شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

کنارے ٹوٹ نہ جائیں

شبہ طراز

مرے اندر سمندر موجزن ہے

جزیرے خواہشوں کے ڈوبتے ہیں

اور ابھرتے ہیں

پرندے چار جانب پر سنبھالے

اُڑ رہے ہیں ،

تمنا کی ہزاروں کشتیاں ہیں ، بادبانی

(رنگ جن کے آسماں پہ)

اک دھنک میں ڈھل گئے ہیں

وفا جیتا مسافر ساحلوں پہ آن بیٹھا ہے

کنارے ٹوٹ نہ جائیں

سونامی منتظر ہے

آنکھ میں انگڑائی لیتی ہے

ذرا سا شور کم ہو تو سنائی دے

ہوا کی سنسناتی تیز سیٹی نے

لبادہ اوڑھ رکھا ہے

سمندر کو بچانا ہے

وفا جیتا مسافر روٹھ نہ جائے،

سہارا چھوٹ نہ جائے

کنارہ؟