شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

قفا نبک سے ”رکو کہ رو لیں “تک

صوفی عبدالرشید

(1)

یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا کوئی سال تھا، آج کے پروفیسر ڈاکٹر ارشاد احمد شاکر اُس وقت شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج ہریپور میں میرے رفیقِ کار تھے۔یہ ہریپور بلکہ پورے ہزارے میں ادبی سرگرمیوں کا دورِ عروج تھا ۔آئے دن کہیں نہ کہیں شعرائے ادب کی محفلیں بپا رہتیں ۔ شاکر صاحب کا کردار اُن میں خاصا فعال تھا۔بفہ مانسہرہ میں ادارہ علم و فن کے زےیرِ اہتمام انہوں نے بعض یادگارادبی تقاریب کا انعقاد کیا تھا۔اُن کی رہنمائی میں کئی نوجوان شعرگوئی اور نثر نویسی کی کامیاب مشق کر رہے تھے۔اُن میں اکرام جمالی بطورِ شاعر بڑی تیزی سے پختگی کی جانب بڑھ رہے تھے۔شاکر صاحب کی وساطت سے ہریپور میں اُن سے ملاقات ہوئی ۔چہرے مہرے اور طور اطوار سے سعادت کے آثار ہویدہ تھے ، گفتگو میں ذہانت کا رنگ تھا، وجاہت خاندانی تھی ، ذوقِ علم ورثے میں پایا تھا۔شعر گوئی کا ملکہ فطری تھا ۔حضرت جمال الدین افغانی سے نسبی تعلق کے باعث جمالی کہلائے ۔دینی تعلیم گھر پر ہوئی ، دنیوی علوم کی تحصیل پر متوجہ ہوئے تو چونکہ آدمی ذہین و فطین ہیں ، بہت جلد تعلیم کے جملہ مراحل طے کر لئے ۔اس میں اُن کی محنت کو بھی دخل ہے ۔پاکستان ٹیلی وژن میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور وہاں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ساتھ ساتھ اُردو شاعری بھی کرتے رہے۔1991ءمیں نظم و غزل پر مشتمل مجموعہ کلام ”دھوپ دھوپ صحرا“ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا ۔ادبی موضوعات پر انگریزی روزنامے ڈان میں کالم بھی لکھتے ہیں ۔ ہفت زبان ہیں ۔پشتو اور ہندکو گھر اور علاقے کی زبانیں ہیں ۔اُن سے پیدائشی اور خلقی رشتہ ہے۔اُن کے علاوہ اردو ، فارسی ، عربی ، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ان زبانوں میں علوم و آداب کے بے بہا خزانوں سے انہوں نے بقدرِ توفیق استفادہ بھی کیا ہے ۔جس کے اثرات اُن کے کلام میں جابجا نظر آتے ہیں ۔اُن کے ہاں اسلوب کی استواری اور اصولِ فن کی پاسداری روایاتِ سخن کے بحرِ شعور کی غماز ہے۔تجربات ِ ذات و مشاہدات و حیات کو نئے اور نادر رنگ و آہنگ میں جلوہ گر کرنے کی کوشش بھی اُن کے کلام میں کارفرما ہے۔

(2)

ایک جاہلی عرب شاعر کی بابت حضور رسالت مآب کا یہ ارشاد گرامی ناقدانہ بصیرت کا بے مثال شہکار ہے ۔

(ترجمہ):وہ شاعروں کا سردار ہے اور دوزخ کی جانب اُن کا رہنما بھی۔

شاعروں کا سردار یوں کہ فنِ شاعری میں اُس کے دور کا کوئی دوسرا سخن ور اُس کے کمال کو نہیں پہنچ سکا ۔دوزخ کی جانب اُن کا رہنما بدیں معنی کہ اُس نے عورتوں سے اختلاط کے بیان میں واشگاف گوئی اور عریاں سرائی کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔اپنے موضوع میں یہ شاعری انسانی تہذیب و تمدن کو اعلیٰ اقدارِ حیات سے بےگانہ کرنے اور عام اخلاقی انارکی اور افراتفری پھیلانے میں معاون ہوتی ہے ۔اسی نوع کی شاعری کو قرآنِ حکیم نے رد کیا ہے ۔اس ضمن میں اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو علامہ اقبال کا مقالہ ”حضورِ رسالت مآب کا ادبی تبصرہ“دیکھئے۔جس شاعر کے بارے میں آنحضرت نے محولہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے ، وہ امراءالقیس تھا کہ سبع معلقات میں جس کا قصیدہ اولیّت کا مقام رکھتا ہے۔یہ وہ سات قصیدے تھے جنہیں امتیازاتِ فن کے اعتبار سے سونے کے پانی سے لکھوا کر خانہ کعبہ میں آویزاں کیا گیا تھا۔اسی وجہ سے وہ معلقات یا منظوماتِ آویزاں کہلاتے ہیں ۔یہ منتخب قصیدے قبلِ اسلام عربی شاعری کا ست یا جوہر ہیں ۔جو محاسنِ فن کے اعلیٰ معیار کا نمونہ بھی ہیں اور عرب کے اجتماعی اوضاع و اعتبار کے ترجمان بھی ۔اکرام جمالی اُن کے منظوم اردو ترجمے پر کمر بستہ ہوئے ہیں جو یوں کہیے ہفت خوان طے کرنے کا عمل ہے اور بڑی جرأت و ہمت کا متقاضی ہے۔اس سلسلے کی پہلی کڑی ”رکو کہ رو لیں “امراءالقیس کے معلقے کا ترجمہ ہے جوکتابی صورت میں آج سے تین برس قبل اپریل دو ہزار دو میں شائع ہوا تھا۔اور اپنے چند در چند خصائص کی بنا پر اربابِ ادب میں پذیرائی کا مستحق قرار پایا تھا۔

(3)

امراءالقیس ذوالقروح جندح بن حجربن عمرو الکندی شاہانِ کند ہ سے نسبی تعلق رکھتا تھا۔ماں کلیب اور مہلہل بن ربعیہ کی بہن تھی۔اُس کے بزرگوں نے نجد میں ریاست قائم کی تھی ۔شہزادہ تھا، ناز و نعمت میں پرورش پائی، جوان ہوا تو عیش و عشرت کو شعار بنا دیا ۔عورت اور شراب سے گہرا تعلق پیدا کیا۔مؤلف تاریخ الادب العربی استاد احمد حسن زیات کے الفاظ میں

(عربی سے اردو ترجمہ) اُس نے بے راہ روی کی زندگی گزاری ۔کثرت سے شراب پیتا ، عورتوں سے عشق بازی کرتا ، لہو لعب کا دلدادہ تھااور شعر کہتا تھا۔

(تاریخ الا دب العربی استاد احمد زیات ۔صفحہ 37مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی۔)

