شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

کب تلک؟

توقیر علی ترمذی

بھیگی رت کی گھاس پہ لکھی بھولی ایک کہانی

اک پربت کے دامن میں اک بستی کا اک گھر

اُس گھر کی دہلیز پہ بیٹھی پاگل ایک صدا

اور صدا کے کاندھے پر مرجھائی ایک جوانی

روز سنے جو راہوں سے ہر آہٹ آنی جانی

بھیگی رت کی گھاس پہ لکھی بھولی ایک کہانی

تنہائی کے جنگل میں دو ہرنی جیسی آنکھیں

اُن آنکھوں کی دہلیزوں پر الجھے الجھے خواب

اُن خوابوں کی جاگیروں پر ایسی ایک حکومت

جس کے سنگھاسن پہ بیٹھے راجہ اور اک رانی

بھیگی رت کی گھاس پہ لکھی بھولی ایک کہانی

شام کی آنکھیں خیرہ کرتے چاندی سے وہ ہاتھ

اُن ہاتھوں میں گنگن جیسی سونے کی زنجیر

سونے کی زنجیر میں لپٹے لاکھوں رسم رواج

رسموں کے دریاؤں میں ہر روز وہی طغیانی

بھیگی رت کی گھاس پہ لکھی بھولی ایک کہانی

دل کے ریگستان پہ برسی یادوں کی برسات

یادوں کی برسات میں بھیگے سارے خدوخال

خدوخال پہ ماہ و سال کی لکھی اک تحریر

بالوں میں برسوں کی چاندی، چہرہ ایک لکیر

ایک لکیر کے گرد گھماتے تقدیروں کے کھیل

ہر اک کھیل کے آخر میں اک آنسو اک مسکان

ہر آنسو اور ہر مسکان کی اپنی ایک کہانی

بھیگی رت کی گھاس پہ لکھی بھولی ایک کہانی