شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Sunday, February 12, 2006

نذیر تبسم کی غزل میں فکری اور شعری رویے

طارق ہاشمی

جدید اردو ادب کے ارتقاءکے لئے ستر کی دہائی کو بہت نیک فال اور خوش آثار خیال کیا گیا ہے۔اس دہائی کے دوران اتنے متنوع اسالیب سامنے آئے کہ نگار خانہۘ غزل جگمگا اٹھا۔ثروت حسین اور غلام محمد قاصر سے لے کر جمال احسانی اور عرفان صدیقی تک ہر نوجوان شاعر نے غزل کو نئی لفظیات اور علامات سے ایسا ثروت مند کیا کہ شعر کی ٹکسال سے پرانے سکے باہر ہو گئے۔اُردو غزل میں بیان کی ایسی دسعتیں روشن ہوئیں کہ روحِ غالب بھی ظرفِ تنگنائے غزل کے شکوے سے دستبردار ہوتی نظر آتی ہے۔

مذکورہ دہائی کے دوران سامنے آنے والے شعراءکی صف میں ایک اور نام جو بڑے اعتماد کے ساتھ داخل ہوا ہے وہ نذیر تبسم کا ہے۔اُس نے اگرچہ نئی علامات اور استعارات سے بہت کم اعتنا کیا ہے اور کسی انوکھے تجربے کو بھی پذیرائی نہیں بخشی لیکن غزل کی روایت کو جس سیدھے سادے مگر تیکھے انداز سے آگے بڑھایا ہے ، اُس کا وصفِ خاص ہے۔

نذیر تبسم کے مجموعے تم اداس مت ہونامیں فکری اور شعری رویوں پر غور کریں تو سب سے پہلے جو نقطہ اپنے قاری کی توجہ مبذول کرتا ہے ، یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے رویوں کا نہایت بالغ نظر نقاد ہے اور انتقاد کے اظہار میں وہ کسی رو رعایت کا روادار نہیں ہے۔اپنے شہر ، اُس کے گلی کوچوں ، بازاروں اداروں اور مجالس و محافل کے پیش منظر اور پسِ منظر میں ابھرنے والے رویوں اور اُن کے تضاد سے پیدا ہونے والی کیفیات کو وہ جس کرب اور ابتلا سے مصور کرتا ہے ، اس کے اندوہ کا اندازہ لفظ لفظ بلکہ حرف حرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں وہ جب اپنے احباب سے دوہرے رویوں ، ریا کاری یا سردمہری کا شکوہ کرتا ہے یا دوستوں کی محفل میں تنہائی کا رونا روتا ہے تو یہ کوئی روایتی مضامین کی تکرار قطعاً نہیں لگتی بلکہ اُس کے دل کی حقیقی آواز کا آہنگ محسوس ہو تی ہے۔

بس اک طرزِ رفاقت ہے نبھاتے ہیں جسے ورنہ

بہت سے دوستوں سے دوستی اچھی نہیں لگتی

سرد مہری سی ہے رویوں میں

نہ شکایت نہ برہمی نہ گلہ

لب و لہجے میں عیاری سی کیوں ہے

رویوں میں ریاکاری سی کیوں ہے

تبسم آج تیرے دوستوں کے

دلاسے میں دلآزاری سی کیوں ہے

اس صورتِ حال میں اُس کے حوصلے سے معمور طبع سے نکلنے والی دعا بھی سن لیجئے۔

انہی سے میری شکستوں کے زخم تازہ ہیں

مرے خدا مرے یاروں کو زندگانی دے

نزیر تبسم کی غزل میں اس صورتِ حال کی کوئی تجریدی تصویر نہیں بنتی بلکہ بعض اشعار میں ایک کردار کا اسکیچ بھی بار بار نظر آتا ہے۔یہ کردار ممکن ہے شہرِ پشاور میں کسی تہذیبی یا لسانی کشمکش سے رونما ہونے والے ٹکراؤ کی تمثیلی تصویر ہو لیکن شاعر کا لہجہ بہت کم مقامات پر اس کی غمازی کرتا ہے۔زیادہ تر جو سلسلہ سامنے آتا ہے ، وہ وہی رویہ اور سلوک ہے جس کا اُسے اپنی روزمرہ زندگی میں سامنا ہے۔اپنے اشعار میں نذیر مسلسل اُس کردار سے مخاطب ہو کر اُس کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے :

