شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Sunday, February 12, 2006

جوگی

وقار مسعود خان

میرو بہت خوش تھا۔ پینٹ کی جیب میں اڑسے ہوئے بٹوے کا پیٹ نیلے ہرے نوٹوں سے پھولا ہوا تھا۔ آج اسے سیمو کو ڈنر پر لے کر جانا تھا ، بچوں کو فن لینڈ لے کر جانا تھا، اور اما ں ابا کے ہاں سے بھی فون آیا تھا ، کہ بیٹا بھول گئے تیرے ماں باپ زندہ ہیں۔

وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔ اچانک اک نا مانوس سی آواز نے اس کے قدم روک دئیے۔ سامنے کافی رش سا نظر آ رہا تھا۔ فطرت انسانی ہے ، انسان ہر بات ، ہر چیز کے بارے میں یونہی بس یونہی تجسس کا شکار رہتا ہے۔ وہ بھی اس ہجوم کی طرف چل پڑا۔

پاگل پاگل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب پاگل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دنیا پاگل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے دھول سے اٹے لمبے سیاہ بال ہوا میں لمبی لمبی جھاڑیوں کی ما نند لہرا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قلمیں مونچھوں کی حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اس کا گریبان زمانے کے ہاتھوں چاک ہو چکا تھا۔ وہ اک جوگی تھا۔ اسکے دونو ں لمبے بازو فضا میں پیسا کے مینار کی طرح بلندتھے۔ ہاتھوں میں پکڑی ہوئی گھنٹیاں جن کو وہ انتہائی سرعت سے اِدھر اَدھر گھما رہا تھا ۔ ان کی ٹَن ٹَن اور ٹِن ٹِن آپس میں گڈ مڈ ہو کر سریلی جھنکار پیدا کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے کالی رات میں خونی مندروں پررقص کرنے والی چڑیلوں کے راگ اور سنگیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک کالی عینک والے شخص نے اس جوگی کو دس روپے کا نوٹ پکڑ ا نے کے کوشش کی تو جوگی نے وہ دس کا نوٹ واپس اس شخص کے منہ پر دے مارا۔ اور بولا۔ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم لے لو یہ دولت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پاگل دنیا والے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان الفاظ کے ختم ہوتے ہی اس کے سوکھے سڑے گلے سے ایسا فلک شگاف قہقہہ نکلا جیسے مڈل سکول کے تہہ خانوں میں کالی کالی چڑیلوں کے باریک قہقہے چھوٹے دل والے بچوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا رات کے وقت سنگل پسلی پہرے دار کو چادر کے اندر تک دبک جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سب لوگ ایک ایک کر کے سرکنے لگے تو جوگی نے اپنی تھیلی اٹھائی ۔ تھیلی میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے تھیلی کو نوکیلا بنا رہے تھے۔ میرو جوگی کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوگی نے مڑ کر اسے دیکھا تو اس کے انگارے ایسی آنکھیں میرو کے جسم کو داغتی ہوئی ، محسوس ہوئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تمہاری کہانی سننی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرو نے پہلے ہی داؤ پر اپنا پتہ شو کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاؤ بابا جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کونسی کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کام کرو اپنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوگی اپنے راستے کو ہو لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرو بھاگ کر اس کے سا منے آ گیا اور انتہائی لجاجت سے بولا بابا مجھے اپنی کہانی سنا دو نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ دونوں فٹ پاتھ کے ٹھنڈے فرش پر آ کر بیٹھ گئے۔

جوگی بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی اک مست دیوانہ تھا۔ اک ٹا نگ پر دھول جماتا تھا۔ لوگ ہر شام اس کے گرد جمع ہوا کرتے تھے ۔ یہ کوئی آٹھ یا نو سال پہلے کی بات ہے۔

