شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

امیر حمزہ شنواری کی اہم صوفیانہ تصنیف

عامر سہیل

ایبٹ آباد

پشتوادب کی تاریخ میں امیر حمزہ شنواری شاعر ، ادیب ، فلسفی، ڈرامہ نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار اور مترجم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔اُن کی ادبی زندگی کا آغاز اُردو زبان سے ہوا لیکن بعد ازاں انہوں نے پشتو میں لکھنا شروع کر دیا ۔”بابائے پشتو غزل“کے نام سے شہرت حاصل کی۔اُن کی متنوع اور فکر انگیز تصانیف میں ”دل کی آواز“، ”سفرنامہء کابل“، ”نوے پختون “، ”نوے چپے“، ”نئی لہریں “غزنے “(انگڑائیاں :مجموعہ کلام)”خوشحال یو شعر“، ”حجاز پہ لور“ ، ”ژوند“(زندگی)، کارل مارکس کے اصول :عقل کی کسوٹی پر ، مکتوباتِ حمزہ، رحمان بابا (منظوم اردو ترجمہ)اوراقبال کی دو کتابوں کے پشتو میں منظوم تراجم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

امیر حمزہ شنواری ادب کے علاوہ دنیائے تصوف میں بھی پیرِ کامل تسلیم کئے جاتے ہیں ۔اور انکی تصنیف ”تجلیاتِ محمدیہ“ عوام و خواص میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔یہ کتاب پشتو زبان میں لکھی گئی ہے اور اسکا پہلا اردو ترجمہ سیدطاہر بخاری چشتی نظامی نیازی صاحب کی بدولت منصئہ شہود پر آیا۔فاضل مترجم بابا شنواری کے قریبی خلفاء میں سے ہیں ۔اور خود بھی علمِ تصوف پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔یہ ترجمہ زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔دورانِ مطالعہ کہیں بھی قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ترجمہ شدہ تحریر پڑھ رہا ہے۔اور یہ خوبی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ترجمہ کرنے والا دونوں زبانوں پر ہر ممکنہ دسترس رکھتا ہو۔سید صاحب کو یہ کمال حاصل ہے۔وہ دونوں زبانوں کے لفظی تلازمات اور مزاج سے پوری طرح واقف ہیں اور اپنی انشائی استعداد کی بدولت ترجمہ میں اصل تخلیق کا رنگ برقرار رکھا ہے۔تجلیاتِ محمدیہ کُل دس ابواب پر مشتمل ہے۔فصلِ اول ذات الہی اور معرفت الہی دوم حضرت محمد کے بارے میں سام وید کی پیشنگوئی سوم اہلِ بیت کی فضیلت چہارم اولیاءاللہ اور فقرائےِ کاملین پنجم مرشد سے بیعت اور آداب ششم علمِ لدنی ہفتم سماع ہشتم روحِ انسانی نہم مرشد کے آداب اور دیگر رسومات جبکہ فصلِ دہم میں وحدت الوجود اور تقدیر جیسے اہم موضوہات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ کتاب کا مقدمہ بڑا وقیع اور معلومات افزا ہے۔یہ مقدمہ بذاتِ خود ایک علمی مقالے کی حیثت رکھتا ہے۔کیونکہ کہ یہاں بنیادی نوعیت کے تقریبا تمام صوفیانہ مسائل سے تعرض کیا گیا ہے۔امیر حمزہ شنواری وجودی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے کتاب کے اکثر ابواب میں اس فکر کی مناسبت سے بلیغ اشارات موجود ہیں۔ وحدت الوجود کا عقیدہ ہمیشہ سے صوفیہ میں بڑا مقبول رہا ہے۔مسلم اور غیر مسلم مفکرین نے اس موضوع پر دقیق اور عالمانہ مباحث کئے ہیں ۔معین الدین ابنِ عربی اس فکر کے سب سے بڑے اور مستند شارح تسلیم کئے جاتے ہیں ۔اور انکی بلند پایا تصنیف ”فصوص الحکم “ کو اس حوالے سے معارف و حقائق کا بحرِ ذخائر کہا جا تا ہے۔امیر حمزہ شنواری نے تجلیات محمدیہ کی فصل دس میں اس نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔اور اس عقیدے کے متنازعہ فیہ مسائل بیان کرنے کے بعد نیز بڑی جامعیت کے ساتھ اپنی متوازن رائے کا اظہار فرمایا ہے۔اس عقیدے کے حامی صوفیہ اور اولیاءکا ایک خاص گروہ وجودی ہونے کے ناطے شریعت کو موقوف قرار دیتا ہے۔لیکن بابا شنواری طریقت اور شریعت دونوں کو اس عقیدے کے لئے لازم ملزوم قرار دیتے ہیں ۔وہ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں ” مختصر یہ کہ وحدت الوجود توحید و شریعت کا خلاصہ ہے اور ان لوگوں یعنی قائدینِ وحدت الوجود سے زیادہ کوئی بھی حق تعالی اور حضوراقدس سے واسطہ نہیں رکھتا ٭(1)گویا اقبال کے الفاظ میں ؛