شکایت ہے تو کھل کر گفتگو کر

ترے لہجے میں بیزاری سی کیوں ہے

تری پلکوں پہ اب دکھ کی گھٹائیں کیوں برستی ہیں

ترے نزدیک تو جائز تھا یہ بیوپار نفرت کا

غزل کے اشعار میں اُن رویوں کا جس سے شاعر کو سامنا ہو ، در آنا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔اگرچہ اس سے مفر اختیار میں ہو بھی سکتا ہے لیکن عموماً اس منافقت سے گریز ہی کیا جاتا رہا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ پیش آنے والے رویوں سے شاعر تخلیقی سطح پر کیا استفادہ کرتا ہے اور اپنے فنِ شعر میں کس نئی جہت کو تلاش کرتا ہے۔نذیر تبسم نے اس کشمکش سے جو تخلیقی استفادہ کیا ہے ، وہ اُس کے اشعار میں رزمیہ آہنگ ہے۔جو بہر طور ترقی پسند تحریک کی طبقاتی کشمکش یا محمد اظہار الحق کی غزل میں ادیان کی جنگ یا شکیب جلالی اور اعتبار ساجد کی ناراض طبیعت سے پیدا ہونے والے رزمیہ آہنگ سے بہت مختلف ہے۔نذیر کی غزل میں موجود للکار یا پیکار کا آہنگ فرد کی فرد سے کشمکش ہی کے نتیجے میں پیدا ہو سکتا ہے۔اُس کے ہاں انا ، نفرت ، دشمنی اور قدوقامت کے پست و بالا ہو نے کے رویے ا س امر کے غماز ہیں کہ یہ کشمکش ایک ہی سماج اور ایک ہی شہر میں رہنے والے دو افراد یا گروہوں کے تصادم سے پیدا ہوئی ہے۔

تمہاری جیت مکمل نہیں ہوئی کہ ابھی

انا کا تیر مرے حلقۂ کمان میں ہے

میں بھی آج ساحل پر کشتیاں جلا آیا

تم بھی اپنے تیروں کو اب شمار مت کرنا

مورچے میں ڈٹ کر بھی ہو رہا ہوں شرمندہ

بزدلوں کے لشکر سے اپنی آشنائی تھی

نزیر تبسم کی غزل میں دوسرا اہم پہلو سلسلۂ روز و شب کے حادثات کی نقش گری ہے جو معاصر شاعری کا ایک اہم فلسفیانہ موضوع ہے۔اور جس پر متعدد نظمیں اور غزلیں تخلیق کی گئی ہیں۔نزیر کے ہاں یہ موضوع سماجی محرومیوں کے تناظر میں برتا گیا ہے۔اُس کے اشعار میں ڈھلتی عمر کا احساس ایک روگ کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے ۔کیونکہ یہ پیرانہ سالی مہ و سال کے گزرنے کے نتیجے میں نہیں بلکہ اُن محرومیوں کی شدت کے باعث ہے جو طفلی اور پیری کے مابین جوانی کی خلیج کو حائل نہیں ہونے دیتی۔نزیر تبسم کے ان اشعار کو پڑھتے ہوئے ہم اُن مجبور و مقہور افراد کی تصویر دیکھ سکتے ہیں جن کی رگوں میں خون نہیں دیمک سرسرا رہی ہے اور جن کی اوقات نے اُن کی زندگی میں وقت کا مفہوم ہی بدل دیا ہے ۔

آج آئینے میں خود کو دیکھ کر پتھرا گیا

میں نے تصویروں میں دیکھے تھے خزاؤں کے بدن

میرے چہرے کو پڑھ توجہ سے

کتنی صدیاں ہیں خدوخال میں گم

مجھے بچوں سے خوف آنے لگا ہے

یہ پچپن ہی میں بوڑھے ہو گئے ہیں

بعض اشعار میں وقت کی اس کج رفتاری کے دکھ کو غزل کے روایتی علائم میں بھی پیش کیا گیا ہے۔تاہم بیان کی جدت و ندرت نے مضمون کو تازہ کر دیا ہے۔

