شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

سانسوں کا سنگیت

احمد حسین مجاہد

ادب کے بازار میں غزل کا سکہ ہمیشہ سے رائج ہے اور کیوں نہ ہو کہ غزل ہماری داخلی اور خارجی تہذیب کا آئنیہ ہے۔مگر ہمارے ہاں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے بعد جیسے سیاست کے اکھاڑے میں اترنے اور خوار ہونے کی رسم چل نکلی ہے بالکل اسی طرح ادب میں بھی اپنے ذاتی امکانات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اصناف کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے اور اس تناظر میں معاملہ کرنے کی جڑ روایت پکڑ رہی ہے۔

کبھی کبھی بدیسی اصناف کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس قدر اودھم مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔گرمئ بازار دیکھ کر بڑے بڑوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اچھے خاصے شاعر ناشاعری کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں ۔ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنے آپ کو کھپا دینے کے بعد بھی پتہ نہیں چلتا کہ کس صنفِ سخن میں اُن کے امکانات کی نمود اور نمود کا امکان زیادہ تھا۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون دشتِ سخن میں وارد ہوئے تو دوسروں کی طرح وہ بھی غزل کی زلفوں کے اسیر تھے ۔لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ان زلفوں کے سائے میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکیں گے۔خود شناسی کے کسی مرحلے میں اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے انہیں دوہے کی طرف کچھ ایسا مائل کیا کہ وہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔جادہء غزل کی طرح اس راستے میں بھی رفتگاں کے نقوشِ پا دےوار جیسے بلند ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ ایک قدم بھی بے تیشہء نظر نہ اٹھآیاجائے ۔

کسی بھی سچے اور ودیعت شدہ فنکار کے لئے اپنے ذریعہء اظہار کا انتخاب محض گرمئ بازار کا نتیجہ نہیں ہوتابلکہ اس میں کئی ایسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں جو بالکل غیر محسوس انداز میں فنکار کے فکری دھارے کا رخ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

دوہا جیسی صنف کا تو انتخاب ہی اس امر کا عکاس ہے کہ شاعر صحیح معنوں میں بے نیاز ہے اور اس کے اندر پڑنے والی دھمال قطعاًیک سطحی نہیں ۔دوہے کے لئے مختص بحر ایک تہذیبی قدر جیسی ہے ۔کم و بیش یہی بات غزل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے لیکن دوہے کی بحر کو یہ فوقیت بہرطور حاصل ہے کہ اس کا خمیر یہیں کی مٹی سے اٹھا ہے اور اس کی پرداخت یہیں کی آب و ہوا میں ہوئی ہے۔

غالب نے بحرِ منسرح مطوی منحور (مفتعلن فاعلات مفتعلن فع) میں صرف ایک غزل لکھی ہے اور اس غزل کو بھی غالب کی نمائندہ غزل نہیں کہا جا سکتا۔حالانکہ اسی بحر میں ایرانی شعراءکے ہاں کئی اچھی غزلیں باآسانی تلاش کی جا سکتی ہیں ۔وجہ بہت سیدھی سادی ہے کہ یہ بحر ہمارے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔

مزاج اور پھر کسی قوم یا کسی خاص علاقے کے رہنے والوں کا اجتماعی مزاج بہت سے داخلی اور خارجی عوامل کی کارفرمائی سے تشکیل پاتا ہے۔اور پوری زندگی کا احاطہ کر لیتا ہے۔دوہے میں جو کوملتا، سندرتا اور سپھلتا ہے، اس کا ہمارے اجتماعی مزاج سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ وہی تعلق جو فنِ تعمیر میں تاج محل اور گائیکی میں پانی میں آگ لگا دینے والے راگوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے۔