علم حق غیر از شریعت ، ہیچ نیست

اصل سنت جزو محبت ، ہیچ نیست

باتو گویم سراسلام است شرع

شرع آغاز است و انجام است شرع

بابا جی کے نزدیک وحدت الوجود محض صاحبِ قال کے بس کا روگ نہیں بلکہ اسکے لئے صاحبِ حال ہونا شرطِ اول ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وحدت الوجود حق ہے مگر فی الواقع یہ مسئلہ محض ذاتی اور وجدانی ہے۔دوسرے لفظوں میں جب تک قلبِ سالک اس کا مزا چکھ نہ لے زبانی کلامی اس سے کوئی لطف نہیں کر سکتا اور بات چیت کی حد تک اسکا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔“٭(2)مندرجہ فوق اقتباس میں ”ذاتی اور وجدانی“ جیسے بلیغ الفاظ نہایت غور طلب ہیں ان الفاظ سے جہاں شخص کی موضوعی واردات SUBJECTIVE EXPERIENCEکا اظہار ہوتا ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ وحدت الوجود سے آشنا ہونے کے لئے مجاہدہ نفس اور مشاہدہ نفس کے مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ایک کامل سالک ان منازل سے علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین تک درجہ بہ درجہ کمال حاصل کرتا ہوا پہنچتا ہے۔عقیدہ وحدت الوجود پر بابا جی کا جو مخصوص نقطہ نظر ہے اسکی مزید ترجمانی رومی کے اس شعر سے بھی ہو سکتی ہے۔

جز کہ صاحب ذوق نشناسدطعوم

شہد را ناخوردا کے داند زموم

وحدت الوجود بنیادی طور پر خدا اور فرد کی باہمی محبت کا ہی دوسرا نام ہے۔لیکن یہ محبت عشق کی ایک ایسی اعلی اور ارفع صورت ہے جس میں ”من و تو“ کی تمام سرحدیں ختم ہو کر وحدت میں ضم ہو جاتی ہیں ۔اور سالک کے ماسوائے نورِ مطلق کے کسی اور شے کی ضرورت یا محبت کی حاجت نہیں رہتی۔

صحرائے دلم عشق تو شورستاں کرد

تا مہر کس دگر نروید ہر گز

(ابو سعید ابوالخی)

ترجمہ:” تیرے عشق نے میرے دل کو ایسا بنجر بنا دیا ہے کہ اس میں کسی دوسرے کی محبت کا پودا نہیں اگ سکتا “۔

