عاصم شہزاد
جب تلک زندگی میسر ہے
غم کو آسودگی میسر ہے
آنکھ بینا نہیں تو کیا غم ہے
دل کو اک روشنی میسر ہے
جس کو آنسو بجھا نہیں سکتے
دل کو وہ آگ سی میسر ہے
راہِ الفت کٹھن ہے اُس کے لئے
جس کو آسودگی میسر ہے
کیسے دامن چھڑائے وحشت سے
جس کو یاں عاشقی میسر ہے
زندگی اُس کی اک قیامت ہے
وہ جسے آگہی میسر ہے
دل میں کوئی نہیں ہے بیچینی
دل کو آوارگی میسر ہے
آؤ پھر ڈھونڈتے ہیں غم عاصم
دل کو آسودگی میسر ہے