شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Sunday, February 12, 2006

حیدر قریشی

منزّہ یاسمین کا مقالہ ۔۔۔چند وضاحتیں

میرے ادبی کام کے بارے میں عزیزی منزہ یاسمین نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے سال 2000 ءتا2002 ءکے سیشن میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ میرے لیے یہ مقالہ کئی لحاظ سے خوشی اور اہمیت کا موجب ہے۔ایک یہ کہ میرے بارے میں یونیورسٹی لیول کا یہ پہلا کام ہوا، ایک اور یہ کہ اس کا تحقیقی اور علمی معیار اتنا عمدہ ہے کہ میرے دیکھے ہوئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالات سے بہتر ہے۔اس مقالہ کی تیاری میں پروفیسر ڈاکٹرشفیق احمد صدر شعبہ اردو و اقبالیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورخود ایک ذمہ دار نگران تھے تو عزیزی منزہ کے والد محترم ڈاکٹر انور صابر کی رہنمائی بھی منزہ کو میسر تھی۔میرے بہت دور جا کر پھر بہت قریب ہو جانے والے دوست نذر خلیق صاحب کے پاس میری کتابوں کا سیٹ بھی موجود تھا اور مجھ سے متعلق ایسا پرانا میٹر بھی محفوظ تھاجو خود جرمنی میں مجھے بھی دستیاب نہیں تھا، چنانچہ مطلوبہ مواد کی فراہمی میں عزیزی منزہ کو نذر خلیق صاحب کا مکمل تعاون بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ کی سہولت کے باعث عزیزی منزہ یاسمین مجھ سے رابطہ کر لیا کرتی تھیں۔میرے توسط سے انہیں میرے بعض عزیزوں اور دوست احباب تک رسائی میسر رہی اور وہ ان سے اپنی تحقیقی ضرورت کا میٹرحاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقالہ میری توقع سے کہیں زیادہ معیاری ثابت ہوا۔

کمپوزنگ کے دور میں جہاں بہت سی سہولیات مل گئی ہیں وہیں یہ بھی تجربہ میں آرہا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود کتابت کی غلطیاں راہ پا جاتی ہیں۔میں اپنی جن کتابوں کی کئی بار درستی کر چکا ہوں۔ان میں سے گیارہ کتابوں کی عوامی کلیات چھپ کر آئی تو احتیاط کے باوجود اس میں بھی کئی اغلاط سامنے آرہی ہیں۔عزیزی منزہ یاسمین کا مقالہ کتابی صورت میں چھپا ہے تو اس میں بھی اس قسم کی بعض اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ویسے تو اب ہر زبان کے سنجیدہ ادب کامستقبل خاصا مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ایسے میں تحقیق کا شعبہ تو مزید بُرے حال میں جائے گا۔پھر بھی مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے میڈیاکی موجودہ یلغار کے بعد لوگ پھر اسی طرح ادب کی طرف متوجہ ہوں جیسے چند عشرے پہلے تک ادب سے ان کا ربط ہوا کرتا تھا۔ایسا کچھ ہوا تو یقیناََ ادب کے لیے نیک فال ہوگا۔اردو ادب کے بھی اچھے دن آجائیں گے۔سو ان اچھے دنوں کی امید میں میرا جی چاہا کہ اپنے محقق دوستوں کے لیے زیادہ مشکلات کا موجب نہ بنوں۔سو عزیزی منزہ یاسمین کے مقالہ میں کتابت کی جن اغلاط کے باعث کچھ کنفیوژن پیدا ہو سکتا ہے ، ان میں سے جن کی طرف میرا دھیان گیا ہے، ان کی درستی(پروف ریڈنگ)کے طور پر یہ چند وضاحتیں پیش کر رہا ہوں۔خدا کرے کہ یہ مضمون چھپتے وقت ان وضاحتوں میں نئی اغلاط راہ نہ پا جائیں۔

کتاب کے صفحہ نمبر13 اور 23 پر میرے ایم اے اردو کرنے کا سال 1976 ءاور صفحہ نمبر182 پر 1974 ءدرج کیا گیا ہے۔ اصلاََ میں نے 1974 ءکا ایم اے کا امتحان دیا تھا لیکن اس سال اینٹی احمد یہ تحریک کے باعث پاکستان میں امتحانات نہیں ہوسکے تھے ۔1974 ءکے ایم اے کے سالانہ امتحان 1975 ءمیں منعقد ہوئے تھے۔یعنی سالانہ امتحان 1974 ءمنعقدہ 1975 ء۔

صفحہ نمبر37 پر میرے چوتھے شعری مجموعہدعائے دلکے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی شاعری 1993 ءکے وسط سے لے کر1994 ءتک کے عرصہ پر محیط ہے۔ یہاں 1994ءتک کی بجائے 1996 ءتک ہونا چاہیے تھا۔

