شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

ایڈیٹر کی ڈاک

برادرِ عزیز جان عالم

دعائیں

عجب پر محن لمحات ہیں ۔غم و الم کے اثرات سے لبریز دن رات ہیں ۔اللہ تعالیٰ زلزلے میں جان بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو پسماندگان ہیں انہیں صبر کی توفےق فرمائے۔یہ زلزلہ بچ جانے والوں کے لئے انتباہ ہے۔

شعروسخن کا ستمبر تا نومبر کا شمارہ مل چکا تھا۔جستہ جستہ پڑھ بھی چکا ہوں ۔اداریہ سوچ کا نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔اس شمارے میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا مضمون” مرزا غالب کا خودنوشت خاکہ “(تحقیےق و ترتیب)خاصے کی چیز ہے۔یہ بڑا دقت طلب کام تھا، جسے ڈاکٹر صاحب نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ مستند حوالوں کی مدد سے مکمل کیا ہے۔احمد حسین مجاہد کا مضمون ”سانسوں کا سنگیت“میں نے دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔چونکہ میں نے پری میٹرک تک ہندی اور سنسکرت اضافی مضمون کے طور پر پڑھی تھی ۔نصاب میں تلسی داس ، کبیر اور رحیم خانِ خاناں کے دوہے بھی تھے ۔اس لئے دوہے کے فن کی تھوڑی بہت آگہی ہے۔ہمارے عہد کے بعض شعراءدوہے کے آہنگ اور وزن میں تصرف کر کے کتنے ہی تجربے کر لیں لیکن اصل وزن میں کہے ہوئے دوہے ہی ”دوہا نگاری“ کا حق ادا کرتے ہیں ۔طاہر سعیےد کا درجہ ذیل دوہا مضمون ، آہنگ اور وزن کے لحاظ سے دوہے کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔

چکی نائیں دیکھتی گہیوں ہے یا گھن

وہ تو جانے پیسنا ، ایک ہی اُس کا گن

حصہ نظم بھرپور ہے۔اس لحاظ سے بھی کہ ایک ہی شمارے میں بتیس غزلیں اور چودہ نظمیں شریک اشاعت ہیں ۔بعض شعراءمثلاً وحید احمد ، محمد حنیف اور حسن عباسی کی غزلیں ندرت اور تازگی لئے ہوئے ہیں ۔حصیر نوری ، صابر عظیم آبادی اور پرویز ساحر کی غزلیں لائقِ تحسین ہیں ۔صابر عظیم آبادی نے مشکل قافیے میں غزل کہی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے صوتی قافیے کا سہارا بھی نہیں لیا ہے۔ورنہ عام طور پر شعراءنشاط ، بساط کے ساتھ ساتھ رات اور بات کا قافیہ بھی استعمال کر لےتے ہیں ۔شاہد مجید کا یہ شعر پرانے مضمون کو نئے رخ سے کہنے کی عمدہ مثال ہے۔کیا خوب شعر کہا ہے :

نجانے کون سا لمحہ جدا کر دے ہمیں پھر سے

اسی امید پر ملتے رہے ہم عمر بھر دونوں

دو ایک غزلوں میں مشہور اشعار کا پرتو نظر آیا ۔شعراءکوحتی الامکان ایسے مضامین سے گریز کرنا چاہیے۔

مجھے تو ساتھ لئے پھرتی ہے سڑک شب کی

کہ میرا گھر ہی نہیں ہے جو میں بھی گھر جاتا

(مرتضیٰ اشعر)

بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا

کاش ہمارا بھی گھر ہوتا ، گھر جاتے ہم بھی

(انور شعور)

کبھی تو خود کو بھی آتے میسر

کبھی ہم بھی ہمارے ساتھ پھرتے

(رستم نامی)

راقم الحروف نے بہت پہلے کہا تھا:

عمرِ مصروف کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا

میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا

تمہارا یہ شعر پڑھ کر لگا کہ صوفی ہوتے جا رہے ہو۔

پھر دیکھتا کبھی نہ کسی اور کی طرف

اک بار دیکھ لیتا اگر خود کو تُو کبھی

دو اشعار میں قوافی بنانے کا عمل بھی نظر آیا ”بھوک بھی“ کی داد دی جا سکتی ہے۔لیکن کبھو کبھی سے بات نہیں بن پائی۔

والسلام۔دعا گو

:محسن بھوپالی۔کراچی۔

عزیز محترم السلام علیکم!

