شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

مضافات اور ادبیات

شاعر و ادیب پروفیسر فیروز شاہ سے اعزاز آزر کا مکالمہ

اعزاز آزر٭ مضافاتی شاعر کی ترکیب کیسی لگتی ہے؟

فیروز شاہ٭شاعری قلوب کی ساحری کا نام ہے ۔یہ تسخیرقلوب کا اسم ہے۔اسی سے قلب و نظر کے طلسم کھلتے ہیں۔سچا شعر دلوں پر سحر کرتا چلا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ رات کی بے مہر گھات ختم ہو جاتی ہے اور صبح کی تازگی بھری سپیدی روشنی کی سفیر ہو کر طلوع ہو اٹھتی ہے۔سفارت میں صداقت ہو تو بشارت بن جاتی ہے۔سحر دم حمد کرتے پرندوں کی چہچہاہٹ، شبنم پڑی کلیوں کی مسکراہٹ، ترل ر ل بارشوں کی گنگناہٹ اورمحبتوں کا مان رکھتی خاموشی سے بڑھتے چلے جانے والے قدموں کی آہٹ کا حسن کیا کسی سابقے لاحقے کا محتاج ہوا کرتاہے؟رعنائی کی اپنی ایک توانائی ہوا کرتی ہے، اسے اپنی شناخت کے لئے کسی اضافی ترکیب کی ضرورت نہیں ہوتی۔شاعر بھی جمال کا نمائندہ ہے۔تخیّل اور حقیقت کے درمیان کہیں اس کی کشتِ تخلیق کے بیج بکھرے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے تخلیقی شعور کے سرور میں مگن ہو کر کاشت کرتا اور عہدِ بہار کے خواب رنگ گلاب سجاتا ہے۔خواب دیکھنے والی آنکھ زندہ رہے تو انقلاب ضرور آتا ہے۔خزاں کے زرد لمحوں میں فصلِ گل کی آس بیدار رکھنے والا شاعر نقیبِ فطرت ہوتا ہے ۔اُسے کسی سابقہ لاحقہ کی ضرورت ہی کیا کہ شاعر ہونا بجائے خود اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اسے کسی ترکیب کی کمک کی حاجت قطعاً نہیں۔بہار کی ہوا، سہانی فجر کی ضیا ءاور آزاد پرندوں کی صدا کسی تعارفی تقریب کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔

اعزاز آزر ٭کیا بڑا شاعر ہونے کے لئے کسی بڑے شہر سے تعلق ضروری ہے؟

فیروز شاہ٭مکاں کا شرف اُس کے مکیں سے ہونے کی جو بات ”غالب الشعرائ“مرزا نوشہ نے کی تھی، ایک عالمگیر صداقت ہے۔شہر اپنے باسیوں سے پہچانے جاتے ہیں ۔کسی شہر کے حوالے سے پہچان وہ کراتے ہیں جن کی اپنی پہچان ہوتی ہی نہیں۔یوں نہ ہوتا تو لاہور کو داتا کی نگری کیوں کہا جاتا۔یہ فقط ایک مثال ہے ۔ادب و ثقافت کی دنیا میں بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو شہروں کی بڑائی کی بنیاد وہاں کے کسی اہم تخلیق کار کی تخلیقی توانائی پر استوار ہوتی ثابت کرتی ہیں۔سو میں سمجھتا ہوں شہر بڑے صرف اس صورت میں ہوتے ہیں جب وہاں کاملینِ فن کا اجتماع ہو جاتا ہے۔وہ بصرہ و بغداد ہو یا لاہور و اسلام آباد، جب تک علم و فن کے بڑے لوگ وہاں مجتمع نہیں ہوتے اُن کی عظمت گہنائی رہتی ہے۔جبھی تو حکیم الامت نے اہلِ نظر کو تازہ بستیاں آباد کرنے کی تخلیقی قوت سے سرشار قرار دیا تھا۔آج آپ بنظرِ غائر دیکھیں تو بڑے شہروں کو عزت دینے والے احمد ندیم قاسمی کا تعلق انگہ (خوشاب) فیض احمد فیض کا کالا قادر(سیالکوٹ) ڈاکٹر وزیر آغا کا وزیر کوٹ (سرگودھا)سے ہے۔ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے جو اس صداقت کا ناقابلِ تردید دستاویزی ثبوت ہوگا کہ بڑا شاعر ہونے کے لئے بڑے شہر سے تعلق قطعاً ضروری نہیں۔جوہرِ قابل جہاں بھی ہو اپنی پہچان کرا لے گا۔بلکہ میں تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ شہر لوگوں کی تعداد اور وسائل کی بھرمار سے نہیں بلکہ اپنے تخلیقی اثاثے کی اساس پر ہی بڑا کہلانے کے حقدار ہو سکتے ہیں ۔