باپ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا ۔فاطمہ (عنیزہ) سے کہ اُس کی پھوپھی زاد تھی ، اظہارِ عشق میں ایک تشبیب کہی اور باپ کے عتاب کا نشانہ بنا اور گھر سے نکلنا پڑا۔اُس کا بیشتر وقت اب عرب کے اوباشوں اور گھٹیا درجے کے لوگوں میں گزرتا ۔یہ لوگ صحرا میں جابجا گھومتے پھرتے ۔جہاں کہیں کوئی سرسبز خطۂ زمین اور پانی کا جوہڑ نظر آتا ، وہیں خیمے گاڑ لیتے ۔اور عیش و نشاط کی مجالس برپا کر دیتے ۔شراب کے پے بہ پے دور چلاتے اور جی کھول کر ہوس رانی کرتے ۔تا آں کہ جوہڑ کا پانی سوکھ جاتا اور سبزہ خشک ہو جاتا۔ پھر ایسے ہی کسی اور مقام کی تلاش میں رخت ِ سفر باندھ لیتے۔گھر کا نہ رہا تو امراءالقیس نے دشت خرامی اور صحرا نوردی سے مستقل رشتہ قائم کر لیا۔رہگزاروں کی خاک چھانتا اور جہاں نخلستان یا چشمۂ آب نظر آتا وہاں بسیرا لینے ٹھہر جاتا ۔اپنی شاعری میں اُس نے اُن مقامات کا ذکر کیا ہے جن سے وہ عالمِ آوارگی میں گزرا ہے۔ان مقامات سے وابستہ ان وارداتِ شور و شوق کی یادیں بھی ہیں جن کے بیان میں وہ جذباتِ ہوا و ہوس کوبگٹٹ چھوڑ دیتا ہے اور شرم و حیا کے جملہ تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے عورتوں سے اختلاط کے واقعات کو اُن کی جزیات کے ساتھ معرضِ سخن میں لاتا ہے۔اُس کی عریاں بیانی کا شہکار اُس کا معلقہ ہے۔

ابنِ قتیبہ کہتا ہے امراءالقیس اہلِ نجد سے ہے ، جن آثار و دیار کا اُس نے ذکر کیا ہے وہ بنو اسد کے ہیں ۔اُس کا باپ بنو اسد کا بادشاہ تھااور اُن سے ٹیکس لیا کرتا تھا۔ایک دفعہ انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تو وہ اُن کی طرف گیا اوراُن کے سرداروں کو پکڑ کر خوب مارا ۔اس سے عبید العصا مشہور ہو گیا۔

(الشعر الشعراءلا بن قتیبہ جلد اول اردو ترجمہ از پروفیسر عبدالصمد صارم الازہری صفحہ 83مطبوعہ ادارہ علمیہ۔نئی انارکلی لاہور)

بنو اسد کے اسیروں میں عبید الابرص بھی تھا۔جب وہ لوگ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے یہ شعر پڑھے ۔

ترجمہ:اے آنکھ اشک بار ہو بنی اسد پر جو نادم ہیں ، جو سرخ قبوں والے ، بہت چوپایوں والے اور شراب والے ہیں ۔رک جا تُو ذلت کا انکار کر دے۔ٹھہر جا تُو نے بڑی سخت بات کی ہے ۔یثرب کی وادیوں اور یمامہ کے محلات میں مصیبت زدوں اور جلائے ہووں کی چیخ و پکار ہے ۔اور اُلو کی آوازیں ہیں ، تُو اُن کا بادشاہ ہے اور وہ تا قیامت تر ے غلام ہیں ۔(الشعر الشعراءاردو ترجمہ از پروفیسر صارم الازہری )

بادشاہ نے رحم کھایا اور انہیں چھوڑ دیا۔وہ تہامہ سے ایک دن کے فاصلے پر تھے ، اُن کے کاہن عوف بن ربیعہ اسدی نے کہا ، ”اے میرے بندو! انہوں نے کہا ہم حاضر ہیں اے پروردگار۔اُس نے کہا، ”سرخ بالوں والا جبار بادشاہ کون ہے جو اونٹوں میں سانڈ کی ماند ہو اور جس پر شور و شغب کا اثر تک نہ ہو ، میں اُس کا خون بہتا دیکھتا ہوں ، وہ کل صبح لوٹ جائے گا ۔“انہوں نے پوچھا ، ”اے پروردگار ! وہ کون شخص ہے ؟“وہ بولا ، ”حجر!“بنی اسد فی الفور سوار ہوئے اور آن کی آن میں حجر کے گھر پہنچ گئے ۔ابھی صبح نہیں ہوئی تھی ، وہ دنیا و مافیھا سے بے خبر خوابِ شیریں کے مزے لے رہا تھاکہ وہ اس پر جھپٹ پڑے اور پلک جھپکتے میں اُسے تہہ تیغ کر دیا۔وہاں سے فرار ہوتے وقت حجر کی اونٹنیاں بھی بھگا لے گئے۔امراءالقیس دمون میں تھا کہ اُسے باپ کے قتل کی اطلاع ملی ۔ہرچند کہ باپ نے اُسے خانہ بدر کر رکھا تھا مگر باپ آخر باپ ہے ، وہ اس کا بہیمانہ قتل کیسے برداشت کر سکتا تھا۔غیرت کا اقتضا بھی تھا کہ وہ حجر کے قاتلوں سے انتقام لے ۔آنکھوں میں خون اتر آیا ، قسم کھائی کہ جب تک بنو اسد سے اس قتل کا بدلہ نہ لے لوں گا ، نہ گوشت کھاؤں گا نہ شراب پیوں گا۔اس موقع پر اُس نے یہ شعر کہے۔

ترجمہ: ” دمون میں رات لمبی ہو گئی ۔اے دمون ! ہم یمنی ہیں اور ہم اپنے خاندان سے محبت کرتے ہیں ۔

یہاں اُس نے ایک جملہ کہا کہ جس کے لفظ لفظ سے اُس کا دردِ دل چھلکا پڑتا ہے۔

ترجمہ:”میرے باپ نے مجھے چھوٹی عمر میں گنوا دیا اور بڑی عمر میں اپنے خون کا بدلہ مجھ پر چھوڑ گیا۔

رات ہوئی ، بجلی چمکی تو اُس نے یہ منظر دیکھ کر شعر کہے:

ترجمہ:”رات بجلی کوندی ، میری نیند اچاٹ ہو گئی ، بجلی پہاڑ کی بلندیوں پر چمک رہی تھی ۔بنو اسد نے اپنے مربی کو قتل کر لیا۔اب ہر صدمہ اُس صدمے کے آگے ہیچ ہے۔

(بحوالہ اشعرالشعراءابن قتیبہ و تاریخ الادب العربی زیات)

اُس نے بکر بن وائل پر حملہ کیا ۔یہ لوگ بنو کنانہ کے ہاں پناہ گزین تھے ۔بنی اسد کے بنو کاہل بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس موقع پر اس نے کہا :

ترجمہ”حیف کہ بنو کاہل بچ گئے ۔انہوں نے ایک جبار بادشاہ کو قتل کردیا ہے ۔بخدا میرے باپ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔تاللہ لا یذھب شیخی باطلاً۔

امراءالقیس اس حملے میں ناکام ہوا مگر اُسے فتح کا دعویٰ تھاجسے تسلیم نہیں کیا گیا۔عبید کا قول ہے :”اے ہمیں ہلاکت و ذلت سے ڈرانے والے تیرا باپ مارا گیا ہے ، تُو اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے کہ تُو نے ہمارے سردار کو قتل کر دیا ہے۔“اب وہ دربدر کی خاک چھانتا عرب قبائل سے مدد طلب کرتا پھرا۔مگر کہیں سے اسے خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔بالآخر کسی تدبیر سے اُسے قیصرِ روم تک رسائی حاصل ہو گئی ۔یہاں عجیب واقعہ یہ ہوا کہ قیصر کی بےٹی اُس کی محبت میں مبتلا ہو گئی۔دونوں میں خاصا میل ملاپ ہونے لگا۔لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک کسی کے چھپائے کہاں چھپتے ہیں ، بنتِ قیصر سے ملاقات ہر چند کہ خفیہ تھی مگر کسی ذریعے سے اس کی اطلاع طماح بن قیس اسدی کو ہو گئی ۔اُس کے باپ کو حجر نے قتل کیا تھا۔اب انتقام کا موقع تھا۔چنانچہ اُس نے قیصر کو اس وارداتِ عشق سے آگاہ کر دیا ۔امراءالقیس سخت خوفزدہ ہوااور وہاں سے بھاگ نکلا ۔وہ انقرہ میں تھاکہ قیصر کا قاصد اُسے واپس لانے کے بہانے وہاں پہنچا ، اُسے ایک خلعت دیا کہ زہر میں بجھا ہوا تھا، جس کے پہنتے ہی اُس کا سارا بدن پھٹ گیا اور جسم کا بندھ بندھ جدا ہو گیا ۔اسی عالم میں اُس کی موت واقع ہوئی ۔مرتے وقت اُس نے یہ شعر کہے۔

