پروفیسر غفار بابر
بن کے آیا جو تیرے گھر کا بھکاری، میں تھا
جس نے جھولی ترے آگے ہے پساری ، میں تھا
تیرے ہونٹوں کے تبسم میں چھپا تھا میں ہی
اشک بن کر تری آنکھوں سے بھی جاری ، میں تھا
جو تصور سے بھی بےزار تھی میرے تُو تھی
جس نے تصویر تری دل میں اُتاری میں تھا
یہ بھی سچ ہے مرے اعصاب پہ اب وہ ہے سوار
یہ بھی سچ ہے کبھی اعصاب پہ طاری میں تھا
مجھ سے چھپ کر وہ مرے شعر پڑھا کرتی تھی
جس کے چہرے کا بڑے شوق سے قاری میں تھا
موسمِ عشق کی رونق تھی ہمارے دم سے
فصلِ گل وہ تھی اگر ، بادِ بہاری میں تھا
میں نے جاں دے کے کہا اپنا نبھایا بابر
کون کہتا تھا اُسے جان سے پیاری، میں تھا