اعزاز آزر٭کیا بڑے شہروں میں موجودہ میڈیا کی سہولت کسی کو بڑا شاعر یا ادیب بنانے کے لئے کافی ہے؟

فیروز شاہ٭میڈیا ہر تخلیق کار کی ضرورت بھی ہے اور اس کا استحقاق بھی ۔اس تیز رفتار دور میں اپنی آواز کو عصرِ رواں کا ہمراز بنا دینے کے لئے میڈیا کی رفاقت ضروری بھی ہے لیکن فقط میڈیا ہی کسی کو بڑا شاعر نہیں بنا سکتا۔یہ تو اس کا تخلیقی جوہر ہے جو اُس کی شناخت کرائے گا۔داغستان کے دانشور شاعر رسول حمزہ نے میڈیا کو لاوڈ سپیکر قرار دیا تھا۔آواز اور الفاظ تو تخلیق کار ہی کے ہوتے ہیں اور تاثیر تو لفظ اور جذبے کی توقیر سے جنم لیتی ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک تخلیقی عمل میں قوت، صداقت، دیانت اور محنت موجود نہیں ہو گی فقط میڈیا کب تک اس کے قد میں اضافہ کر سکے گا۔اور ویسے بھی میڈیا تو ایک سہارا ہے، وجود نہیں۔

اعزاز آزر٭مرکز سے دُور ادیب شاعر عام طور پر احساسِ کمتری کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

فیروز شاہ٭یہ پروپیگنڈہ اُن لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اپنی تخلیقی کمزوری کا احساس رکھتے ہوئے ہمہ لمحہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی توانا آواز اُن پر چھا نہ جائے۔چنانچہ جب مرکز سے دُور کسی بستی کی تخلیقی شخصیت اپنی اہمیت منوانے کی کوشش کرتی ہے اور اپنا حق طلب کرتی ہے تو اُدھرسے پروپیگنڈے کے جدید ہتھیاروں سے لیس لشکرکشی شروع ہو جاتی ہے۔شکیب جلالی کس احساسِ کمتری کا شکار تھا؟ وہ کس سے کمتر تھا؟ اُسے صرف برتری کے زعم میں مبتلا قدآور بونوں کے پروپیگنڈوں نے مارا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور جب کوئی دُور آباد ادیب میڈیا سے اور نقادوں سے اور اہلِ خبر و نظر سے اپنے حق کے طور پر اپنی تخلیقی کاوشوں پر توجہ طلب کرتا ہے تو اُس کے جائز استحقاق کو احساسِ کمتری کا نام دے کر اپنے اندر گرتے بتوں کو تھامنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے حلقہء اربابِ ذوق اسلام آباد کے ایک اجلاس میں جب بھکر کے ایک قلمکار نے یہ کہا تھا کہ ہمارے بڑے بڑے ادبی جلسوں کی کوریج ایک مختصر سی خبر میں بھی بمشکل کی جاتی ہے اور یہاں حلقہ کے آٹھ دس لوگ بیٹھ کر ہر بار اپنی گزشتہ باتوں کو دوہراتے رہتے ہیں اور ادبی ایڈیشن اُن کی رنگین تصاویر اور ڈائریوں سے بھرے ہوتے ہیں تو اسے اس کا احساسِ کمتری قرار دے کر بات گول کر دی گئی تھی۔جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!