ترجمہ:”کتنے عمدہ خطبے اور کیسے شاندار وار اور کیسے بھرے لگن کل انقرہ میں رہ جائیں ۔بحوالہ اشعرالشعراءابنِ قتیبہ اُردو ترجمہ پروفیسر عبد الصمد صارم الازہری (

مؤلف تاریخ الادب العربی کے مطابق امراءالقیس497عیسوی سے 545عیسوی(130قبلِ ہجرت سے 80 قبلِ ہجرت تک(زندہ رہا۔یوں اُس کی مدتِ حیات اڑتالیس پچاس برس ہوتی ہے۔اُسے معاصر شعراءسے شاعرانہ معرکے بھی درپیش رہے۔ایک دلچسپ معرکہ وہ ہے جو امراءالقیس اور علقمہ بن عبدہ میں پیش آیا۔امراءالقیس اور علقمہ بن عبدہ میں سے ہر ایک کو شاعری میں اپنی بڑائی کا دعویٰ تھا۔دونوں میں ایک روز بحث چھڑ گئی کہ ہم میں سے بڑا شاعر کون ہے۔علقمہ نے کہا میں تمہاری بیوی امِ جندب کو حاکم بناتا ہوں ، وہ جو فےصلہ کرے گی اُسے ہم دونوں مان لیں گے۔امِ جندب نے کہا کہ تم دونوں ایک ہی قافیے اور ایک ہی ردیف میں قصیدہ کہو اور اس میں عمدہ گھوڑے کی صفات بیان کرو۔چنانچہ دونوں نے اشعار کہے ، دونوں کی شاعری سن کر اُمِ جندب نے فےصلہ سنایا کہ علقمہ امراءلقیس سے بڑا شاعر ہے ۔امراءالقیس نے پوچھا اس ترجیح کی وجہ کیا ہے تو اُس کی بیوی نے جواب دیا کہ تم نے کہا ہے کہ کوڑے مار مار کر اور ڈانٹ کر میں نے گھوڑے کو قابو میں کیااور علقمہ کا گھوڑا بغیر کسی کوڑے اور ڈانٹ کے ہوا سے باتیں کرتا ہوا نکل گیا۔یہ سن کر امراءالقیس نے کہا کہ علقمہ ہر گز مجھ سے بڑا شاعر نہیں ہو سکتا ، تم اُس پر عاشق ہو گئی ہو ۔پھر اُس نے اُمِ جندب کو اس غصے میں طلاق دے دی۔

( بحوالہ الموشح تالیف علی مرزبانی ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کا مقالہ عربی زبان میں ادبی تنقید کی روایت۔مشمولہ مجلہ نقوش لاہور سالنامہ 1990)

(3)

گو کہ اس اعزاز میں ایک دو نام اور بھی آتے ہیں لیکن از خلف تا سلف اکثر اربابِ فن کی یہ رائے ہے کہ جاہلی شعراءمیں سب سے بڑا شاعر امراءالقیس ہے۔عربی ادب کی تواریخ اور نقد و انتقاد کے موضوع پر تالیف ہونے والی کتابوں میں آشنایانِ فن کی آراءنقل ہوئی ہیں ۔جن سے میں بہ خوفِ طوالت صرفِ نظر کرتا ہوں اور بحیثیتِ شاعر ان امتیازات کی بابت گفتگو پر اکتفا کرتا ہوں جو اہلِ جاہلیت کی شاعری میں امراءالقیس کو حاصل ہیں ۔قدیم عربی شاعری کی مقبول ترین صنف قصیدہ تھی ۔مختلف اور متنوع موضوعات اسی کے وسیلے سے اظہار پاتے تھے ۔مدح ، ذم، رثا، رزم، غزل و تغزل، وقوع گوئی و منظر کشی ، شکایتِ دوراں اور کئی دیگر موضوعات کے بیان کا یہی وسیلہ تھا ۔اُس کے متعین اصول تھے جن کی پابندی شعراء پر لازم تھی ۔امراءالقیس چند در چند خصوصیات کی بناءپر جاہلی عرب میں اس صنف کا شاعرِ اعظم قرار پاتا ہے۔اس کی طبع ایجاد پسند نے شاعری میں نوع بنوع جدتیں پیدا کیں ۔جن سے ناقدینِ ادب نے اعتناء برتا ہے ۔اور دل کھول کر اس کے اکتساباتِ ہنر کی تحسین کی ہے۔استاد احمد زیات کے بقول ، ”وہ پہلا شخص تھا کہ ٹیلوں پر ٹھہرا اور دیارِ حبیب کی یاد میں رویا۔“ابنِ قتیبہ کہتا ہے ، ”امراءالقیس نے بہت سی جدتیں کی ہیں اور اہلِ عرب نے اُن کو پسند کیا اور لیا ہے ۔چنانچہ اُس کے قربِ ماخذ ، رقتِ کلام اور دیارِ حبیب پر دوستوں کے ٹھہرانے کو سب نے پسند کیا ہے۔(الشعرالشعرائے)

اسی سے ملتی جلتی باتیں دوسرے فن شناسوں نے بھی کی ہیں ۔ٹیلے یا کھنڈر پر رک کر اُس سے وابستہ ماضی کی یادوں کو دوہرانے اور تازہ کرنے کی روایت میں قدیم عربی شاعر ی میں مستحکم اور مستقل حیثیت حاصل کر لی اور قصیدے کی تشبیب کا جزوِ اعظم قرار پائی۔عہدِ رسالت و دورِ صحابہ اور اموی و عباسی اور مابعد کے ادوار کی قصیدہ گوئی میں اسے ناگزیر سمجھ کر اختیار کیا گیا۔نعتیہ قصائد تک کا اہتمام ہوا۔حضرت امام بوصیری کے شہرۂ آفاق و لازوال قصیدہ بردہ میں بھی ”ذی سلم“ کے ہمسایوں کی یاد میں اشک ہائے خون آمیز سے نظم کا آغاز ہوا۔بات بڑھی ہے تو داستانِ عشق بن گئی ہے ۔نہایت پاکیزہ و ارفع و اعلیٰ عشق ۔فارسی کے بعض قصائد کی تشبیب میں بھی اس روایت کے اثرات جھلکتے دکھائی دیتے ہیں ۔قدیم ایرانی شاعر منو چہری کے کلام میں رنگِ عرب آمیختہ بہ آہنگ حجم خاصا چوکھا ہے ۔بہرنوع شعر عرب میں اس روایت کی داغ بیل امراءالقیس نے ڈالی اور اُسی نے اسے کمالِ فن سے آب و تاب بخشی۔بات دوستو ں کو اس دعوت سے شروع ہوتی ہے :