دوہےکی بحر میں تھوڑے بہت تصرف سے کئی آہنگ دریافت کئے گئے ہیں اور ان نو دریافت شدہ بحروں میں دوہے کے علاوہ غزلیں اور نظمیں بھی کہی گئی ہیں ۔ڈاکٹر وحید کی شہکار نظم”خانہ بدوش“دوہے کی بحر میں اسی تصرف کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بحر میں تخلیق ہوئی ہے۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون جب دوہے کی طرف مائل ہوئے تو اُن کے سامنے اساتذہء فن کے نقوشِ کفِ پا تو تھے ہی مگر وہ اپنے معاصرین سے بھی صرفِ نظر نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ہمارے اس تازہ کار شاعر نے اعتراف کے دۓ روشن کرتے ہوئے ممکن حد تک سبھی سے کسبِ فیض کیا۔

کوئی مجھ کو خسرو جانے کوئی بھگت کبیر

کوئی طاہر عالی جانے کوئی مجھ کو میر

اور یوں انہیں دوہے کی پوری روایت سے آگہی حاصل ہوئی ۔ہماری نشوونماچونکہ غزل کی روایت کے سائے میں ہوئی ہے اور غزل وہ صنفِ سخن ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی، لیکن ڈاکٹر طاہر سعید ہارون جب سے دوہا کہنے لگے ہیں غزل کی طرف شاید پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے مزاج کو دوہے سے کیا مناسبت ہے۔اس اعتبار سے وہ اپنے معاصر دوہا نگاروں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ادب کے stock exchange میں اصنافِ سخن کے اتار چڑھاؤ کی کیا صورتِ حال ہے۔مشاعرہ لوٹنے والے آج کل کس صنف پر مہربان ہیں، اور کون سی بدیسی صنف کی ترویج کے لئے متعلقہ ملک کا سفارت خانہ اپنے وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون تو بس اپنی دھن میں دوہا تخلیق کرتے جا رہے ہیں اور دوہا بھی ایساکہ باید و شاید۔

حسنِ اتفاق تو دیکھئے کہ ڈاکٹر طاہرسعید ہارون اور اُن کی دوہا نگاری سے میرا اولین تعارف اُردو دنیا کی معروف شخصیت، شاعر، نقاد اور اپنے دوست ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے توسط سے ہوا۔(مناظر صاحب !میں آپ کا احسان مند ہوں)

ڈاکٹر طاہرسعید ہارون کے دوہے پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اُن کے لفظوں سے انگور کا رس ٹپک رہا ہے ۔اُن کا دوہا سرسی چھند میں ہو یا دوہا چھند میں، اُس خوشبو میں رچا بسا ہوتا ہے جو کچی مٹی پر بارش کی پہلی بوند سے جنم لیتی ہے اور دُور تک اور دیر تک محسوس ہوتی ہے۔

یہی اپنائیت دوہے کی پہچان ہے ۔مگر اس اپنائیت کا حصول جس دقتِ منزل کا متقاضی ہے وہ خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔اگر اسے مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو میں بلا خوفِ تردید یہ کہوں گا کہ ڈاکٹر طاہرسعید ہارون نے اعلیٰ فنی معیارات کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھا ہے اور دوہے جیسی نسبتاً کم مقبول صنفِ سخن کو وہ اعتماد اور وقار بخشا ہے کہ نوواردانِ سخن اُن کے روشن کئے ہوئے چراغوں کی لو سے استفادہ کر کے ہی آگے بڑھ سکیں گے۔

دوہے کی بنیادی بحر کے ارکان میں حروف کے سکون و تحرک سے (اُن کے مقام کے لحاظ سے) پچاس سے کچھ زائد آہنگ وجود میں آتے ہیں مگر یہ سبھی یکساں رواں نہیں ہوتے ۔ ڈاکٹر طاہرسعید ہارون کے دوہے میدان میں بہنے والے دریا کی طرح ہیں۔ رواں اور گہرے۔