سہانی شام تھی۔ مغرب میں ہلکی ہلکی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے اپنے اپنے آشیانوں کے جانب محو پرواز تھے۔ دو چار نام کی ڈگریاں میری بغل میں دبی ہوئی تھیں جو فائل میں صرف اس لئے محفوظ تھیں کہ ان پر پلاسٹک کور چڑھا ہوا تھا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو اس دیوانے کا دھمال دیکھنے کے لیے شہد پر مکھیوں کی طرح جمع تھے ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے بیوٹی پارلر سے ایک چہرہ پر نور، چشم بددور ، مجھے یاد کرنے دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہنے کے بعد بابے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سوچ میں ڈوب گیا۔ کئی لمحے گزر گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوگی کی آواز نے میرو کو اندر تک دہلا دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکلتا ہوا قد تھا۔ لمبے سنہری بال کمرکی سطح پر لہرا رہے تھے ۔ اس کی ناک لمبی مگر جاذب نظر تھی۔ اس نے ایک ادا سے چشمہ آنکھوں پر سجایا ۔ دودھیا چہرے پر چھائی ہوئی بالوں کی لٹ کو اک شان بے نیازی سے پیچھے کی صرف جھٹکا دیا جیسے باد صبا نو خیز کلی کے گرد لہراتی ہے ۔ اس نے اک ادا سے دائیں دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائیں دیکھا اور پھر سامنے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلمی انداز سے ہاتھ چشمے تک لے کر گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چشمہ آنکھوں سے کھسکا کر ناک کی نوک پر ٹکایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی پچاس سالہ ہیڈ مسٹریس کی طرح سر جھکا کر چشمے کی اوٹ سے اس جوگی کو رقص کرتا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے فٹ پاتھ پر قدم رکھا ۔ ڈرائیور نے چمکدار سیاہ کار کا دروازہ شاہی انداز میں اس کے لئے کھولا تو لڑکی نے ڈرائیور کے طرف دیکھے بنا انگلی سے دروازہ بند کرنے کا اشارہ کیا۔ اور ہجوم کی طرف آنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ لوگوں کے درمیان آ کھڑی ہوئی تو میں لا شعوری طور پر کھسک کر اس کی دائیں طرف جا کھڑا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ناچ کیوں رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی نے پوچھا

اس کا سوال سنتے ہی میرے علاوہ وہ دونوں افراد جو اس کے قریب کھڑے ہوے تھے اس کے طرف متوجہ ہوئے۔ مگر چاندنی کی نظروں کا محور میری ذات سلیم تھی۔

آئی ڈونٹ نو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ٹھیٹھ انگریزی میں جوا ب دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اردو میں بات کرو مین اردو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے نہیں معلوم۔ ۔ میں یہ کہہ کر واپس ہو لیا تو وہ بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے مین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکو رکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات سنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واپس کیوں جا رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناچ نہیں دیکھو گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مفت میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کیسے مینڈک کی طرح اچھل رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے بازو ہوا میں سینے کی سطح تک لائی ، ہاتھ کی انگلیوں کو نیچے کے طرف کیا۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ مینڈک کی طرح اچھل اچھل کر اپنی بات کی تقلید کرتی میں مڑ کر چل پڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بگڑے ہوئے باپ کی بگڑی ہوئی اولاد لگتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دو قدم چلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں ہاتھ کو کولہوں پر ٹکائے، سر دائیں طرف ڈھلکائے ، بھنووں کے الٹے سیدھے زاویے بنا بنا کر دیکھ رہی تھی۔ عینک ابھی تک اس کے سنگ مر مر سے ترشے ہوئے ناک پر تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ کا نام کیا ہے؟میں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کسی پا نچ سالہ بچے کی سی معصومیت سی پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے مرمریں ہاتھ کی انگلی سے ایک ہوٹل کے طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر چلوپھر بتاؤں گی۔ یہ کہتے ہی وہ اس طرف قلانچیں بھرنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید اسے یقین تھا کہ میں اس کے پیچھے آؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سر جھکائے دھوبی کے کتے کی مانند اس کے پیچھے چل پڑا۔

