کنارے ٹوٹ نہ جائیں
شبہ طراز
مرے اندر سمندر موجزن ہے
جزیرے خواہشوں کے ڈوبتے ہیں
اور ابھرتے ہیں
پرندے چار جانب پر سنبھالے
اُڑ رہے ہیں ،
تمنا کی ہزاروں کشتیاں ہیں ، بادبانی
(رنگ جن کے آسماں پہ)
اک دھنک میں ڈھل گئے ہیں
وفا جیتا مسافر ساحلوں پہ آن بیٹھا ہے
کنارے ٹوٹ نہ جائیں
سونامی منتظر ہے
آنکھ میں انگڑائی لیتی ہے
ذرا سا شور کم ہو تو سنائی دے
ہوا کی سنسناتی تیز سیٹی نے
لبادہ اوڑھ رکھا ہے
سمندر کو بچانا ہے
وفا جیتا مسافر روٹھ نہ جائے،
سہارا چھوٹ نہ جائے
کنارہ؟