شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, December 14, 2005

جان عالم کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے

شعر و سخن

کا بلاگ کی صورت اردو تحریر میں آن لائن ایڈیشن

پیش کش: اعجاز عبید

اداریہ

جان عالم

ایسےسوچا جا سکتا ہے

شعروسخن کا سفر آپ کی رفاقت میں جاری ہے۔تہذیبی ارتقاءکے ساتھ چلنا بھی انسان کی ضرورت ہے اور اپنے ماضی سے جڑ کر رہنا بھی اُس کی خواہش کبوتر نے ڈاکئے کا روپ دھارا تو ڈاکئے نے ٹیلی گرام اور فیکس کی صورت اختیار کر لی۔انٹرنیٹ کتاب اوررسائل کھارہا ہے اور ایس ایم ایس (sms)نے قاصد آپ کی جیب میں لا کر رکھ دیاہے۔

بلا شبہ یہ سب ہماری سہولت کا سامان ہے ۔لیکن اُڑتا کبوتر جو کسی لمحے چھت کی منڈیر پر آکر بیٹھا کرتااور جس کے پاؤں سے دُنیاکی خوشی بندھی ہوتی تھی وہ ڈاکیہ جس کے ہاتھ میں اُمیدوں کے بستے ہوا کرتے تھے۔جس کی راہ دیکھنے والے اُس کی پیلی وردی کو دیکھ کر اپنے چہروں پر سات رنگوں کی دھنک دوڑتی محسوس کرتے یہ سب ہم سے چھن رہا ہے۔

کوئی ہے جو ہمیں ہماری خوشیاں ہمیں لوٹا دے ؟؟ کوئی ہے جو ہم سے یہ سہولیات چھین لے ؟

ہم وہ سب گنوا کر یہ سب نہیں چاہتے، ہم سے ہماراکبوتر، ہمارا ڈاکیہ، ہماری کتاب نہ چھینی جائے۔ ہم شعوری ارتقاء پر ایمان رکھتے ہیں، تہذیبی ارتقاءپر نہیں۔کیوں کہ تہذیبیں تمدن سے پروان چڑھتی ہیں اور انسان شعور سے تہذیب پاتاہے اور مہذب ہوتا ہے ۔اقوامِ عالم کا ارتقاءمحض تہذیبی ہے جو مستقبل سے جڑا ہے اور مادی ہے اور ہمارا ارتقاءشعوری ہے روحانی ہے اور ہمارے ماضی سے جڑا ہے۔وہ ماضی جہاں آج سے چودہ سو سال پہلے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر بغیر کسی سائنسی آلات کے کوئی کہتا ہے الیوم اکملت لکم الدین!!

ایسے سوچا جاسکتا ہے ایسے سوچا جانا چاہئے۔