ڈاکٹر طاہرسعید ہارون صاحب نے اپنے دوہوں میں زبان و بیان کے جو کرشمے دکھائے ہیں اور جس طرح روایت سے منسلک رہتے ہوئے اس کے تسلسل کو یقینی بنایا ہے، وہ قابلِ رشک ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے۔یہ قرینہ بیٹھے بٹھائے ہاتھ نہیں آتا ۔گہر ہونے تک قطرے پر جو گزرتی ہے اُسے قطرے سے بہتر کون جانتا ہے ۔ ڈاکٹر طاہرسعید ہارون کو دوہا نگاری میں اس مقام تک آتے آتے کن کن مراحل سے گزرنا پڑا، یہ وہ جانیں یا خدا۔لیکن اُن کے دوہے پڑھتے ہوئے آپ کی حیرت آپ کے باطن سے جست بھر کر آپ کے سامنے مجسم ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے اور آپ اُس فضا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وقت ڈاکٹر طاہرسعید ہارون کے لفظوں کی روشنی میں اپنا سفر طے کرتا ہے۔

چکی ناہیں دیکھتی گیہوں ہے یا گھن

وہ تو جانے پسنا ایک ہی اُس میں گُن

ڈاکٹر طاہرسعید ہارون نے دوہے کو صرف فنی اور فکری اعتبار سے ہی متمول نہیں کیا بلکہ اُن کے ذہنِ رسا نے انہیں اجتہاد کے ایسے ایسے پیرائے سجھائے ہیں کہ انہوں نے دوہے کے کینوس پر زندگی کو اُس کی تمام تر وسعتوں کے ساتھ پینٹ کر دیا ہے ۔

اُن کے دوہوں میں جہاں ایک طرف قرآن کی آفاقی تعلیمات اور صوفی شعراءکی فکر کا پرتو دکھائی دیتا ہے وہیں دوسری طرف زندگی کی بظاہر کم مایہ مسرتیں اور بے وقعت جذبے کچھ اس ادا سے سانس لیتے ہیں کہ دل بے طرح دھڑکنے لگتا ہے۔(غزل میں احمد عطا اللہ ان جذبوں کو زبان دینے میں کامیاب رہے ہیں)

انہی جذبوں کا اظہار اُن کا اختصاص ہے اور انہی جذبوں کے بیان سے دوہا نگاری میں وہ اپنے ہم عصروں سے الگ نظر آتے ہیں اوےر یقیناً ممتاز بھی۔آہنگ سے لے کر زبان و بیان تک، دوہے سے وابستہ ساری خصوصیات اُن کے دوہوں میں موجود ہیں۔دوہا اُن کے لئے محض ذریعہء اظہار نہیں بلکہ وہ اسے سانسوں کا سنگیت سمجھتے ہیں، اسی لئے تو ان کے دوہوں میں وہ کشش ہے جو مٹی کی خوشبو کے علاوہ کہیں نہیں پائی جاتی۔وہ تازہ وارد ہونے کے باوجود بھی پورے منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔

اُن کے دوہوں میں ہری بھری گھاس، جھرنوں کے گیت ، پروا جیسی چال چلتی پھول جیسی صورتیں، مونچھوں کو تاؤ دیتے چھیل چھبیلے ، بانسری کی تان، ڈھولک کی تھاپ، بوندوں کی رُم جھُم، سرسوں کے کھیت ، پنگھٹ، باغ اور باغوں میں کوئل کی کُو کُو، جھولا جھولتی ناریاں، غرض گاؤں اور گاؤں کے سارے مناظر اور مظاہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

ان کے دوہوں کا ایک اور نمآیاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد جہاں جہاں کوئی بدصورتی ہے اُسے خوبصورتی سے بدلنے کے خواہاں ہیں ۔شاید یہی سبب ہے کہ اُن کے دوہوں میںلہریں لیتے دکھ کے ساتھ کچھ کر گزرنے کا عزم بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے اور اُن کے خواب بھی۔

سرسی چھند میں دو اور دوہا چھند میں ایک مجموعے کی اشاعت کے بعد اب وہ اس مقام پر ہیں کہ اُن کے فن کا بھرپور استحسان اور اُن کی فنی عظمتوں کا مکمل اعتراف ہونا چاہئے۔

٭