ہاں اب بولو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے گھونٹ بھرنے کے بعد کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ کا نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے دوبارہ پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھٹ سے جواب آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت شیریں نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جوگی کی کہانی ابھی ادھوری تھی کہ اسے کوئی خیال آیا اور وہ اپنی جیبوں کو ٹٹولنے لگا۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے ایک مڑی تڑی تصویر نکالی جیسے الہٰ دین کے چراغ سے جن نکلتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ تصویر اس لالہ رخ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بہت سندر ہے میرو نے کھلے دل سے تعریف کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چلو اب کہانی کی طرف آتے ہیں۔ جوگی بہت جوشیلا محسوس ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے لڑکی سے کہا کہ بہت شیریں نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جواب میں شیریں نے شہادت کی انگلی سے میرے ہونٹوں پر دستک دیتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالکل تمہاری طرح۔ ۔ ۔

مجھے یاد ہے مجھے اس د ن رات کو گھر دیر سے پہنچنے پر اماں سے ڈانٹ پڑی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہفتے کا دن سہ پہر کا وقت تھا ۔ اور میری بے چین و بے قرار نگاہیں گھڑی پر مرکوز تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا میں جلدی ا ۤ گیا تھا یا اسے آنے میں دیر ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ آ گئی۔

ہم شاہ غازی کے مزار پر گئے۔ پھول چڑھائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاہ غازی کی قبر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھول سجائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں کی پیشانی پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ساحل کی گیلی ریت پر چلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری ہر ملاقات پر ہم ساحل سمندر ضرور جاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ جب ہم پتھروں پر سر جوڑ کر بیٹھے ہوتے تھے اور ہوا میں نمی ہوتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے سامنے چھوٹی بڑی سیپیوں کے ڈھیر ہوتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور گیلی ریت سے بنا اک گھروندا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ ہماری آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ہماری اندر کے تپش کا نتیجہ ہیں یا فضا کا اثر ہے

اس دن رات گیارہ بجے وہ گھر کو روانہ ہوئی ۔ میں سنسان سڑک پر تنہا کھڑا ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا۔ میں شیریں کی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس کی گاڑی چرر کی آواز کے ساتھ میرے قدموں میں آ کر رکی اور وہ بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بھول گئی تھی کہ تمہارے پاس گاڑی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں تمہیں کیوں یاد رہ گیا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے ہر وہ شخص یاد رہتا ہے جو مجھ سے ملتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور تم سے ملتے کتنے لوگ ہیں ۔ میں نے پوچھا۔ ۔

صرف تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے چہرے پر کوئی تاُ ثر نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر میں محسوس کر سکتا تھا کہ اس کی کالی آنکھوں کی پتلیوں میں قوس قزح کا ہر رنگ باری باری اتر رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے طلسمی ہونٹ پھڑاپھڑا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی دائیں آنکھ سے ننھا سا شبنمی قطرہ لمبی ناک کی آڑ لیے خاموشی سے اس کے نرم ملائم گالوں سے ہوتا ہوا میرے اس ہاتھ پر آگرا جو میں نے اس کے ہاتھ پر رکھا ہوا تھا۔ وہ شاید اک ہاتھ سے گاڑی چلانے میں ماہر تھی۔ کیونکہ افق کے اس پار تک سڑک سنسان تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی کی سڑک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راستے میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں تھی جو اس کو دوسرا ہاتھ استعمال کرنے پر مجبور کرتی۔

یوں مجھے دیکھتے رہو گے تو میں گاڑی کسی کھمبے سے ٹکرا دوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ٹکرا دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی نہ سہی موت تو تمہاری صحبت میں آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ ہماری دوسری ملاقات تھی۔ اور اس کی بعد ملاقاتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم تاروں کی باتیں کیا کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کہکشاؤں میں نام لکھا کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلیاں چنتے اور بہاروں میں رقص کیا کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاند ہمارے ساتھ آ کر باتیں کیا کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ستارے ہمارے گرد جمع ہوا کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اک دوسرے کے آنسو پیتے تھے اور ا یک دوسرے کی زندگی جیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن وہ میری گود میں سر رکھے لیٹی تھی اور میرے لب اس کے شبمنی ہونٹوں کے طرف بڑھ رہے تھے تو اس نے شی کر کے منع کر دیا اور بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا مت کرو ۔ اگر ان ہونٹوں کو تیرے ہونٹوں کے لمس کی عادت پڑ گئی تو میں مشکل میں پڑ جاؤں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لب تڑپیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترسیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ یہ کبھی پیاسے نہ رہ جائیں۔