صفحہ نمبر 41 پر میرے خاکوں کے مجموعہمیری محبتیںکے پاکستانی اور اولین ایڈیشن کا سال اشاعت 1996 ءدرج ہے۔عزیزی منزہ نے دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر درست لکھا ہے ۔لیکن جب موقعہ مل گیا ہے تو یہاں اپنے ہی ریکارڈ کی درستی کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ میری دو کتابیں میری محبتیں اوروزیر آغا۔عہد ساز شخصیت ایک ساتھ سال 1995 ءمیں چھپی تھیں۔ سعید شباب نے نایاب پبلی کیشنز خانپور کے زیر اہتمام دونوں کتابیں چھاپی تھیں۔دونوں کتابوں کا کاغذ، جلد اور کور ایک سا ہے۔مضامین والی کتاب پر سال 1995 ءچھپا ہے لیکن میری محبتیں پر غلطی سے سال 1996 ءچھپ گیا ۔میری محبتیں کی اشاعت کا سال1995 ءہونے کی تصدیق ان دو کتابوں سے بھی ہوجاتی ہے۔

1 ۔انٹرویوز مرتب سعید شباب اس میں سلطانہ مہر کے سوالوں کے جواب میں میں نے اپنے مجموعہ ہائے کلام کے طور پر تب تک کی مطبوعہ چار تخلیقی کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ان میں میری محبتیںکا نام شامل ہے۔اس تحریری انٹرویو کو میں نے 20 ستمبر1995 ءکو مکمل کر کے بھیجا تھا۔اور اس تاریخ کا سعید شباب کی کتاب کے مذکورہ انٹرویو کے آخر میں صفحہ 45 پرنوٹ درج ہے ۔

2 ۔ سخنور مرتبہ و مصنفہ سلطانہ مہر اس میں صفحہ نمبر 131 پر میرے آٹو گراف کے ساتھ میرے ہاتھ سے20.9.95 کی تاریخ درج ہے، جو سعید شباب کی کتاب کے نوٹ کی تصدیق کرتی ہے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر134 پر سلطانہ مہر صاحبہ نے میری مطبوعہ کتابوں میں میری محبتیں کا نام لکھاہوا ہے ۔اس لیے مستقبل بعید کے کسی محقق کی سہولت کے لیے تحریر ہے کہ میری محبتیںکے پہلے اور پاکستانی ایڈیشن کی اشاعت کا سال 1996 ءنہیں بلکہ1995 ءہے۔

صفحہ نمبر 41 پر ہیمیری محبتیں کے دوسرے ایڈیشن کے سلسلے میں لکھا ہے کہ یہ 1997 ءمیں معیار پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا۔اصلاََ یہ ایڈیشن1998 ءمیں چھپا تھا ۔ خود منزہ یاسمین کے مطبوعہ مقالہ کے صفحہ نمبر164 پر بھی درست سن درج ہے۔

صفحہ نمبر 42 پر ڈاکٹر رضیہ حامد کا نام ڈاکٹر رضیہ جامد چھپ گیا ہے۔ اردو میں ایک نقطے کی کرمفرمائیوں پر پہلے ہی بہت کچھ کہاجا چکا ہے۔یہاں اتنی وضاحت کافی ہے۔

صفحہ نمبر 50 پر میری کتاب اردو میں ماہیا نگاریکے انتساب کو نقل کیا گیا ہے اور اس میں گلوکار محمد رفیق کا نام لکھا گیا ہے۔اصل کتاب میں گلو کار محمد رفیع درج ہے۔

صفحہ نمبر64 پر میری شعری کلیات غزلیں، نظمیں، ماہیے کے حوالے سے میرا ایک شعر درج کیا گیا ہے۔

یہ عشق و شوق یہ ساری محبتیں حیدر مجھے تو سب ترے دل کا فتور لگتا ہے

مذکورہ کتاب میں بے شک یہ شعر اسی طرح درج ہے لیکن یہ کتابت کی غلطی سے ایسا ہوا ہے۔اصل شعر میں عشق و شوقکی جگہعشق وِشقکے الفاظ ہیں۔یہ غزل میرے پہلے شعری مجموعہسلگتے خوابکے صفحہ نمبر 49 پر درست الفاظ میں شامل ہے۔

صفحہ نمبر101 پر ماہیوں کے مجموعہمحبت کے پھول کا سال اشاعت 1992 ءلکھا گیا ہے، جبکہ یہ مجموعہ 1996 ءمیں شائع ہوا تھا۔

صفحہ نمبر178 پر کھٹی میٹھی یادیں کی دس قسطیں بیان کی گئی ہیں۔اُس وقت تک یہ تعداد ٹھیک تھی۔لیکن اس کے بعد میں نے مزید قسطیں بھی لکھ لی تھیں اور اب یادوں کی یہ کتاب تیرہ قسطوں یا تیرہ ابواب کے ساتھ میری کلیاتعمرِ لاحاصل کا حاصلمیں شامل ہے۔

