شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Tuesday, March 07, 2006

سید معرفت ہمدانی

خدا بولتا یا بشر بولتا ہے
یہ نیزے پہ چڑھ کر جو سر بولتا ہے
کوئی طالبِ امن سے جا کے کہہ دے
پسِ خامشی اب خطر بولتا ہے
اے میرے مخالف تری دھمکٰوں میں
مری سمت سے کوئی ڈر بولتا ہے
یہ بکھرے ہوئے خشک پتے زمیں پر
کسی بے ہنر کا ہنر بولتا ہے
یہ سوکھی ہوئی گھاس کے چار تنکے
انہیں بھی کوئی اپنا گھر بولتا ہے
کوئی گرد آلود چہرے تو دیکھے
ہر اک خال و خد میں سفر بولتا ہے
مری سانس میں معرفت لمحہ لمحہ
کسی کی دعا کا اثر بولتا ہے