وقت کے دیو نے اس دن اپنا رخ میری طرف کیا جب میں اک بے فکرے جھینگر کی مانند ترانے گاتا چمن میں اڑان بھرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی تتلی کے ساتھ کلی کلی ، گلاب گلاب پھدکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلاب کی پتیوں سے شبنم چکھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شبنمی ہونٹوں سے پیاس بجھاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید وقت کو میری خوشی منظور نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اس نے مجھے پیاسا ہی رکھا۔ اس کے والد ان لوگوں میں سے ایک تھے جن کا شہر میں سکہ چلتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ گوری اپنے باپ کے ہر حکم کی غلام تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری ماں کہاں ہے؟ تو اس کی آنکھوں میں پانی سا آ گیا اور اس نے شہادت کی انگلی سے تین چار مرتبہ اوپر کی جانب اشارہ کیا۔ میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو ہر سو نیلے آسمان کی چادر تنی تھی۔ ہم دونوں کی نظریں ملیں توہم دونوں کی پلکوں پر ننھے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے باپ کی طرف سے فیصلہ ہوا کہ میں شیریں کا ہمسفرنہیں بن سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ میں شیریں کی یادوں کو یاد کرنے کی جراء ت بھی نہ کروں ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

مجھے اُس آستانے سے اتنے پیار کے ساتھ رخصت کیا گیا کہ جب میں گلی میں کھڑا خود کو اور اُس عظیم ا لشان بنگلے کو دیکھ رہا تھا تو مجھے پاگل پاگل کا شور سنائی دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مڑ کر دیکھا تو کتنے ہی بچے ہاتھوں میں سنگ لیے مجھے مارنے کا اشارہ کر رہے تھے ۔

میں دو روز بعد شیریں کے گھر گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی اس سے بات شروع ہوئی تھی کہ پل بھر میں وہ باپ کی مضبوط بانہوں میں گرتی پھسلتی اوپرکی جانب گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے اس کے باپ نے کہا کہ تم اس لڑکی کے بارے میں سوچنا بھی مت۔

وہ لڑکی جو ہوا کے ذرا سے جھونکے پر نرم ملائم شاخ کی طرح ڈولنے لگتی تھی ۔ وہ لڑکی جو بادلوں سے برسے بارش کے پہلے قطرے پر مچھلی کی طرح تڑپتی تھی۔ اور کوئل بن کر کلیوں کے گرد گھوم گھوم کر گانا گایا کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لڑکی جو بات کرنے سے پہلے ہلتی تھی اور ہلنے کے بعد بولتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے باپ کے اس فیصلے پر ذرا نہ ہلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہل سکتی تھی مگر اس کی بد ن کے ذرّہ برا بر بال نے بھی ذرا سی جنبش نہ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں جو ہرلمحہ پتھروں کی چٹان کی مانند پر سکون اور گندے جوہڑ میں کھڑے پانی کر طرح ساکت تھا جس پر کتنے ہی قسم کے حشرات الارض بھنبھناتے رہتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں جو برگد کے پیڑ کی مانند بے حس و حرکت رہتا تھا اس فیصلے پر اس شدت سے مچلا کہ میرے انگ انگ میں لاوا سما گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیریں کیا تم اس فیصلے پر تم خوش ہو؟

ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑی سی خاموشی کے بعد اس شدت سے آواز آئی جیسے دور پہاڑوں سے کوئی گونج سنائی دیتی ہے۔