عجب آشفتہ سر ہے موسمِ گل

ابھی کچھ دیر تو پہلے یہیں تھا

اور اب ایک تصویر دیکھیے جو ناصر کاظمی کے ایک شعر کی طرف دھیان لے جاتی ہے۔

شام ہوتے ہی سیڑھیوں سے نزیر

دکھ کے سائے بدن بدن اترے

لیکن جسطرح وہ اپنے احباب کے دوہرے رویوں کے باوجود اُن کے لئے دعاگو رہتا ہے اسی طرح وقت کے پیدا کردہ دکھوں کے سامان سے بھی وہ اسباب ِ مسرت نکالتا ہے ۔

یوں لگا جیسے میری جوانی کا اک استعارہ تھا وہ

کتنا اچھا لگا زرد رو چاند کو رات بھر دیکھنا

محافلِ شعری میں نزیر تبسم جس نوعیت کی غزل پیش کرتا ہے اگر کوئی سامع اُس سے متاثر ہو کر اُس کا مجموعہ پڑھے تو اُس کی توقعات کتاب کے اوراق میں قدرے منتشر ہوں گی کہ تم اداس مت ہونا میں ہجر ووصال کے مضامین بہت زیادہ بھی نہیں۔اگرچہ اس سلسلے میں اُس نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے قاری کو ضرور متاثر کرتا ہے ۔عشق و محبت کی کیفیات سے معمور بعض مکمل غزلیں اور بعض غزلوں کے بعض اشعار قاری کے احساس و جذبات کو یقیناً گرفت میں لیتے ہیں اور وہ ان کے سحر سے اپنے دامن کو تادیر باہر نہیں لا سکتا ۔رومانی طرزِ احساس کے ان اشعار میں سے صرف ایک شعر ملاحظہ ہو جو ٹین ایجز کی ڈائریوں ہی میں نہیں ، کچھ سنجیدہ فکر قاریوں کے دل کی بیاضوں میں بھی درج ہے۔

اچانک تیرے آنے کی خوشی کچھ اور ہوتی ہے

مجھے بادِ صبا کی مخبری اچھی نہیں لگتی

لمحاتِ وصل کے کیف سے سرشار اس طرح کا ایک اور شعر دیکھیے۔

گرتی رہی حواس پہ خوشبو کی آبشار

اک پھول تیرے لمس کا مہکا تھا اور بس

ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر برضغیر پاک و ہند میں اُردو غزل کے مختلف رویوں میں ایک سبک رویہ یہ بھی سامنے آیا کہ غزل کہنے والوں نے بہت عام اور سپاٹ لہجے کی غزل کہنا شروع کر دی ۔اگرچہ اس کا پہلا سبق پڑھانے والے مولانا حالی تھے تاہم نئے شعراءکا اس رویے کو اختیار کرنے کا سبب عوام میں مقبولیت کا شوق اور جذبہ ہے۔دوسری طرف اس صنف کو جب سے طبقہِ غنا سے التفات نصیب ہوا ہے غزل گو شعراء، غزل اور گیت کے مابین حدِ تفریق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ہمارے ہاں متعدد شعراءایسے ہیں جن کے اعتبار و افتخار کا بنیادی سبب یہی ہے۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان شعراءنے اپنی مابعد نسل پر گہرے اثرات بھی ڈالے ہیں ۔اس رحجان سازی اور اثر اندازی کی بدولت اب چند سالوں سے نئی نسل میں صرف وہی شعراءمقبول ہیں جنہوں نے یا تو الیکٹرانک میڈیا کے لئے ڈرامے لکھے یا انہیں اس میڈیا نے کسی اور گلیمرس شعبے کے حوالہ سے سریرِ شہرت پر متمکن کر دیا۔