تصوف میں مرید و مرشد کا معاملہ بڑا اہم اور نازک ہے۔کوئی بھی سالک مرشد کی رہنمائی کے بغیر گوہرِ مراد حاصل نہیں کر سکتا۔عموما ًمرشد اپنے طالب سے تین کام لیتے ہیں ، خدمتِ خلق، عبادت اور ریاضت اور دل کی پاسبانی۔اگر حسبِ فرمان یہ فرائض ادا ہو جائیں تو خرقہ عطا ہوتا ہے ورنہ مرید کی وقت گزاری کسی کام کی نہیں ۔تجلیاتِ محمدیہ کا ایک باب مسائلِ مرشد سے متعلق ہے اور اسکے تین ذیلی عنوانات ہیں ۔نمبر ایک ، مرشد سے بیعت لینا نمبر دو، مرشد کے آداب ، نمبر تین ، مرشد کا برزخ یا تصور ۔کتاب کا یہ حصہ در حقیقت سالک کی تربیت کا نقطہ ماسکہ ہے کیونکہ اسکے ذریعے ایک کامل مرشد اپنے مرید کو تصوف کے دشوار گزار اور پر پیچ راستوں پر چلنے کے لئے تیار کرتا ہے۔سلوک کی یہ تمام منازل مرشد کی زیرِ نگرانی طے ہوتی ہیں اور یوں دورانِ تربیت ایک مرید اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کو اپنے مرشد کی مرضی کے حوالے کرتا ہے۔امام قشیری فرماتے ہیں ۔

صوفیا کی اصطلاح میں مرید وہ ہے جسکا اپنا کوئی ارادہ نہ ہو لہذا جو شخص اپنے ارادہ سے علیحدگی اختیار نہیں کرتا وہ مرید نہیں کہلا سکتا۔٭(3)

امام غزالی نے اپنی مایہ ناز تخلیق ” کیمیائے سعادت“ میں سالک یا مرید کے لئے کم و بیش یہی موقف اختیار کیا ہے۔امیر حمزہ شنواری کا نقطہ نظر بھی ماقبل کے صوفیاءکی تعلیمات سے بہت قریب ہے۔ان کا کہنا ہے

جب طالب حق کسی شیخ سے بیعت حاصل کرلے تو مناسب ہے کہ اپنا اختیار شیخ طریقت کے حوالے کردے“ ٭(4)۔ ایک مرید کے لئے صبر و رضا کی یہ منزل خاصی مشکل ہوتی ہے۔کیونکہ وہ اپنی ”میں “ کو یکسر بھول کر شیخ کے ارادے کے تابع ہوجاتا ہے اور اپنے ظاہر و باطن میں کسی قسم کا تصرف کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔یہ صبر آخر کار مرید کو منزل مقصود کی طرف لے جاتا ہے۔

صبر تلخ آمد و لیکن عاقبت

میوۂ شیریں دہد پر منفعت

(رومی)

صاحبِ تجلیات محمدیہ نے پیران طریقت کی چار اقسام بیان کی ہیں ۔‘(1) پیرِ بیعت (2) پیرِ خرقہ (3) پیرارشاد (4) پیرمحبت۔ان چاروں میں سے ”پیرِ بیعت “ کا مقام اور مرتبہ سب سے بلند ہے کیونکہ وہ صفات کا جامع ہوتا ہے اب یہ مرید کی اپنی قسمت پر منحصر ہے کہ اسکا واسطہ کس نوع کے پیر سے پڑتا ہے۔لیکن عقلِ سلیم رکھنے والا مرشد یقینا مختلف مراحل طے کرتا ہوا بالآخر پیرِ کامل تک رسائی حاصل کر ہی لیتا ہے۔جیسا کہ غالب نے بھی کہا تھا۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں

