حصیر نوری
موم مت جان مجھے میرا پگھلنا مشکل
میں وہ پتھر کہ کسی سانچے میں ڈھلنا مشکل
ایک وہ وقت کہ میں گھر میں رہوں ناممکن
ایک یہ وقت کہ اب گھر سے نکلنا مشکل
دوست دشمن کو بھلا کیسے سمجھ پاؤں میں
ایسا طوفاں کہ کسی دیپ کا جلنا مشکل
کوئی موسم ہو مگر ہم سے چمن زادوں کا
ریت کیسی ہی سہی رےت پہ چلنا مشکل
ابر آلود فضاؤں میں گھرے ہیں افلاک
ایسے موسم میں ہے سورج کا نکلنا مشکل
فکر آزاد سہی جسم تو آزاد نہیں
قید ایسی ہے کہ پہلو کا بدلنا مشکل
ہر قدم ایک نیا حادثہ برپا ہے حصیر
ایسا عالم ہے کہ دو گام بھی چلنا مشکل
ڈاکٹر افتخار بیگ
چاندنی رات میں پائل کی چھنک باقی ہے
میرے صحرا میں ستاروں کی چمک باقی ہے
دل بچھا جائے ہے اُس راہ پہ جس پر تیرے
سرد قدموں کے نشانوں کی دھنک باقی ہے
من کے مندر میں ہے سناٹا نجانے کب سے
پر مری یاد میں چوڑی کی کھنک باقی ہے
جو مرے من میں مچلتی ہے کہیں صدیوں سے
دل دریچوں میں ابھی تک وہ لشک باقی ہے