قفا نبک من ذکری حبیب و منزل

ترجمہ:دونوں دوستو !ذرا ٹھہرو کہ حبیب اور اُس کے گھر کی یاد میں رو لیں ۔

پھر یہ ذکر و اذکار واقعہ در واقعہ اور سلسلہ در سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے ۔اس میں کیفیاتِ نشاط بھی ہیں اور لمحاتِ الم بھی ۔”قفانبک “سے ”أنابیش“(اَناَبیش (عنصل تک کہ اس کا اختتام ہے، ایک داستان مرتب ہوتی ہے۔جو دراصل شاعر کی آب بیتی ہے۔اس میں کہانی کے تینوں مراحل آغاز ، وسط اور انجام موجود ہیں ۔شاعر عالی نسب عرب اور بادشاہ زادہ ہے ، گو کہ بے گھر ہے مگر شخصیت کی تمکنت و وقار برقرار ہے۔مضمون پست ہی سہی مگر طرزِ اظہار میں وہ شخصی طمطراق و تفاخر اور شان و شکوہ کا احساس قائم رکھتا ہے۔قصیدے کے رموزِ فن سے آگاہ ہے اور انہیں ملحوظ رکھنا اور چابکدستی سے برتنا خوب جانتا ہے۔اسے جزیات کے بیان میں دسترس حاصل ہے۔اس کے تجرباتِ حیات گوناگوں ہیں ۔صحرائی و بدوی طرزِ زندگی ہو یا قریہ و شہر کا اندازِ زیست، اُن کا کوئی گوشہ کوئی پہلو اس کے مشاہدات کی زد سے باہر نہیں ۔چونکہ اس کا بیشتر وقت ریگستانوں میں آوارگی کرتے گزرا تھا اس لئے اس کے صبح و شام اور روز و شب پر صحرائی مناظر مستولی نظر آتے ہیں اور ان ہی کی دھوپ چھاؤں اس کے کلام میں نمایاں ہے ۔کہیں جھلسا جلا اور تڑخا تڑپا دینے والی تمازتِ آفتاب اور صرصر و سموم کے روح فرسا اور جان لیوا جھکڑ ہیں ، کہیں نخلستانوں کی سکون بخش فضا ہے ، کہیں کوسوں کی آبلہ پائی اور تشنہ کامی کے بعد کی چشمہ سار پر بسیرا لینے کا فرحت بخش لمحہ میسر ہوتا ہے۔پھر دوران سفر ریگزار کی خنک راتوں کا کیف ، چاروں جانب چھٹکی ہوئی چاندنی ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ، جمال آفریں صبحیں اور سرور آگیں شامیں ۔یہ صحرائی زندگی ہمارے ہاں علامہ اقبال کی شاعر ی میں عکس فگن ہے اور محاکات کے دلکش و دلآویز رنگوں اور ندرتِ تشبیہات و استعارات کا کمال دکھاتی ہے۔

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

راکھ پڑی ہوئی اِدھر ، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

(بالِ جبریل۔ذوق و شوق)

اے رہینِ خانہ تُو نے وہ سماں دیکھا نہیں

گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام

وہ حضر بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل

وہ نمودِ اخترِ سیماب پا، ہنگامِ صبح

یا نمایاں بامِ گردوں سے جبینِ جبرئیل

وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروب آفتاب

جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیل

اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں

اہلِ ایماں جس طرح جنت میں گردِ سلسبیل

صحرا کے حوالے سے اقبال یہاں برسبیلِ سخن یاد آگئے ورنہ اُن کے اور امراءالقیس کے معنوی عوالم و آفاق ایک دوسرے سے قطعاً مختلف و متضاد ہیں ۔کہنا یہ تھا کہ امراءالقیس کی فضائے شاعری صحرائی ماحول اور اُس کے متعلقات سے وجود میں آتی ہے۔اور زیب و زین پاتی ہے۔اس کے موضوعات ، اس کی تشبیہات ، اس کے استعارات ، اس کی محاکات ، اس کے محرکاتِ فن ، سبھی اس کے قریبی ماحول اور فضا و ہوا سے ماخوذ ہیں ۔یہیں سے اخذ کردہ شعری مواد کو وہ توانا تخیل اور زبردست خلاقی سے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے کہ بڑے بڑے فصحاءو بلغاءسخن میں اس کی سرداری کے معترف ہو جاتے ہیں ۔وہ جاہلی عرب کے اجتماعی رسوم و آداب اور نفسیاتی و اخلاقی کوائف کا بہت بڑا ترجمان ہے ۔امراءالقیس لذاتِ حیات پر مرتا اور اُن کے حصول کا کوئی لمحہ اور کوئی موقع رائیگاں جانے نہیں دیتا۔مگر غور کیجئے تو خوداُس کی زندگی مسلسل غم و الم سے عبارت ہے۔”رکو کہ رو لیں “ سے اُس کے معلقے کا آغاز ہی اُس کی پُردرد و حسرت ناک رودادِ زیست کی طرف بڑا ہی بلےغ اشارہ ہے۔پھر نوبنو اورنوع بنوع تجربات کی یاد بلکہ یادوں کا دُور تک پھیلا ہوا سلسلہ ہے، جس میں گفتنی و نا گفتنی سبھی کچھ سمایا اور سمویا ہوا ہے ۔عنیزہ (فاطمہ کہ اس کی بنتِ عمہ تھی) کی جدائی کاداغ اُسے جلائے رکھتا ہے ۔ابتدائی اشعار میں اُس نے اپنا تمام تر سوزِ جان و التہابِ قلب بھر دیا ہے۔

ترجمہ:” اے دوستو! دونوں ذرا رکو کہ ہم حبیب اور اُس کے گھر کی یاد میں رو لیں ، جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقاماتِ دخول و حومل اور توضح و مقراة کے درمیان واقع تھا، جس کے آثار اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اُس پر جنوبی اور شمالی ہوائیں برابر چلتی رہیں ۔

مطلب یہ ہے کہ بادِ جنوب کچھ ریت اڑا کر لے جاتی تھی تو بادِ شمال اُسے پھر وہیں لا کر ڈال دیتی تھی ۔چنانچہ وہ آثار باقی رہتے تھے۔ہمارے عربی زبان و ادب کے فاضل اجل اور اُردو کے منفرد شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس حسن سے یہ منظر غزل کے شعر میں پیش کیا ہے۔سبحان اللہ

ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب

کوئی دم میں موجۂ بادِ شمال آ جائے گا

عنیزہ کیا گئی ، نہ وہ گھر رہے نہ وہ آنگن ، نہ وہ دیار رہے نہ آثار ، نہ وہ زماں نہ مکاں ، سب کچھ اجڑ گیا۔ویرانی وہ کہ جہاں زندگانی پوری تابانی سے وفور دکھاتی تھی ، اب وہاں ہو کا عالم ہے ۔جہاں انسانوں کے بسیرے تھے وہاں وحشی جانوروں کے ڈیرے ہیں ۔

سفید ہرنوں کی مینگنیاں اُس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسے پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے ۔“(اُردو ترجمہ از قاضی حسین)

وہاں سفید ہرنوں کی مینگنیوں کا پایا جانا اس بستی کے اجاڑ اور بے آباد ہونے کی دلیل ہے ۔مشہور ہے کہ سفید ہرن کچھ زیادہ ہی وحشت زدہ ہوتا ہے اور بہ نسبت دوسرے جانوروں کے ویرانوں میں رہنا پسند کرتا ہے ۔ ع ”نہیں بھولتا اُس کی رخصت کا وقت “ ، وہ بھی کیا گھڑی تھی گویا قیامت سر پر کھڑی تھی

ترجمہ شعر”:جب صبحِ فراق وہ (محبوبہ اور اُس کے ہمراہی(رختِ سفر باندھ رہے تھے ، میری یہ حالت تھی گویا میں قبیلے کے کیکروں کے پاس کھڑا اندرائن توڑ رہا تھا۔“اندرائن کی تیز کڑواہٹ آنکھوں سے لگاتار آنسو بہنے کا سبب بنتی ہے۔

یہ شعر تشبہہ کی عمدہ مثال ہے۔

ترجمہ شعر:”میں رو رہا تھا اور احباب میرے پاس اُن میدانوں میں اپنی سواریوں کو روکے ہوئے کہہ رہے تھے کہ (غمِ فراق سے (ہلاک نہ ہو اور صبرِ جمیل اختیار کر ۔“(ترجمہ از مولانا قاضی سجاد حسین)