یہاں نزیر تبسم کی انفرادیت لائقِ داد ہے کہ وہ ثانوی درجے کے ذرائع کو استعمال نہ کرنے کے باوجود مقبول ہوا ہے۔ اُس کی مقبولیت اور شہرت کے حوالے سے یہ امر قابلِ رشک ہے کہ لاہور کا ایک شاعر، جس نے نوجوان نسل میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے ہیں ، اپنے مجموعہ کلام کو تم اداس مت ہونا کا عنوان دیا ہے۔نزیر تبسم کے اشعار پر شاعروں میں دادکے ڈھونگرے برستے ہیں ، تاہم کبھی کبھار وہ بھی شوقِ مقبولیت میں ایسے مصرعے بھی تراشنے لگتا ہے جو اُسے قتیل شفائی اور بشیر بدر پرائمری سکول آف تھاٹ کے عامیانہ لب و لہجے کے قریب لے جاتے ہیں۔یہاں اشعار یا مصرعوں کے اندراج کو موقوف کرتے ہوئے صرف چند الفاظ و تراکیب کی جانب نشاندہی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔مثلاً رواجوں کی سولیوں پہ گھڑ جانا، اونچی حویلی، کچا مکان وغیرہ۔اسی طرح بعض الفاظ کی تکرار بھی ذوق پر گراں گزرتی ہے مثلاً ظرف، قدوقامت اور سرطان۔مذکورہ الفاظ و تراکیب سے قطع نظر نزیر تبسم کے مجموعہتم اداس مت ہونا میں کہی گئی غزل بہ حیثیتِ مجموعی اپنے اسلوب کے لحاظ سے اتنی وقعت و اہمیت ضرور رکھتی ہے کہ اپنی انفرادیت کا اعتبار مجروح نہیں ہونے دیتی ۔غزل کا بنیادی وصف لفظ کے مزاج سے آگہی اور اسے برتنے کا سلیقہ ہے ۔نزیر کے اشعار میں یہ آگہی اور سلیقہ بھی ہے اور تخلیقی شعور کی وہ جگمگاہٹ بھی ہے جس کی روشنی میں حرفوں کے خالق اپنے قاری کو ایک نئی دنیائے آہنگ و معانی کی جانب لے جاتے ہیں ۔وہ فکر کو فن کے پیکر میں ڈھالنے سے واقف ہے اورتغزل شناس بھی۔صنائع شعری بھی خوب جانتا ہے اور مصرعے میں اصوات کے بیش و کم سے بھی آگاہ ہے۔دو شعر ملاحظہ ہوں:

یہ دونوں جذبے تو ایک شجر کی دو شاخیں ہیں

جو نفرت سے ڈر جائے وہ پیار نہیں کر سکتا

ہولے سے بھیگ جاتی ہیں پلکوں کی جھالریں

آنگن میں جب اترتی ہے یادوں کی پالکی

پہلے شعر میں بحر کی غنائیت اور دوسرے شعر میں جھالروں کی رعایت سے یادوں کی پالکی کی اضافت نے جو حسن پیدا کیا ہے ، اُسکی داد اہلِ ہنر ضرور دیں گے۔اور اب کچھ مقطعے دیکھئے جن میں مذکورہ اشعار کی طرح صنائع شعری توجہ طلب ہیں۔

سانس کی ڈوری اچانک ٹوٹ جائے گی نزیر

اور آنکھوں کا دریچہ ادھ کھلا رہ جائے گا

وہ بھی غبارِ وقت میں گم ہو گیا نزیر

اور ہم بھی اُس کے بعد سرابوں میں کھو گئے

دل ہی جب ٹوٹا ہوا ہو موسمِ گل میں نزیر

پھول میں خوشبو کہاں ، کلیوں میں رعنائی کہاں

نزیر تبسم کا شمار ستر کی دہائی کے شعراءمیں ہوتا ہے ۔وہ اگرچہ اس نسل میں قدرے بعد کا نام ہے اور اس کا تخلیقی و شعری سفر ابھی جاری ہے ، اُس نے اب تک کے مراحل جن کٹھن تجربوں سے گزر کر طے کئے ہیں اور جو کچھ اثاثہ پیش کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔میں اُس کے ایک مصرعے میں قدرے تخفیف کرتے ہوئے اُس کے اس دعوے کی تائید کرتا ہوںکہ اپنے لہجے سے وہ بے ہنر نہیں لگتا۔

اور اگر اُس نے اپنے بطون میں موجود تخلیقِ ہنر کے ان امکانات کو معدوم نہ ہونے دیا تو یقیناً وطنِ عزیز کی تاریخِ شعر رقم کرنے والا مذکورہ دہائی کے شعراءمیں اُس کی شناخت کو مسخ نہیں ہونے دے گا۔اور اُس کے نام اور کلام کو درج کرتے ہوئے موقر الفاظ کا انتخاب کرے گا۔