مرید کی تربیت سے متصل دوسرا مسئلہ تصور شیخ کا ہے جسے اصطلاح میں برزخ کہا جاتا ہے۔تصوف کی امہات الکتب میں اس موضوع پر تفصیلی مباحث ملتے ہیں ۔بابا شنواری نے سب سے پہلے تو عقلی اور نقلی حوالوں سے اس موضوع کے اخلاقی پہلوئوں کی نشاندہی کی اور پھر یہ ثابت کیا کہ تصور شیخ کسی طرح بھی اسلام کی روح سے متصادم نہیں ۔تصور شیخ کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے بعد وہ ایک اور اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا تصور شیخ مفید ہے یا غیر مفید۔اس علمی سوال کے جواب میں وہ جو کچھ فرماتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) مرید شیخِ کامل کا تصور کرنے کے بعد اس کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے اور اسکا دل محبت اور عمدہ اخلاق کو قبول کرنے لگتا ہے۔اس طرح وہ آہستہ آہستہ ہر قسم کی برائیوں سے کنارہ کشی اختیا ر کر لیتا ہے۔(2) طریقت ان اعمال کا نام ہے جن سے محبت حاصل ہوتی ہے یہ محبت اپنے مرشد سے ہوتی ہے یا رسول سے۔(3) ہر وقت اپنے مرشد کی یاد میں مگن رہنے سے اسے توجہ حاصل ہوتی ہے۔(4) تصور شیخ کی برکات سے ترک دنیا کے کٹھن راستے آسان ہوجاتے ہیں اور مرید نفسانی اور شیطانی خواہشات سے محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔(5) تصور شیخ مراقبہ کرنے کا سب بڑا اہم ذریعہ ہے۔ تجلیات محمدیہ کے باب پنجم میں تصورِ شیخ کی غرض و غایت تفصیلا ًموجود ہے۔انہوں میں انسانی فطرت اور نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس عمدگی سے اس موضوع کا حق ادا کیا ہے اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو وہی قاری لگا سکتا ہے جو اس کتاب کا بالاستعیاب مطالعہ کرے۔مکتوبات حمزہ میں بھی تصور شیخ پر وجد آفرین نکات موجود ہیں ۔اگر تجلیاتِ محمدیہ اور مکتوباتِ حمزہ کو اکھٹا پڑھا جائے تو اس موضوع پر بابا شنواری کے تصورات تمام تر جزئیات کے ساتھ نکھر کر سامنے آجاتے ہیں ۔تصوف کا قدیم اور جدید سرمایہ ”سماع “کے ذکر سے مزین ہے۔بابا شنواری نے نہایت دقتِ نظر سے اس موضوع پر تحقیقی ، تنقیدی اور توضیحی مباحث اٹھائے ہیں ۔وہ خود سماع کے حامی ہیں لیکن حد درجہ احتیاط کے بعد وہ اپنے نظریات پیش کرتے ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ سماع کے بارے میں علامہ حضرات نے جو احادیث نقل کی ہیں انمیں سے اکثر ضعیف ہیں یا انکی تاوےلات محدود نقطہِ نظر کے تحت کی گئی ہیں ۔