاروں کو گرا کر کچھ نہیں ملتا

کہ اپنے دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا

محبت کرتے کرتے لوگ پہنچے اس نتیجے پر

کسی کے عشق میں خود کو مٹاکر کچھ نہیں ملتا

تم اپنی نرگسی آنکھیں زمانے سے چھپا رکھنا

کسی کو اپنا دیوانہ بنا کر کچھ نہیں ملتا

سفر تم اپنی چاہت کا سدا جاری رکھو لیکن

سہانے خواب آنکھوں میں سجا کر کچھ نہیں ملتا

اگر تم بانٹ سکتے ہو تو غم بانٹو زمانے کے

کسی کو اے ستم پرور ستا کر کچھ نہیں ملتا

اسی کے جلتے رہنے سے تری محفل سلامت ہے

کہ شمعِ بزمِ یاراں کو بجھا کر کچھ نہیں ملتا

میں اُس کی یاد سے دل کو سدا آباد رکھوں گا

تبسم دل کو ویرانہ بنا کر کچھ نہیں ملتا

حفیظ ضیغم

اے ہم نشینو ہمیں بھلانا محال ہو گا ضرور ہوگا

قدم قدم پر مرا ہی تم کو خیال ہو گا ضرور ہوگا

اُجاڑ رستوں پہ چلنے والو کہیں بھی تھک کر نہ بیٹھ جانا

جنوں کی وادی عبور کر کے وصال ہو گا ضرور ہوگا

دکھوں کا سورج فلک پہ اپنے عروج پر ہے تو کیا ہوا ہے

مجھے یقیں ہے کمال کو پھر زوال ہو گا ضرور ہوگا

تمہاری کٹیا بھی جل رہی تھی اُسے بچانے کا کیوں نہ سوچا

ستم زدو یہ تمہی سے آخر سوال ہو گا ضرور ہوگا

جنوں کا راہی سفر پہ نکلے جو زادِ رہ میں یقیں نہ ہوتو

وہ راستے میں بھٹک بھٹک کر نڈھال ہو گا ضرور ہوگا

وہ جس نے تیری اجاڑ گلیوں میں جان ڈالی، چلا گیا تو

اے شہرِ جاناں تجھے بھی آخر ملال ہو گا ضرور ہوگا

ابھی محّرم سے غمزدہ دن مرے مقدر پہ چھا گئے ہیں

مجھے یقیں ہے کبھی تو ماہِ شوال ہو گا ضرور ہوگا

عاصم شہزاد

دیکھ کے مجھ کو وہ حیرانی رسمی سی

اُس نے کشادہ کی پیشانی رسمی سی

دل میں پھول کھلے جاتے ہیں خوشیوں کے

یاد آئی اک بات پرانی رسمی سی

یاد آتی ہیں باتیں بوڑھے لوگوں کی

یاد آتی ہے ایک کہانی رسمی سی

ہم کوئی مجنوں ، رانجھا یا فرہاد نہیں

بیت رہی ہے اپنی جوانی رسمی سی

جانے کیونکر روٹھ گئے ہیں ہم سے وہ

ہم سے ہوئی تھی اک نادانی رسمی سی

دل سے عاصم سارے شکوے جاتے رہے

گو کہ اُس نے بات ہے مانی رسمی سی

مرزا ساجد بیگ

ہمیں ادراک ہوتا جا رہا ہے

گلستاں خاک ہوتا جا رہا ہے

مرے غم آنسوؤں میں بہہ رہے ہیں

سمندر پاک ہوتا جا رہا ہے

ہمیں بھی چال اب چلنی پڑے گی

عدو چالاک ہوتا جا رہا ہے

ترے کوچے کا جب سے رخ کیا ہے

گریباں چاک ہوتا جا رہا ہے

خیالِ یار دھیرے دھیرے مرزا

مری پوشاک ہوتا جا رہا ہے

عالمگیرعالم

پھر اُسے ڈھونڈنے دل جائے گا

پھر کسی موڑ پہ مل جائے گا

مسکرائے کا جو وہ پھول کبھی

پھول کر دل مرا کھل جائے گا

بارِ فرقت سے ہوں میں زیر و زبر

ایک دن وہ بھی تو ہل جائے گا

اُس نے ڈالی جو محبت کی نظر

چاک دل کا مرے سل جائے گا

روئے گا پھوڑ کے سر کو اپنے

رکھ کے جب مجھ پہ وہ سل جائے گا

طارق جاوید

کس نے ہیں دیکھنی تری اٹکھیلیاں ہوا

اب خالی آنگنوں میں بجا سیٹیاں ہوا

ہم خود دئے کو لے کے سرِ بام آگئے

ہم کیسےدیکھتے تری بے چینیاں ہوا

لگتا ہے اُس کی زلف کو تُو چھو کے آئی ہے

ہم کو بتا رہی ہیں تری مستیاں ہوا

جا جا نہ در بجا کے ہمیں تُو فریب دے

ہم جانتے ہیں سب تری چالاکیاں ہوا

بکھرائے جن کو پھرتی ہے پتے کہاں ہیں یہ

ہیں یہ فنا کی لکھی ہوئی چٹھیاں ہوا

جب حبس تھا بلا کا، نہ لی تُو نے کچھ خبر

اب آ گئی ہے توڑنے تُو کھڑکیاں ہوا!

جان عالم

آئی نہ آئینے کے وہ پھر روبرو کبھی

دیکھا تھا اُس نے ایسا کہاں خوبرو کبھی

اُمیدوارِ لمسِ تمنائے یار ہوں

اے پیکرِ خیال مجھے تُو بھی چھو کبھی

پھر دیکھتا کبھی نہ کسی اور کی طرف

اک بار دیکھ لیتا اگر خود کو تُو کبھی

اے ساکنانِ کوئے ملامت کوئی خبر

لیتا ہے میرا نام بھی وہ تُرش رو کبھی

بویا ہو جس کو خاکِ سرشکِ ملیح میں

پائے گا کیا وہ نخلِ تمنا نمو کبھی

دامن دریدگی سے جو فرصت ملے بہار!

چاکِ قبائے گُل کو بھی کرنا رفو کبھی

کھائے فریب، اشک پئے ، سیر نہ ہوئی

تھی پیاس بھی عجیب ، عجب تھی وہ بھوک بھی

کرتا نہیں ہے یاد جو بھولے سے بھی مجھے

آتا نہیں ہے یاد وہ مجھ کو کبھو کبھی