کاشف بٹ
کاشف بٹ
کوئی کیونکر کہے دلدار اب اچھا نہیں لگتا
مسیحا کو مرے بیمار اب اچھانہیں لگتا
لبِ بام و در دیوار آنا جب سے چھوٹا ہے
طبیعت کو کوئی بھی کار اب اچھا نہیں لگتا
اُسے نفرت ہوئی ہے جب سے پھولوں سے ہمیں بھی پھر
کوئی بھی راستہ پُرخار اب اچھا نہیں لگتا
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں اُسے تم سے محبت ہے
مگر ہر بات کا اقرار اب اچھا نہیں لگتا
وہ کیسا شخص ہے جس شخص کی چاہت رہی برسوں
اسی کے نام کا اظہار اب اچھا نہیں لگتا
وہ میرے سامنے اپنے سبھی دعوے بھلا دے گا
جو کہتا ہے خیالِ یار اب اچھا نہیں لگتا
وہ اک صورت بسی ہے جب سے کاشف جی کی آنکھوں میں
کسی چہرے کا بھی دیدار اب اچھا نہیں لگتا