اگر حضور اکرم نے سماع سے منع فرمایا تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہنود اپنے گانوں میں بتوں کی تعریف کرتے اور ساتھ شراب نوشی بھی کرتے تھے۔سماع کی مخالفت سے متعلق اکثر احادیث کا تعلق مکی زندگی خصوصا ًابتدائی دور سے ہے کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمانوں کو اگر سماع سے روکا نہ گیا تو وہ گمراہ ہوسکتے ہیں ۔حضور کی مدنی زندگی میں سماع کے حق میں کئی احادیث موجود ہیں ۔ابو نصر سراج طوسی کی تصنیف” کتاب اللمع “میں ایک واقعہ درج ہے کہ نبی کریم حضرت عائشہ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں دیکھا کہ دو لڑکیاں گانا گا رہی ہیں اور دف بجا رہی ہیں مگر آپ نے انکو اس سے منع نہیں فرمایا۔اور جب حضرت عمر ان پر ناراض ہوئے اور کہا کہ کیا رسول اللہ کے گھر میں شیطان کی بانسری بجائی جارہی ہے تو آنحضرت نے فرمایا کہ اے عمر انہیں کرنے دو جو کچھ یہ کرتی ہیں کیونکہ ہر قوم کی عید ہوتی ہے۔(5)٭ابو نصر سراج طوسی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر گانا ممنوع ہوتا تو عید اور غیر عید دونوں کا یکساں حکم ہوتا ۔اس قسم کی احادیث بہت زیادہ ہیں ۔(6)٭۔ حضور اکرم کی یہ احادیث تو ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ ” قرآن کو اپنی آواز سے مزین کیا کرو“ اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اچھی آواز کی تعریف کی گئی ہے جس طرح اچھی آواز کی ہر صاحبِ ذوق تعریف کرتا ہے بالکل اسی طرح بری آواز کی ہر کوئی مذمت کرتا ہے۔حتی کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ” گدھے کی آواز مکروہ ترین آواز ہے“ اور یحی بنِ معاذ رازی فرماتے ہیں کہ عمدہ آواز اس دل کے لئے جس میں اللہ کی محبت ہو ، ہوا کا ایک جھونکا ہے۔دورِ جدید میں موسیقی کے اسرار و رموز پر بالخصوص مغرب میں جو تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں انکے مطابق انسان کے کئی ذہنی امراض کا شافی علاج موسیقی کے ذریعے ممکن ہے۔یہ ایک فطری طریقِ علاج ہے۔انسان کے اندر کچھ ایسے غدود موجود ہیں جو صرف موسیقی سے ہی متحرک ہو کر اپنا وظیفہ انجام دیتے ہیں۔ تصوف میں اگر اس پر اتنا زور دیا گیا ہے تو وہ بلا وجہ نہیں ۔ سماع کے پس منظر میں نہ جانے کتنے انمول خزانے پوشیدہ ہیں ۔ہمارے کئی مشرقی مفکرین اور سائنسدانوں نے فن موسیقی پر جو قابلِ قدر کام کیا ہے وہ بھی لائقِ توجہ ہے۔کتاب اللمع میں لکھا ہے کہ یہ بھی مشہور ہے کہ پہلے زمانے کے لوگ سوداوی مرض کے مریض کا علاج عمدہ آواز سے کیا کرتے تھے۔اور مریض صحت یاب ہو جاتا تھا ۔(7)٭