ترجمہ شعر:”میں کہتا تھا ، ”میں بھلا رونے سے کیونکر باز آسکتا ہوں کہ میری شفا ان ہی آنسوؤں میں ہے ۔کیا ان مٹے ہوئے آثار کے پاس کوئی ایسا فریاد رس ہے جو قابلِ اعتماد ہو ۔

یہ وارداتِ حزن و یاس ہے مگر یہ کیفیت فوراً ہی ماضی کی اُن یادوں میں بدل جاتی ہے جن کا تعلق ان لمحات وواقعات سے ہے جو پُر ماجرا بھی تھے اورپر نشاط و پر تعیش اور نہایت ہوسناک اور عریاں بھی۔اُم الحویرث ، ام الرباب اور سلامہ(سلمیٰ) سے بدنی اختلاط کا بے باکانہ بیان ہے۔

ایک مقام دارہِ جلجل کا ذکر کرتا ہے کہ عنیزہ اس چشمے یا حوض پر ہمجولیوں کی معیت میں مل گئی ۔یہ دن بڑا ہی کیف افزا تھا۔امراءالقیس نے ان دو شیزاؤں کی خاطر اپنی اونٹنی ذبح کر دی اور گوشت سے اُن کی ضیافت کی ۔یہ دو شیزائیں بڑی شوخ اور چنچل تھیں ، شرارت سے مسکراتی ہوئی گوشت کے ٹکڑے ایک دوسرے پر پھینکتی تھیں ، چربی کے لچھے اچھالتی تھیں تو یوں لگتا تھا جیسے ریشمی جھالریں ہوا میں اُڑ رہی ہوں ۔اب اُس کے پاس سواری کو کچھ نہ تھا ، کجاوہ بھی کسی اور کجاوے پر باندھ دیا گیا تھا، نہ اونٹنی رہی نہ اُس کا کجاوہ ۔بامر مجبوری عنیزا نے اُسے اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا۔یوں اُسے دست درازی و دست اندازی کا موقع ہاتھ آگیا۔مگر ایسا لگتا ہے کہ اُسے بے نیل و مرام کجاوے سے اتر جانا پڑا ۔

ایک روز ریت کے کسی ٹیلے پر عنیزہ نے اُس سے نہ ملنے کی ایسی قسم کھائی جس کا توڑ ممکن نہ تھا۔پھر وہ عمر بھر ایک دوسرے سے نہ مل سکے ۔اس موقع پر محبوبہ سے طرزِ تخاطب میں التجا اور عجز و نیاز کا رنگ خاصا متاثر کن ہے۔فاطمہ(عنیزہ) سے اظہارِ عشق یہی نہیں کہ امراءالقیس کے گھر سے اخراج کا باعث بنا بلکہ اس سے اُس کی جان بھی خطرے میں پڑی۔ایک موقع پر اُس کے والد حجر نے اپنے غلام ربیعہ کو بلا کر کہا کہ امراءالقیس کو قتل کر کے اُس کی آنکھیں نکال کر لا دو ۔ربیعہ نے ایک نیل گائے کا بچہ ذبح کیا اور اُس کی آنکھیں نکال کر لا دیں ۔حجر بہت نادم ہوا ۔غلام نے کہا آپ اطمینان رکھیے میں نے اُسے قتل نہیں کیا ۔حجر بولا تو اُسے لے آ، وہ اُسے لے آیا ۔باپ نے اُسے شعر کہنے سے منع کیا مگر وہ باز نہ آیا ۔باپ کو اُس کی شعرگوئی کا پتا چلا تو پھر گھر سے نکال دیا۔

(بروایتِ ابنِ قتیبہ اشعرالشعراء۔اردو ترجمہ)

امراءالقیس کے ہاں نادر و نوتشبیہات کے چند نمونے ملاحظہ ہوں :

ترجمہ:”پرندوں کے تر اور خشک دل اُ س(باز)کے گھونسلے کے نزدیک پڑے یوں لگتے ہیں جیسے عناب یا سڑی ہوئی کھجوریں ہوں ۔

اُمِ حویرث اور اُمِ رباب کی چھب ڈھب اور سج دھج دیکھئے۔

ترجمہ: جب وہ دونوں کھڑی ہوتی تھیں تو اُن(کے بدن) سے مشک کی لپٹیں یوں اٹھتی تھیں گویا بادِ صبا لونگ کی خوشبو سے لدی آتی ہو۔

ترجمہ: وہ ایسے ان چھدے موتی کی مانند ہے جس میں زردی اور سفیدی ملی ہوں ۔اور اُس صاف پانی میں پلا ہو جسے کسی نے گدلا نہ کیا ہو۔

ترجمہ:وہ ایسی نرم و نازک انگلیوں سے چیزیں پکڑتی ہے گویا وہ (انگلیاں ) وادئ ظبی کے کینچوے یا پیلو کی مسواکیں ہیں ۔

گھوڑے کی تعریف میں فردوسی اور انیس کی خیال آرائیاں آپ نے دیکھی ہوں گی ، اس باب میں ہمارے ان دو عظیم سخنوروں کے تخیل کی اڑانیں بھی کچھ کم نہیں ، اس جانور کی ایک ایک ادا امراءالقیس کے تیز و تاباں مشاہدے اور تجربے کی زد میں ہے۔یہ بادیہ پیما سخنور اس کے وصف میں ایسی ایسی تشبیہات لاتا ہے کہ ذوقِ شعر وجد کرتا ہے۔اسپِ تازی اپنے انفرادی طبعی خصائص میں یوں بھی ضرب المثل ہے پھر جب وہ اس کے بے باگ و بے باک کندی شہزادے کے زیر ران ہو تو اس کی رفتار میں عجب آن بان اور شوکت و شان آجاتی ہے۔کھونٹے سے بندھا ہو تو بھی وقار اعتبار رکھتا ہے۔چلے توقیامت ، رُکے تو گردشِ دوراں تھم جائے۔چند مثالیں دیکھئے۔

ترجمہ:بیک وقت بڑا حملہ آور اور تیزی سے پیچھے ہٹنے والا، آگے بڑھنے والا ، پشت پھیرنے والا ، اُس پتھر کی طرح جس کو سیلاب (کے بہاؤ)نے اوپر سے گرایا ہو۔

ترجمہ:اُس کی کوکھیں ہرن کی سی ہیں اور پنڈلیاں شترمرغ کی سی۔بھیڑیے کا سا دوڑتا ہے اور لومڑی کے بچے کا سا پویا۔

ترجمہ:جب وہ گھر کے پاس کھڑا ہوتا ہے تو اُس کی کمر دلہن کی خوشبو ، پیسنے کے پتھر یا حنظل(اندرائن( توڑنے کی سل (کی طرح) معلوم ہوتی ہے۔

ترجمہ:باوجود چھریرے پن کے نہایت گرم رو ہے ۔جب اُس کی گرمئی رفتار جوش مارتی ہے تو اُس کی آوازہانڈی کے اُبال کی طرح سنائی دیتی ہے۔

ترجمہ:(گلے کے(وحشی جانوروں کا خون جو اُس کے سینے پر لگ گیا ہے ، کنگھی کئے ہوئے سفید بالوں میں مہندی کے عرق کی طرح معلوم ہوتا ہے ۔

ضمناً یاد آیا آپ نے اقبال کا یہ شعر یقیناً پڑھا ہو گا۔

گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا

بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

اس میں مضمون کی ارفعیت ظاہر ہے۔مگر اس خصوصیت کو تشبیہہ کی ندرت چار چاند لگا رہی ہے ۔مضمون مختلف ہے مگر قندیلِ رہبانی امراءالقیس کے ہاں کس طرح جلوہ ریز و تجلی خیز ہے ، ملاحظہ فرمائیے:

