شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

ادھورا خواب
اظہر نقوی

یہ کیسا خواب ہے
جس کا ہر اک منظر ادھورا ہے
ادھورے منظروں میں آسماں پورا نہیں ہوتا
سخن گم کردہ لمحوں کے عقیدے میں
تیقن سانس لیتا ہے
ہوا برہم نہیں ہوتی
کہیں الفاظ ہوتے ہیں ، مگر لہجے نہیں ہوتے
کہیں لہجے تو ہوتے ہیں ، مگر چہرے نہیں ہوتے
کہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
وہیں سے اس ادھورے خواب کا منظر بدلتا ہے
وہیں سے دوسری جانب کواک رستہ نکلتا ہے
مگر مجھ کو ، کہیں بھی دوسری جانب نہیں جانا
مجھے اُس پار جانا ہے
جہاں بے خال و خد صدیاں
فریبِ ساعتِ معلوم کے سائے میں

ننگے پاؤں چلتی ہیں
برہنہ رقص کرتی ہیں
جہاں وہ نقطۂ آغاز ہے
جس کی مسافت میں زمانے چُور ہوجائیں
مجھے اُس پار جاناہے
جہاں کوئی فریبِ ساعتِ معلوم کے
سائے میں رہتا ہے
مگر یہ سامنے
اک تیز رو دریا جو بہتا ہے