میں بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں کیا تم بھول گئی ہو کہ ہم نے شاہ غازی کے مزار پر اک دوسرے کے نام کے کنگن پہنے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مندر پر گئے تھے تو میں نے تمہاری سنہری زلفوں میں پیلے پیلے پھولوں والے گجرے سجائے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے کہا تھا یہ پیلے پھول میری زلفوں میں ہی رہیں ۔ یا خدا ایسا موقع نہ آئے کہ میں زرد پھولوں کو جھولی میں ڈال کر پتی پتی آنسو بہاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں نے جھٹ سے تمہارے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ شیریں یاد کرو جب ہم سینما میں بیٹھے فلم دیکھتے تھے اور اک دوسرے کی آئسکریم کھاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک دوسرے کے سٹرا سے فانٹا پیتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ کن انکھیوں سے ہماری جانب دیکھ کر مسکراتے تھے اور بڑ بڑاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں وہ کہتے تھے کہ یا خدا اِن دونوں کو سدا خوش رکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید تم بھول گئی ہو کہ جب ہم سمندر کی گیلی ریت پر دوڑتے تھے تو لوگ ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنستے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید وہ ہنس ہنس کر ہمیں دیکھتے تھے اور ہم سمندر میں دور تک پتھر پھینکتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے کہا تھا کہ جس کا پتھر دور جائے گا وہ زیادہ محبت کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے یاد ہے کہ میرا پتھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے پتھر سے پیچھے گرا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں شاید ریت پر بنائے ہوئے کچے گھروندے اور وہ تصویریں بھول گئیں ہیں جو ہم اک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر بناتے تھے۔ اور تمہیں شاید وہ کون آئسکریم والا یاد نہیں جو کمپنی باغ کے باہر کھڑا ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم دونوں کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر معنی خیز ہنسی امڈ آتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے کہ اک دن اس نے ہم دونوں کو مفت آئسکریم کھلائی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنے جھریوں والے پوپلے ہاتھ ہمارے سر پر پھیرے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سرگوشی کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے وہ سرگوشی نہیں سنی تھی وہ کہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟

میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ میں کمرے میں اکیلا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں اور اس کا باپ کب کے جا چکے تھے ۔ مجھے خیال آیا کہ میری باتیں کون سن رہا تھا؟

شا ید وہ سرـخ رنگ کا فون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دوڑ کر فون کے پاس گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بولا

تم سب کی باتیں سنتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے میری گریہ ہ و زاری بھی سنی ہے۔ تو یہ سب باتیں شیریں کو بتا دینا۔ پھر میں نے کرسی پر چڑھ کر اس کلاک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جو آٹھ بجے کا راگ الاپ رہا تھا۔ میں نے کلاک اتار کر ہاتھ میں تھام لیااور بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو سب کی سنتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو تیری نہیں سنتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اسے بھول جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وقت دیکھ میں تیری ٹک ٹک سن رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ میں نے تجھے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تو رکتا ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شیشے کے جیسی روکاوٹ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لمبی سی کالی سوئی اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے اور تجھے مجھ سے دور کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رک جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وقت رک جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو نے میرے ساتھ کیا کیا۔ پھر میں شایدمیز پر سجی سرخ رنگ کی اس مورتی کی طرف گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنا تھا کہ پریاں غیبی امداد کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری پیاری لال پری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ میرے آنسووں میں بھی تیرا عکس جھلکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا دیر کو سانس لے کہ میں تمہیں اپنی کتھا سنا سکوں۔ کمرے کی ہر چیز کو میں نے اپنا دکھ سنایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کوئی شے میرے دکھ میں ہمسفر نہ بن سکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک اوپر والی منزل سے دوڑنے کی آواز آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں زرق کپڑوں میں ملبوس نیچے لپکی اور چلائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مر جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود بھی مر جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے بھی ختم کر دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ الم، یہ دکھ ، یہ باتیں ان بے زبان اشیاء کے ذہن میں نقش نہ کرو کہ کالی سیاہ راتوں میں یہ سب چیزیں مجھے بچھوؤں کی طرح ڈنک ماریں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طوفانی راتوں میں ایک ایک کر کے میرے گرد خوفناک ہیولوں کی طرح رقص کریں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیریں مجھے باہر کے دروازے کی طرف دھکیلنے لگی اور دروازہ کھٹ سے بند کر دیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے شہریوں کو ایٹم بم گرنے کے بعد محسوس ہوا ہو گا کہ ان کی زندگی کا پردہ یکدم تاریک ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہر روز اس کے گھر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واپس آیا تو میرے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ چیخ چیخ کر ان لوگوں کی میزبانی کا اعتراف کر رہا ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے قمیض کے کسی نا کسی کونے میں اک نیا چیتھڑا نمودار ہو چکا ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اک دن وہ بازار کو نکلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کے سامنے آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے سامنے پا کر وہ اس طرح بدک کر رکی جیسے کوئی معصوم سا چوہا بے خبری میں کسی موٹی تازی بلی کے سامنے آ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ ذرا دیر سے گھر پہنچی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ ہم نے کچھ دیرکمپنی باغ میں اک بڑی سی جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر باتیں کی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر خوش قسمتی سے وہ مجھے گھر میں مل گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا خوبصورت تھا وہ لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باکل چودھویں کی رات کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے لبوں کے جام اور اس کی آنکھوں سے نکلے شراب کے قطرے، جنہیں چلو میں بھر کر میں نے حلق میں انڈیل لیا تھا اور سرور کی کیفیت سے میرے انگ انگ میں مستی چھا گئی تھی۔ اس دن اس نے کہا تھا کہ ذرا اِن لبوں کوتیرے ہونٹوں کا لمس محسوس کرلینے دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کہ ساری عمر پیاسا رہنا پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں نے شی کر کے اس کو منع کر د یا کہ کہیں عادت نہ ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اک گاڑی گیراج میں آکر رکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے باپ نے ہم دونوں کو دیکھا تو آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے دراز سے پستول نکالا اپنی کنپٹی پر رکھا اور بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بول شیریں کون چا ہئے؟