صفحہ نمبر212 پر کتاباردو ماہیے کے بانی، ہمت رائے شرماکے صفحات کی تعداد72 لکھی ہے۔کتاب مذکورہ کے صفحات کی تعداد76 ہے۔

کتاب میں میرے بارے میں مختلف دوستوں کے تاثرات اور خود منزہ یاسمین کی رائے ان سب کا حق ہے اور مجھے خوشی ہے کہ عمومی طورپر سب کا رویہ منصفانہ اور دوستانہ کے بین بین رہاہے۔کہیں کوئی اختلافی بات ہے بھی تو اس کا حق ہر رائے دہندہ کو حاصل ہے۔تاہم یہاں صرف دو حوالوں کی درستی کرنا ضروری ہے۔

1 ۔صفحہ نمبر 26 پر منزہ یاسمین نے لکھا ہے کہ وزیر آغا گروپ سے منسلک ہونے کے باعث نہ تو کبھی میری کوئی تحریر احمد ندیم قاسمی کے رسالہ فنونمیں چھپی اورنہ ہی جدید ادب میں احمد ندیم قاسمی کی کوئی تحریر چھپی ہے۔اس سلسلے میں وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ وزیر آغا صاحب کے ساتھ میراتعلق فکری ربط کا تھا۔اس سلسلے میں کچھ تفصیل اس خاکے میں دیکھی جا سکتی ہے جو میری کتابمیر ی محبتیںمیں شامل ہے۔جو مجموعی تاثر ابھارا گیا ہے کسی حد تک درست ہے ، تاہم شروع میں قاسمی صاحب نے جدید ادب کے لیے اپنی غزل عنایت کی تھی اور اسے جدید ادب میں شائع کیا گیا تھا۔ ثبوت کے طور جدیدادبخانپور کے شمارہ نمبر5 ، مطبوعہ جولائی 1979 ءکا حوالہ دے رہا ہوں۔اس کے صفحہ نمبر 4 پر قاسمی صاحب کا یہ خط چھپا ہوا موجود ہے: آپ باہمت ہیں کہ ادب کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں اتنے بلند ارادے رکھتے ہیں۔حسبِ وعدہ ایک غزل جدید ادب کے لیے پیش کر رہا ہوں، قبول کیجئے۔میں نے تو گزشتہ تین چار ماہ میں کسی رسالے کو کوئی چیز نہیں بھجوائی۔اسی رسالے کے صفحہ نمبر70 پر قاسمی صاحب کی غزل بھی شامل کی گئی ہے۔اس فروگزاشت میں اصل قصور میرے دوست سعید شباب کا ہے۔ان کے پاس جدید ادب کی مکمل فائل موجود تھی۔میں نے انہیں کہا تھا کہ پوری فائل عزیزی منزہ کو فراہم کر دیں لیکن وہ اپنی مصروفیات یا سستی کی وجہ سے یہ کام بر وقت نہیں کر سکے۔اگر انہوں نے پوری فائل فراہم کر دی ہوتی تویہ سہو بلا ارادہ راہ نہ پاتا۔

2۔صفحہ نمبر 238 پر میرے تھوڑے بہت سرائیکی کام کو سراہتے ہوئے عزیزی منزہ نے میری مادری زبان سرائیکی بیان کی ہے۔یہ بھی سہو بلا ارادہ ہے۔میرے خاکوں اور یادوں میں بڑی صراحت سے لکھا ہوا موجود ہے کہ میری والدہ پنجابی تھیں ، سو میری مادری زبان پنجابی ہے، لیکن چونکہ میرے والد سرائیکی تھے ، اس لیے میں نسلاََ سرائیکی ہوں۔ویسے سرائیکی اور پنجابی زبانیں اپنے واضح لسانی فرق کے باوجود ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں اور اب تو ان میں سے کوئی ایک زبان جاننے والا دوسری زبان کی بات آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔

صرف تحقیقی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے یہ وضاحتیں کی ہیں۔منزہ یاسمین کی محنت، ڈاکٹر انورصابر کی ذاتی دلچسپی، پروفیسر ڈاکٹرشفیق احمد کی محبت آمیز نگرانی اور برادرم نذر خلیق کی توجہ کے لیے میں ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔اور اپنی شروع میں لکھی بات کو پھر یہاں دہراتا ہوں کہ عزیزی منزہ یاسمین نے بلاشبہ اتنی محنت کی ہے کہ یہ ایم اے اردوکا مقالہ ہوتے ہوئے بھی پی ایچ ڈی کے کئی مقالات سے زیادہ معیاری ہے ۔ اور اس مقالہ کالکھا جانا اور اشاعت پذیر ہونا میرے لیے بڑا اعزاز ہے۔