افضل گوہر
جئیں تو کیسے جئیں تہمتِ چراغ کے ساتھ
یہاں تو دل بھی جلائے گئے دماغ کے ساتھ
یہ سارے سوکھے ہوئے پیڑ سبز ہوتے تھے
کبھی گزرتی تھی اک نہر میرے باغ کے ساتھ
تمام شہر خجل ہے نجانے کس پہ گرے
یہ ایک کانچ کی دیوار اپنے داغ کے ساتھ
بہت اڑایا گیا تیرگی کا گرد و غبار
تبھی تو جالے لگے ہیں یہاں چراغ کے ساتھ
کسی سے عشق کوئی کھیل تو نہیں گوہر
سو دل کا سوچنا پڑتا ہے اب دماغ کے ساتھ