ترجمہ:یہ بجلی چمک رہی ہے یا اُس راہب کے چراغ ، جس نے بٹے ہوئے فتیلوں پر تیل جھکا دیا ہے۔

ترجمہ:رخِ درخشاں سے وہ شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی کو یوں روشن کر دیتی ہے جیسے خدا رسیدہ راہب کا چراغ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیرے کو اجال دیتا ہے۔

جگہوں اور مقامات کے تعلق سے اُس نے موسمی اور جغرافیائی کیفیات کی حسبِ موقع خوب عکاسی کی ہے ۔اس میں تشبیہہ ، استعارے ، مجاز، کنائے اور محاکات کے رنگ گھلے ملے ہیں اُن سے جہاں کلام کی معنویت بڑھتی ہے وہاں جمال آفرینی کا فریضہ بھی بطریقِ احسن انجام پایا ہے ۔معلقے کا آخری شعر ہے۔

ترجمہ:جوا (مقام کا نام ہے)کے اطرافِ بعید میں درندے کہ سر شام عرقاب ہو گئے تھے ، انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پیاز کی جڑیں پانی پر تیر رہی ہوں ۔“محاکات کے اعلیٰ نمونے انسانی جذبات کی دل آویز مصوری ، زبان و محاورے کی لطافتیں اور ترکیب و بندش کا استحکام ، شاعر کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہے۔اشعار میں موسیقیت کا عنصر انہیں لطیف و دلپذیر نغمے کی حیثیت عطا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب کے معروف مغنی اور مطربائیں اُس کا کلام گاتی تھیں اور داد پاتی تھیں ۔بعض فحش اور پست موضوعات کے باوصف فقط کمالِ فن کی بنا پر عربی مدارس کے نصاب میں دیگر شعرائے عرب کے معلقات کے ساتھ امراءالقیس کی نظم بھی شامل رہی ہے اور اب بھی ہے۔وفاق المدارس کے اعلیٰ درجات میں بھی اُس کی تدریس ہوتی ہے ۔یونیورسٹی کی سطح پر ایم اے عربی کے نصاب میں اُس کی شمولیت ہمیشہ ضروری سمجھی گئی۔۔دنیا کی اکثر ترقی یافتہ زبانوں میں اُس کے ترجمے اور شرحیں ہو چکی ہیں ۔خود ہماری زبان میں اُس کے کئی تراجم اور شرحیں موجود ہیں ۔اربابِ نقد و نظر نے شعرو ادب کی بابت نظری و عملی مباحث میں اُسے لائقِ اعتنا گردانا ہے۔اور دعویٰ اثباتِ دعویٰ اور ردِ دعویٰ میں اُس کے اقتباسات سے استناد کیا ہے۔میری گزارش ہے کہ قدیم عرب کے اجتماعی مزاج کو سمجھنے کے لئے اس نوع کی منظومات کا توجہ سے مطالعہ ناگزیر ہے۔سفلی جذبات کی جب ترفیع(sublimation( ہوتی ہے توتاریخ عالم میں کیا انقلاب رونما ہوتا ہے یہی بھٹکے اور بہکے ہوئے عرب اسلام لا کر انسانی تہذیب و تمدن کو کن رفعتوں تک لے گئے۔ارتقاءانسانی میں اُن کا کارنامہ اتنا روشن و تابناک ہے کہ اُس کے ذکر سے تاریخ کے صفحات دمک رہے ہیں ۔

کارواں رفتہ و اندازہءجاہش پیداست

زیں نشاں ہاکہ بہر راہگزار افتداست

(4(

جناب اکرام جمالی نے امراءالقیس کی نظم کا ترجمہ جس لگن ، انہماک ، ریاضت اور تخلیقی سرشاری سے کیا ہے ، اُس نے اُسے مستقل بالذات تخلیق کے مقام پر فائز کردیا ہے۔اسے اگر آپ اصل عربی متن سے الگ ہٹ کر بھی پڑھیں تو اس میں آپ کو ایک دلپذیر اُردو نظم کی بیشتر خوبیاں مل جائیں گی۔اُردو کا جوہرِ زبان بحال رکھتے ہوئے انہوں نے نظم کی پیشکش میں وہ اہتمام برتا ہے کہ عربی ماحول و مزاج اپنے تمام تر جلال و جمال کے ساتھ ہر کہیں عکس ریز ہے۔پڑھنے والا بیک وقت اُردو شاعری کی لطافت اور گھلاوٹ سے بھی لذت یاب ہوتا ہے اور عربی کے رس ، رنگ ، ذائقے اور چاشنی سے بہرہ اندوز بھی۔ترجمے کے فن میں یہ خاصا مشکل کام ہے۔بالخصوص اس صورت میں کہ ترجمہ نظم کا ہو اور نظم میں ہی کیا جارہا ہو۔یہ بڑی پتّے ماری اور جگر داری کا کام ہے۔تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جنابِ اکرام جمالی نے اسے نہایت قرینے اور سلیقے سے انجام دیا ہے۔

امراءالقیس کا قصیدہ لامیہ ہے اور جیسا کہ اس صنف کے اصول ِ ہےئت کا تقاضا ہے ، تما م اشعار ایک ہی قافیے اور وزن میں ہیں ، فاضل مترجم نے ہےئت کی روایتی پابندیوں سے یکسر انحراف برتا ہے اور ترجمے کے لئے نظمِ آزاد کو ترجیح دی ہے ۔یہ بڑا مستحسن اقدام ہے کہ اس سے نظم کی تمام تر معنویت کے ساتھ اردو میں منتقل کرنے کی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔یہ بھی ہے کہ اگر روایتی ہےئت کو اپنایا جاتا تو شاید وہ مذاقِ جدید کی چیز نہ بن پاتی اور نظم میں نئی ہےئتوں اور اسالیب کی عادی طبائع کو اسے قبول کرنے میں تامل ہوتا ۔ترجمے میں تازگی اور برجستگی کی بجائے یبوست اور بے مزگی پیدا ہو جاتی۔موجودہ فارم میں ترجمہ اتنا رواں دواں ہے کہ پڑھتے ہوئے طبیعت خودبخود اُس کے بہاو


¿ کے ساتھ بہنے لگتی ہے۔پکھلی کا نالہ سرن یوں بھی فراز سے نشیب کی سمت بہتا ہے اور اپنی روانی میں بڑا ہی سرجوش واقع ہوا ہے۔برسات میں تواس کی سرعتِ رفتار دیو ہیکل چٹانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔تاریخی قصبہ بفہ اور سرن باہم دگر لاینفک ہیں ۔اس قصبے کے باشندوں کا مزاج بھی آبِ رواں کا سا اور ”موج زخودرفتہ“ کی طرح تیز خراماں اور ” ہستم اگر می روم گر نہ روم نیستم“سے عبارت ہے۔اس میں آپ وادی
¿ سرن کے دےگر مقامات کو بھی شامل سمجھئے۔مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اکرام جمالی کی طبیعت میں روانی کا مادہ اُن کے ماحول کی نسبت سے جبلی ہے۔لہجہ شگفتہ و پربہار اور باوقار ہے۔زبان و بیان پر گرفت اُسے اعتبارِ فن عطا کرتی ہے۔