کشف المعجوب میں علی ہجویری فرماتے ہیں کہ ” الحان و سرود جانداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں 8٭۔اس ضمن میں انہوں نے کئی حکایات بیان کی ہیں ۔ مثلاً خراسان اور عراق میں رات کے وقت ہرن پکڑنے والے ایک طشت بجاتے ہیں ہرن اس کی آواز سن کر اپنی جگہ پر ساکت ہوجاتے ہیں اور پکڑ لئے جاتے ہیں ۔حضرت داتا گنج بخش نے اپنے شیخِ طریقت کا ایک قول بھی نقل کیا ہے۔”سماع اہلِ عجز کا زادِ سفر ہے جو منزل پر پہنچ گیا اسے سماع کی ضرورت نہیں ہے“٭(9)۔ گویا اقبال کے الفاظ میں ۔” یہ زادِ راہ ہے منزل نہیں ہے“۔

بابا شنواری کے نزدیک سماع کا تعلق حواسِ باطنی کے ساتھ ہے۔ جو لوگ سماع کو برا کہتے ہیں انکی ارواح کالی سیاہ ہیں اور حیوانات سے بھی بد تر ہیں ۔ایسے لوگ حق اور تحقیق کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔٭(10)

انہوں نے مدلل انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین سے سماع سننا ثابت ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ امام ابو یوسف ، امام دائود تائی، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے بلند مرتبہ اور شریعت کے پابند علمائے کرام سماع پسند فرماتے تھے۔ گویا اسلام کے صدرِ اول سے لیکر جدید عہد تک سماع کے حق میں ایک قوی اور مسلسل روایت موجود رہی ہے۔تجلیاتِ محمدیہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سماع کے مخالفین میں اہلِ ظاہر ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔امیر حمزہ شنواری نے سماع پرعمیق اور دقیق نقات بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔”جس دل میں خدا کی محبت کی آگ موجود ہو انکے لئے سماع از حد ضروری ہے“ اس کے بر عکس اگر کسی کے دل میں فضولیات اور حرام کاریوں کی محبت ہو تو ایسے دل والوں کے لئے سماع نہ صرف حرام بلکہ زہرِ قاتل ہے۔٭(11)۔ گویا دل اگر ملکوتی صفات کا حامل ہے تو سماع کے اثرات خوش گوار اور با مقصد برآمد ہونگے اور اگر یہی دل سفلی جذبات کے زیرِ اثر ہوا تو سماع اسکے نفسِ امارہ کو اور تقویت دے گا۔ درحقیقت سماع کے اثرات اور ثمرات ہر شخص کی تربیت کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں ۔سماع سے بالعموم وہی چیز ظاہر ہوتی ہے جو دل میں پوشیدہ ہو مثلا اگر دل عشقِ خدا وندی کا گہوارہ ہے تو سماع سے یہ عشق کی آگ اور زیادہ بھڑکے گی۔اور سالک پر وجد کی کیفیت طاری ہوجائے گی لیکن مجازی محبت کا حامل شخص وجد کی اس کی روحانی لذت سے محروم ہو کر تاریکی میں گم ہوجائے گا۔رسالہ قشیریہ میں حضرت امام قشیری نے اپنے مرشد استاد بو علی دقاق کے حوالے سے جو قول نقل کیا ہے وہ توجہ طلب ہے۔عوام کے لئے سماع حرام ہے اس لئے کہ انکے نفوس اپنی حالت پر قائم رہتے ہیں ۔زاہدوں کے لئے مباح ہے کیونکہ انہیں مجاہدات حاصل ہیں ۔اور ہمارے مریدوں کے لئے مستحب ہے تاکہ انکے دل زندہ ہوں ٭(21)۔تصوف کی قدیم کتب مثلاً تعرّف از امام ابو بکر الکلابازی ، کتاب اللمع از ابو نصر سراج طوسی ، رسالہ قشیریہ از امام ابو القاسم بن ہوازن قشیری اور کشف المعجوب از علی ہجویری میں سماع کے بارے میں جو سیر حاصل مباحث کئے گئے ہیں ، تجلیاتِ محمدیہ میں ان سب کا نچوڑ موجود ہے۔ تصوف کی یہ قدیم کتب چونکہ اب کمیاب ہیں اسلئے عہدِ حاضر میں ’تجلیاتِ محمدیہ‘ شائقینِ تصوف کے لئے من و سلوی کی حیثیت رکھتی ہے۔امیر حمزہ شنواری کی کتاب دنیائے تصوف میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

(کتابیات)

تجلیاتِ محمدیہ تالیف امیر حمزہ شنواری

ترجمہ سید طاہر بخاری، چشتی، نظامی، نیازی

یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور طباعت 1998

2۔پشتو ادب کی مختصر تاریخ از تاج سعید

مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سن اشاعت 1995

3۔رسالہ قشیریہ تالیف امام ابو قاسم بن ہوازن قشیری

مترجم ڈاکٹر پیر محمد حسن

ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد اشاعت 1995

4۔کتاب اللمع فی التصوف از ابو نصر سراج طوسی

ترجمہ ڈاکٹر پیر محمد حسن

ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد اشاعت دوم 1996

5۔ کشف المعجوب از حضرت سید علی ہجویری۔۔۔۔مترجم علامہ فضل الدین گوہر

ناشر ضیاءالقرآن پبلی کیشنز گنج بخش روڈ، لاہور اشاعت اکتوبر 1986

(حوالہ جات)

1۔ تجلیات محمدیہ ص 498

2۔ایضا ص 486

3۔ رسالہ قشیریہ ص 404

4۔ تجلیات ِ محمدیہ ص 199

5۔ کتاب اللمع ص 401

6۔ایضا ص 395

7۔ایضا ص 395

8۔ کشف المعجوب ص 255

9۔کشف المعجوب ص 557

10۔ تجلیاتِ محمدیہ ص 319

11۔ایضا ص 293

12۔ رسالہ قشیریہ ص 600\