سید معرفت ہمدانی
خدا بولتا یا بشر بولتا ہے
یہ نیزے پہ چڑھ کر جو سر بولتا ہے
کوئی طالبِ امن سے جا کے کہہ دے
پسِ خامشی اب خطر بولتا ہے
اے میرے مخالف تری دھمکٰوں میں
مری سمت سے کوئی ڈر بولتا ہے
یہ بکھرے ہوئے خشک پتے زمیں پر
کسی بے ہنر کا ہنر بولتا ہے
یہ سوکھی ہوئی گھاس کے چار تنکے
انہیں بھی کوئی اپنا گھر بولتا ہے
کوئی گرد آلود چہرے تو دیکھے
ہر اک خال و خد میں سفر بولتا ہے
مری سانس میں معرفت لمحہ لمحہ
کسی کی دعا کا اثر بولتا ہے