میں عرض کر چکا ہوں کہ نظم کا بالخصوص کسی رفیع (sublime(منظوم کارنامے کا کسی دوسری زبان میں منظوم ترجمہ کرنا بڑا جوکھم ہے۔اس میں نہ فقط مترجم کا ہر دو زبانوں پر قادر ہونا لازم ہے ، اسے شاعری میں خلاقانہ بتوغ بھی حاصل ہونا چاہیے تاکہ اصل کا عطر ِ سخن کھنچ کر ترجمے میں آ جائے اور جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اُس کا جوہر بھی برقرار رہے ۔دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی سے نظموں کے بے شمار تراجم اُردو نظم میں ہوئے مگر اُن میں چند ہی ایسے ہیں جنہیں اُردو کے مذاقِ سخن نے قبول کیااور پسندیدگی کی سند عطا کی ہو۔تھامس گرے کی شہرہ آفاق ”ایلجی“(مرثیہ( کا ترجمہ علامہ علی حیدر نظم طباطبائی نے ”شامِ غریباں “کے عنوان سے اُردو نظم میں ایسا کیا کہ بذاتہ ایک تخلیقی شہکار بن گیا۔اسی طرح تھامس مور کی نظم ”light of other days“ کو نادر کاکوروی نے اُردو نظم کا لباس پہنایا ۔ترجمہ اس برجستگی سے ہوا کہ اُس کی سطریں اور مصرعے ضرب المثل کی طرح زبانوں پر چڑھ گئے۔مغنیہ ریشماں نے اپنے خاص سرتال اور لحن میں اُسے گایا تھا تو ”اکثر شبِ تنہائی میں “کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا اور ادب اور موسیقی کی دنیا میں اُس کی دھوم مچ گئی۔علامہ اقبال نے بعض انگریز شعراءکی نظمیں اُردو نظم میں منتقل کیں ، یہ ترجمے ترجمہ نہیں اصل معلوم ہوتے ہیں ۔علامہ اقبال کی فنکارانہ خلاقی نے اُن میں کے ہر ترجمے کو بنفسہ تخلیق بنا دیا ہے۔ تقسیم برصغیر سے قبل انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی نظموں کا ایک مجموعہ (اصل اور ترجمہ( ”دو آتشہ“ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔یہ کتاب کمال کی چیز تھی ۔اس میں اُس وقت کے نامور سخن وروں کے بہت اچھے منظوم تراجم تھے۔اردو میں روسی ، فرانسیسی ، بنگلہ ، چینی ، جاپانی ، عربی ، فارسی ، پنجابی ، پشتو ، بلوچی ، براہوی، سندھی ، ہندی ، سنسکرت وغیرہ زبانوں کی منظومات کو منتقل کیاگیا۔ان میں بعض تراجم اردو کے شعری سرمائے میں لائقِ قدر اضافہ ہیں ۔

میری رائے میں ”رکو کہ رو لیں “ بھی باعتبار ِ معیار اسی قبیل کی ایک کاوش ہے ۔جس دھوم دھام کا اصل قصیدہ ہے اسی نوع کا اہتمام بحدِ امکان ترجمے میں بھی ہے ۔اکرام جمالی نے عربی متن میں ڈوب کر اس سے ترجمے کے موتی نکالے ہیں ۔وہ اصل کے ساتھ گام بگام چلے اور قدم بقدم بڑھے ہیں ۔ایک زبان کی نظم کو دوسری نظم کے موزوں قالب میں ڈھالتے ہوئے مترجم کی مشکلات کے پیش نظر اُسے کسی حد تک آزادی برتنے کی اجازت ہوتی ہے ۔اکرام صاحب نے بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھایا ہے ۔کمال یہ ہے کہ انہوں نے قصیدے کے ایک ایک لفظ کو اُس کی معنوی دلالتوں اور تلازمات کے ساتھ اردو نظم میں یوں منتقل کر دیا ہے کہ اصل و ترجمہ ایک دوسرے کے عین مطابق ہو گئے ہیں ۔بطورِ مثال ابتدائی چند اشعار کا ترجمہ دیکھئے۔

عربی سے اردو ترجمہ از مولانا قاضی سجاد حسین”ذرا ٹھہرو کہ ہم محبوبہ اور اس کے اس گھر کو یاد کر کے رولیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر پر مقاماتِ دخول اور حومل اور توضیح ومقراة کے درمیا ن واقع ہے، جس کے نشان اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس میں جنوبی اور شمالی ہوائیں (برابر(چلتی رہتی ہیں ۔

اکرام جمالی نے اسے یوں اُردو نظم میں منتقل کیا ہے؛

رکو! کہ رو لیں

بیاد جاناں

وہ گھر (عنیزہ کا( یاد کر کے

جو ریت کے اس بسےط ٹیلے پہ

(اس جگہ(تھا

دخول و حومل کے درمیاں تھا

(جو اک پڑاو


¿ (

وہ جس کے اطراف میں تھے

مقرات اور توضح

(اجڑ چکا ہے(

نشانِ خاکستر (پسِ کارواں ( کو لیکن

مٹا سکا ہے

نہ لمسِ بادِ جنوب اب تک

نہ رقصِ بادِ شمال اب تک

مقامات (دخول ، حومل، مقرات اور توضح ( عرب کے ، ماحول و فضاعرب کی ، جذبات ایک عرب عاشق کے کہ شاعر بھی ہے، ذہنی کیفیت ناسٹیلجیا کی ، یاد ِ ماضی عذاب بنی ہوئی ، لہجہ سخت حزنیہ۔شعر عرب کے رمز شناس جانتے ہیں کہ ”قفانبک“میں بیان کا کیا زور و شور ہے۔پسِ منظر میں ایک کارواں ہے کہ اُس مقام سے گزر رہا ہے کہ جہاں کبھی عنیزہ کا مسکن ہوا کرتا تھا۔یہاں پہنچ کر عہدِ رفتہ کے تصور سے عاشق (شاعر(تڑپ اٹھا اور رفیقانِ راہ سے رک جانے کو کہا۔

عآو


¿ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہمبات میں التجا کا رنگ ہے ، یہ امور جملہ متعلقات کے ساتھ ترجمے میں آگئے ہیں ، اُردو نظم میں بھی وہی بلاغت ہے جو اصل عربی شعروں میں ہے ۔مشاہدے ، فکر، احساس، جذبے ، تخیل اور تخلیقی ابال میں عرب شاعر اور اردو مترجم ہمدست و ہمقدم ہی نہیں ، یک دل و یک جان ہو گئے ہیں ۔لطف یہ ہے کہ ہر دو اپنے اپنے عہد میں سانس لے رہے ہیں ۔امراءالقیس چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول میں جاہلی عرب کا شاعر تھا، اس کے کارنامہء سخن کو اسی عہد کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اکرام جمالی کا ترجمہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں انجام پاتا ہے اور اس عہد کے اردو شاعری کے امیال و عواطف ، عمومی فنی رحجانات اور ہئیت و اسلوب کی نمائندگی کرتا ہے۔اس کے بعض حصوں کو علیحدہ کر کے دیکھئے اور الگ الگ عنوان دے دیجئے تو ان کی حیثیت ہمارے دور کی مختصر اردو نظموں کی سی ہو جائے گی ۔آپ ان میں عصرِ رواں کی اردو شاعری کا سا رنگ ، رس ، کیف اور اثر پائیں گے۔اس نوع کی دو مثالیں ملاحظہ کیجئے :

بہت سی راتیں

گزاریں ایسے

جو موجِ دریا کی مثل مجھ پر

غموں کے پردے

بڑھا بڑھا کر گرا رہی تھیں

کہ آزمائیں مری محبت کو

خوف و حرماں کی تیرگی سے

وہ تیرگی میں بھرے اجالے

(چمک ہے اس کی جبیں پہ ایسی)