شیریں نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے باپ کی طرف اور پھر سامنے کلاک کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٹھ بج رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کرب کی شدت سے گردن بائیں طرف اپنے باپ کی طرف ڈھلکا دی۔ اِس دفع آنسو اس کی دائیں آنکھ سے نکلا تاکہ میں یہ دیکھ سکوں کہ یہ اس کے دل کا فیصلہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری زندگی شیشے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم ہو کر رہ گئی کہ کوئی اسے شیشہ ماننے پر تیا ر نہ تھا۔

میں چیخا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری ہر فریاد بے اثر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چند ساعتوں میں مجھے نرم و دبیزقالین سے مٹیالے فرش پر لا کھڑا دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے سامنے فولادی دروازہ تھا جسے میں ساری عمر بھی ٹکریں مارتا تو اسکی ایک میخ بھی اپنی جگہ سے ہلنے نہ پاتی۔ کتنے ہی لمبے لمبے دن اور کتنی ہی سرد راتیں میں نے اس کے گھر کے باہر گزار دیں مگر ایک مرتبہ بھی اوپر کے کمرے کی بتی روشن نہ ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی ایک پل کو بھی کھڑکی کے پردے میں سرسراہٹ نہ ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں روتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھومتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر ادھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوچہ کوچہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریہ قریہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کونہ کونہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ہر شام آٹھ بجے کلاک سے باتیں کرتی ہو گی۔ اور پوچھتی ہو گی کہ میں کیا کہہ کر گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اس لال پری کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھتی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھوڑی میز پر ٹکاتی ہو گی اور دونوں ہاتھوں سے اس مورتی کو پیار کرتی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روتی ہو گی اور اس سے پوچھتی ہو گی کہ میرا ساجن کیا کہہ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور روتی روتی اس میز پر سر ٹکا کر سو جاتی ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کسی وقت سرخ فون کی گھنٹی اس کی نیند میں دخل انداز ہوتی ہو گی اور کمرے کے پردے طوفان بادو باراں سے اڑنے لگتے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمرے کی ہر شے اس کے گرد رقص کر تی ہو گی اور چاند اپنا چہرہ کھڑکی سے ہٹا لیتا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس لڑکی کی چا ہت مجھے جیل لے کر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی وجہ سے مجھے ہسپتال کے اتنے چکر کاٹنے پڑے کہ لوگ مجھے ہسپتال کے عملے کا فرد سمجھنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں قسمت کے ہاتھوں میں دربدر کی ٹھوکر یں کھاتا لاہور پہنچا ہوں۔