اعزاز آزر٭بڑے شہروں سے دُور تخلیق کارکی پہچان اور اُس کے کلام سے آگہی کیسےممکن ہے؟

فیروز شاہ٭ یہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے منصبی تقاضوں کی درست ادائی کے لئے تخلیق کاروں تک پہنچے۔میں نے ایک بار الیکٹرانک میڈیا میں اہم منصب پر فائز اپنے ایک دوست سے پوچھا تھا کہ آپ ہر بار کل پاکستان مشاعرہ میں چند مخصوص ناموں ہی کو زحمت دیتے رہتے ہیں، دُور آباد علاقوں کے اہلِ قلم پر آپ کی نظرِ کرم کیوں نہیں پڑتی۔انہوں نے بڑی شانِ بے نازی سے جواب دیا تھا، ”شاہ جی ! یہ لوگ اپنے تمام تخلیقی سرمائے سمیت ہر وقت دستیاب ہیں۔ہمیں دیر لگتی ہے نہ کوئی زحمت کرنا پڑتی ہے۔فوراً محفل آراستہ ہو جاتی ہے۔اب کون آپ کے میانوالی، بھکر، خوشاب اور لیہ اور سرگودھا کی طرف بھاگتا پھرے ۔لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لائے۔بھئی! ہمارا وقت بڑا قیمتی ہے ۔”خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہئے۔“

اعزاز آزر٭اخبارات کے ادبی ایڈیشن اور ٹی وی ریڈیو مضافات کے ادب اور ادیب کو پروموٹ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں؟

فیروز شاہ٭مجموعی طور پر اگرچہ صورتِ حال اس قدر قابلِ تعریف نہیں ہے تاہم استثنائی مثالیں بھی موجود ہیں ۔میرا خیال ہے کہ ہر ادارے میں موجود ذاتی طور پر تخلیقی اہمیت رکھنے والا صاحبِ اختیار بنیادی طور پر قرطاس و قلم اور خیال کے جمال کو اساسی حیثیت دیتا ہے ۔مگر جہاں جہاں غیر تخلیقی لوگ بیٹھے ہیں وہ محض پی آر اور مفادات کے چکر میں مبتلا ہیں۔کوئی تخلیق کار جہاں بھی بااختیار ہے وہاں جےنوئن قلمکار کا وقار اور اعتبار ضرور قائم ہوگا۔چاہے اُس کا تعلق مرکز سے ہو یا مضافات سے۔مجھے یاد آرہا ہے خلیل جبران نے کہیں لکھا ہے ”جوہری کو ہیرے کی شناخت اُس کی آب و تاب کے حوالے سے ہی کرنا ہوتی ہے۔“

تخلیقی دنیا میں بھی وہی لائقِ توقیر ہے جس کے قلم کاعَلم دُور تک اور دیر تک لہراتے رہنے کی قوت رکھتا ہو۔اور جس کی تخلیقی چمک دمک اُس کے صادق جذبوں اور سندر لفظوں کی کمک سے جاوداں ہو۔اس کے لئے مرکز یا مضافات کی کوئی شرط نہیں۔

اعزاز آزر٭بڑے ادب کی تخلیق کا بڑے شہر یا چھوٹے گاؤں قصبہ سے کیا تعلق ہے؟

فیروز شاہ٭ایک واقعہ سن لیجئے کہ غیر منقسم ہندستان میں وائسرائے ہند سے ملنے میانوالی کی ایک دُور آباد بستی عیسٰی خیل کا جاگیردار دہلی پہنچا، اُسے اپنی جاگیردارانہ شہرت کا زعم تھا مگر بوقتِ تعارف جب وائسرائے کو اُس نے اپنے شہر کا نام بتایا تو ہند کے صاحب ِ اقتدار و اختیار نے کہا، ”اچھا اچھا! عسٰی خیل۔ تلو ک چند محروم کا شہر“جاگیر دار کی توقیر ڈھیر ہو گئی اور علم و ادب کی تاثیر بے کراں وسعتوں کو اپنی جاگیر بناتی چلی گئی۔محروم جیسا شاعر عیسٰی خیل جیسے چھوٹے سے شہر سے اٹھ کر ساری دنیا سے اپنا آپ منوا لیتا ہے

٭