کہ جیسے (جنگل میں )شام ہی سے

خدا رسیدہ بزرگ راہب کے شب کدے کا چراغ

دیوٹ پہ ضو فشاں ہو

یہ ایک سلسلہِ کل کی اجزائی کڑیاں ہیں مگر انہیں الگ الگ کر کے دیکھئے تو ان میں سے ہر ایک معنی و مفہوم اور خیال و تاثرمیں مستقل بالذات حیثیت کی حامل ننھی منی سی نظم ہے۔کل کی سلسلہ بندی میں برابرانکا کردار ہے۔واقعات و حوادث منظر بہ منظر جس طرح امراءالقیس کے اصل قصیدے میں ابھرتے ، بڑھتے ، اترتے ، چڑھتے چلے جاتے ہیں ، یہ صورت ترجمے میں بھی بدستور موجود ہے ۔امراءالقیس کے چند در چند کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس کی نظم کے کسی شعر کو آپ زائد یا بھرتی کا بیت قرار دے کر خارج نہیں کر سکتے ۔تمام اشعار باہم اس قدر مربوط و پیوست ہیں کہ کسی شعر کے نکال دینے سے سارا سلسلہ ء خیال درہم و برہم ہو جاتا ہے اور نظم کا مجموعی تاثر بگڑ جاتا ہے۔جمالی صاحب ترجمے میں اصل کی یہ خصوصیت برقرار رکھتے ہیں ۔اس کا اندازہ پوری نظم پڑھ کر ہی ہو سکتاہے۔

اکرام جمالی نے ترجمے کے لئے مفعول فعلن(زمانہ آیا ہے بے حجابی کاعام دیدارِ یار ہوگا( کا وزن ارکان کی کمی بیشی کے ساتھ اختیار کیا ہے ۔جو مزاجاً رواں دواں اور مترنم ہے۔سلاست اور صفائی کا وصف ہر کہیں موجود ہے ۔زبان سادہ اور سہل اور بیان پختہ و پرکارانہ ہے ۔الفاظ کے انتخاب اور ترتیب و ترکیب میں حسن کاری کا کمال پوری نظم میں جلوہ نماہے۔وضاحت طلب مقامات پر ایک دو مصرعوں یااجزائے مصرع کا اضافہ قوسین میں کر دیا گیا ہے۔مگر وہ اصل سے اس طرح مربوط ہو گیا ہے گویا اسی کا حصہ ہے۔قوسین میں دئیے ہوئے موزوں ٹکڑے مترجم کی تراوشِ فکر ہیں ۔

امراءالقیس عورتوں سے ارتباط و اختلاط کے بیان میں بیباکانہ سرائی اور عریاں گوئی کی انتہائی حدوں کو چھوتاہے ۔دارأ جلجل، مرضعہ کا خلوت کدہ، عنیزہ سے محل میں یکجائی، امِ حویرث ، امِ رباب ، سلمیٰ یا سلامہ سے مراسمِ شوق کی کیفیات اور ایسے ہی معاملات و واردات کا بیان امراءالقیس کے سے ہیجانی اسلوب میں اگر ناممکن نہیں تو سخت دشوار ضرور تھا۔ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی حدود و قیود بھی اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔ہرچند کہ جنسی عریانی و ہوس رانی کے بیان میں ہمارے بعض شاعر خوب کھلے اور کھل کھیلے ہیں ۔ریختی تو اس باب میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ریختے میں بھی اس کے شہکار نمونوں کی کمی نہیں ۔تاہم اکرام جمالی نے انہیں سند نہیں جانااور قصیدے کے اس نوع کے ابیات کا ترجمہ لہجے میں تہذیب اور ادا و انداز میں رکھ رکھاؤ ملحوظ رکھ کر کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ جمالِ فن کا جادو بھی جگاتے چلے گئے ہیں ۔

اصل کی طرح محاکات کے رنگ ترجمے میں بھی خاصے چوکھے ہیں ۔مناظر و واقعات کی تصاویر ، تشبیہہ کے آب ورنگ سے مزین ہیں ۔اکثر تشبیہات مرکب اور متحرک ہیں ، جزیات بیانی اپنا لطف رکھتی ہے۔

(دہک رہی تھی وہ صورت ایسی)

کہ جیسے موتی جواَن چھدا ہو

سفید رنگت میں جس کے (ہلکا سا)زرد

(شعلہ ) ملا ہوا ہو

وہ دّرِ یکتا

جو آبِ شفاف پر پلا ہو

وہ آبِ شفاف

جس کو کوئی نہ چھو سکا ہو

(عجیب منظر تھا)

اپنے گالوں کی آڑ لے کر

وہ مجھ سے آنکھیں چرا رہی تھی!

کہ جیسے وجرہ ٭کی نیل گائے

(کنکھیوں سے

بڑی محبت سے اپنے بچے کو دیکھتی ہو!)

(کبھی)وہ چہرہ ذرا اٹھا کر مجھے دکھاتی

٭وجرہ ایک مقام۔

وہ مینڈھیاں

جو گندھی ہوئی ہیں ، تنی تنی سی اٹھی ہوئی ہیں

مگر جو کچھ کچھ کھلے ہیں گیسو

وہ مینڈھیوں سے یوں مل گئے ہیں

کہ اُن میں جوڑا بھی چھپ گیا ہے

جہاں لمحات ِوصل انتہائی لذت زا اور عیش افزا تھے ، وہاں ہجر کی گھڑیاں بھی کچھ کم جان گداز نہ تھیں ۔

بہت سی راتیں

گزاریں ایسے

جو موجِ دریا کی مثل مجھ پر

غموں کے پردے

بڑھا بڑھا کر گرا رہی تھیں

کہ آزمائیں مری محبت کو

خوف و حرماں کی تیرگی سے

آپ نے اپنی شاعری میں شبِ ہجر کے کئی طور دیکھے ہیں ۔درازی میں اس کا دامن ، دامنِ قیامت سے بندھا ہے۔

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں

شب ہائے ہجرکو بھی رکھوں گر حساب میں

(غالب)

ہر آن مجھ کو تجھ بن اک اک برس ہوئی ہے

کیا ہو گیا زمانہ اے یارو رفتہ رفتہ

(میر تقی میر)

مجھے محسوس ہوتا ہے شبِ ہجر

رکی رہتی ہے لمحوں کی روانی

(احمد ندیم قاسمی)

اکرام جمالی کے ترجمے میں ایسی ہی رات کی ایک جھلک دیکھئے؛

(اور پھر وہ)

اک ایسی شب تھی

طویل انگڑائی لے کے بیدار ہو رہی تھی

(تو مضطرب ہو کے)

میں پکارا

شبِ دراز!

اے شبِ دراز سیاہ

نور سحر میں ڈھل جا!

(سحر کہ حرماں کی شدتوں میں

ذرا بھی کم تر نہیں ہے تجھ سے)

کہ وہ بھی بہتر نہیں ہے تجھ سے

سیدھا سادہ سا ، صاف اور راست سا اندازِ بیان ہے ، مگر لفظ لفظ میں درد و سوز اور اثر و تاثیر کا وہ عالم ہے کہ پتھر کو بھی گداز کئے دیتا ہے۔حاصلِ کلام یہ کہ جناب اکرام جمالی بحیثیت مترجم خاصے کامیاب و بامرادرہے ہیں ۔وہ اس اعتبار سے بھی نئی اردو شاعری میں سرخرو و آبرو مند ٹھہرتے ہیں کہ ان کا زیر نظر ترجمہ از بسکہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے، ایک عمدہ طویل نظم ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے عہد کی اردو شاعری میں طویل نظموں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ۔اس نظر سے دیکھئے تو جناب اکرام جمالی کی یہ کاوش اردو نظم میں ایک بڑا اضافہ ہے، جو بہر حال مستحقِ داد و تحسین ہے۔عربی متن کے حاشیے میں مفردات کے اردو ترجمے کی شمولیت سے اصل متن کی تفہیم میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔عربی ادب کے طالب علم اور عام شائقین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