طالب انصاری
قریۂ سنگ میں آئینہ گری کرتا ہوں
جو مرے دل میں سما جائے وہی کرتا ہوں
ایک عادت سی ہے مشکل میں پڑے رہنے کی
راہِ ہموار میں دیوار کھڑی کرتا ہوں
کتنے لمحے مرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں
میں جو اک لمحہ پکڑنے کی سعی کرتا ہوں
اہلِ دنیا سے محبت تو نہیں ہو سکتی
یہ بھی کیا کم ہے کہ نفرت میں کمی کرتا ہوں
جو ضروری ہو وہ رہ جاتا ہے کرنے والا
ویسے کرنے کو تو میں کام کئی کرتا ہوں
درسِ اثبات اسی بات سے سیکھا میں نے
ماسوا تیرے ہر اک شے کی نفی کرتا ہوں
جانتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے پھر بھی
جانے کیوں تجھ کو بھلانے کی سعی کرتا ہوں
لوحِ دل پر کبھی مٹی نہیں جمنے دیتا
آبِ گریہ سے اسے دھو کے نئی کرتا ہوں
دربدر پھرتا ہوں تعبیر کی خاطر طالب
خوابِ مظلوم کی یوں داد رسی کرتا ہوں