ادھورا خواب
اظہر نقوی
یہ کیسا خواب ہے
جس کا ہر اک منظر ادھورا ہے
ادھورے منظروں میں آسماں پورا نہیں ہوتا
سخن گم کردہ لمحوں کے عقیدے میں
تیقن سانس لیتا ہے
ہوا برہم نہیں ہوتی
کہیں الفاظ ہوتے ہیں ، مگر لہجے نہیں ہوتے
کہیں لہجے تو ہوتے ہیں ، مگر چہرے نہیں ہوتے
کہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
وہیں سے اس ادھورے خواب کا منظر بدلتا ہے
وہیں سے دوسری جانب کواک رستہ نکلتا ہے
مگر مجھ کو ، کہیں بھی دوسری جانب نہیں جانا
مجھے اُس پار جانا ہے
جہاں بے خال و خد صدیاں
فریبِ ساعتِ معلوم کے سائے میں
ننگے پاؤں چلتی ہیں
برہنہ رقص کرتی ہیں
جہاں وہ نقطۂ آغاز ہے
جس کی مسافت میں زمانے چُور ہوجائیں
مجھے اُس پار جاناہے
جہاں کوئی فریبِ ساعتِ معلوم کے
سائے میں رہتا ہے
مگر یہ سامنے
اک تیز رو دریا جو بہتا ہے