شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Tuesday, March 07, 2006

حصیر نوری

موم مت جان مجھے میرا پگھلنا مشکل

میں وہ پتھر کہ کسی سانچے میں ڈھلنا مشکل

ایک وہ وقت کہ میں گھر میں رہوں ناممکن

ایک یہ وقت کہ اب گھر سے نکلنا مشکل

دوست دشمن کو بھلا کیسے سمجھ پاؤں میں

ایسا طوفاں کہ کسی دیپ کا جلنا مشکل

کوئی موسم ہو مگر ہم سے چمن زادوں کا

ریت کیسی ہی سہی رےت پہ چلنا مشکل

ابر آلود فضاؤں میں گھرے ہیں افلاک

ایسے موسم میں ہے سورج کا نکلنا مشکل

فکر آزاد سہی جسم تو آزاد نہیں

قید ایسی ہے کہ پہلو کا بدلنا مشکل

ہر قدم ایک نیا حادثہ برپا ہے حصیر

ایسا عالم ہے کہ دو گام بھی چلنا مشکل

ڈاکٹر افتخار بیگ

چاندنی رات میں پائل کی چھنک باقی ہے

میرے صحرا میں ستاروں کی چمک باقی ہے

دل بچھا جائے ہے اُس راہ پہ جس پر تیرے

سرد قدموں کے نشانوں کی دھنک باقی ہے

من کے مندر میں ہے سناٹا نجانے کب سے

پر مری یاد میں چوڑی کی کھنک باقی ہے

جو مرے من میں مچلتی ہے کہیں صدیوں سے

دل دریچوں میں ابھی تک وہ لشک باقی ہے