جوگی نے شیریں کی تصویر جسے میرو بہت مگن ہو کر دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ سے کھینچ لی اور بولا، کہانی ختم، پاگل اب جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اٹھا اور سر دھنتا ہوا اپنے راستے کو ہو لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرو نے آسمان کی جانب دیکھا تو چاند سفر طے کرتا کرتا اسکے سر پر آن پہنچا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد آیا سیمو کا ڈنر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد آیا بچوں کا فن لینڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد آئی اماں ابا سے ملاقات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جوگی کی درد بھری داستان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سیمو نے حسب روایت پتھر چہرے کے ساتھ میرو کا استقبال کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باقاعدہ بچوں کے کمرے کا دروازہ کھول کر ان کا درشن کروایا کہ وہ صدیوں سے انتظار کرتے کرتے نیند کی آغوش میں جا سوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان کی پلکیں لمحہ بہ لمحہ پھڑپھڑا رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کبھی وقت پر نہیں آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری کوئی قدر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں صرف اس لیے ہوں کہ کھانا بنا کر رات گئے تک تمہارا انتظار کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اٹھ کر سیمو کے پاس گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بولا سےمو وہ کلاک دیکھ رہی ہو ۔ آج اس کلاک کا وقت ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ یہ فون دیکھ رہی ہو سیمو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ایک دوسرے کے دکھ فون کو نہیں سناتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سیمو وہ شیشے کی گڑیا دیکھ رہی ہو جس کے ہاتھ میں ستارے والی چھڑی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے یا تمہیں کبھی میز کنارے بیٹھ کر اس گڑیا سے باتیں نہ کرنی پڑیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری دنیا تم ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باقی سب پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کلاک بارہ بجے کا گیت سنا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھڑکیوں کے پردوں سے چاندنی چھن چھن کر آرہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونو ں میاں بیوی کمرے کے درمیان بغل گیر تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمرے کی ہر شے ان کے گرد رقص کر رہی تھی۔ ان کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ دروازے کی جھری سے دو بچوں کی آنکھیں ان دونوں کو دیکھ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کو بچے بھی باپ کا انتظار کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک بچے باہر کو دوڑ آئے اور ماں باپ کے گرد رقص کرنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گانے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساری دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاگل پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگلے دن میرو دفتر سے لوٹتے ہوئے پھر اس جوگی کا ناچ دیکھنے کے لیے رک گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسم خنک تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں زمین اور آسمان لب بہ لب ہوتے ہیں وہاں سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضا میں دو کبوتر چونچیں لڑا رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک کوئل گیت گا رہی تھی۔ اور کسی کو تلاش کر رہی تھی۔

انجن کا ہارن بجا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گاڑی اسٹیشن پر آ کر رکی ۔ خوبصورت کپڑوں میں ملبوس اک عورت دوڑتی ہوئی ہجوم کی طرف آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں نے اس کے لیے اس طرح راستہ بنایا جیسے دریائے نیل نے موسیٰ کی قوم کے لیے راستہ بنایا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ عورت جوگی کے قریب آئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین سے دو مٹھی مٹی بھر کر اپنے سر پر ڈالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اپنے کپڑوں کو مٹیالہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آستین پھاڑی ۔ جوگی کا ہاتھ پکڑا ۔ دونوں نے بازو فضا میں بلند کیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر جھکائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر ہلائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دائیں سے بائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائیں سے دائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیرتھپک تھپک کر رقص کرنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر دھننے لگے ۔ اب کی بار ایک گھنٹی جوگی جبکہ دوسری گھنٹی جوگن کے ہاتھ میں تھی۔ لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور فضا اِن الفاظ سے گونج رہی تھی

پاگل پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سب پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سب پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا والے سارے پاگل

میرو نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا کہ کوئل خاموش تھی اور اپنے ساتھی کے ساتھ اڑان بھر رہی تھی۔ اس نے گھڑی پر وقت دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ آٹھ بجے

تھے۔ یہ وقت کراچی سے آنے والی گاڑی کا تھا۔ وہ مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