باوجود کوشش کے آپ سے ٹیلی فون پر رابطہ نہ ہو سکا ۔مقصود آپ کی ، آپ کے متعلقین کی اور مانسہرہ کے احباب کی خیریت معلوم کرنا تھی۔زلزلہ نے جو قیامت مچائی ہے اُس سے ہم سب متاثر ہیں ۔وہ خطۂ زمین کہ بہشت آثار تھا، جہنم زار بن گیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے۔ہزاروں کو موت نگل گئی ۔اور لاکھوں کھلے آسمان تلے بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔عزیزِ من! کیفیت وہ ہے نہ پڑھا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے۔بس یہیں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔دعا ہے کہ ربِ کریم اس ابتلا میں ہمیں اپنے خاص کرم سے نوازے اور پامردی سے اس کا مقابلہ کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔اُس کی بارگاہ سے آپ کے متعلقین ، جملہ دوستو، اہلِ علاقہ ، اہلِ وطن ، امتِ مسلمہ اور پوری انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا طلبگار ہوں ۔مطلع کیجئے کہ آپ اور آپ کے متعلقین کیسے ہیں ۔نہایت عجز کے ساتھ : ربنا تقبل مناانک انت السمیع العلٰم۔ خیر اندیش صوفی عبدالرشید

بیروٹ

جان!

خط ملا۔لوگ بھاگ دوڑ میں تھے۔سو وہ بھٹکتا رہا۔بہت دن ہوئے اُسے آئے ہوئے اور آج مجھے کسی نے دیا۔میں جب لکھنے پہ آتا ہوں تو جہاں تہاں کچھ نہ کچھ لکھتے ہی رہتا ہوں ۔اسی طرح کے کسی وقت کا لکھا میرے جیب میں محفوظ رہا ۔ڈاکخانے میں لفافے نہ تھے سو ننگا(پوسٹ کارڈ کی صورت)ہی بھیج دیا۔خیرکون پڑھتا ہے لکھے ہوئے کو۔زلزلے کو اگر آپ عذاب کہتے ہیں تو لکھتے ہوئے یہ عمل کرنے سے یہ ٹل بھی سکتا تھا۔بالاکوٹ میں میرے چند دوست تھے ، میں وہاں گیا۔اُن میں ایک”دوستوں کے درمیان وجہ دوستی“تھا ، سکول کی چھت تلے دب گیا، مر گیا۔میں اُس کی قبر پہ پہروں بیٹھا رہا۔دوسرا دوست شاہ زمان جس کے گھر کے نو افراد مر گئے ، کہتا تھا کہ میں بھی مر گیا ہوں مگر طاہر الہٰی کی طرح میری قبر نہیں بنی۔میں نے سوچا میں کیوں نہیں مرا کہ جس وقت میں زمین پہ جھولا جھول رہا تھا تو اُس وقت طاہر الٰہی چھت کے تلے دبا ہوا تھااور شاہ زمان کے گھر کے نو افراد مر رہے تھےبہت لوگ مر گئےبہت سے لوگ اپاہج ہوگئے۔امریکہ آگیا امداد آگئی۔سنا ہے امریکی فوجی جب کوئی لاش نکالتے ہیں تو اُس کا ماتھا چومتے ہیں ۔ہم آپ تو زندوں کے دشمن اور مردوں کے مرید ہوتے ہیں ، مغرب میں مردہ پرستی ہے نہ مردہ پرستاری، پھر یہ کھیل کیوں ؟تو کیا یہ ناممکن ہے کہ آخر آخر امریکہ بہادر اپنے دو چار ہیلی کاپٹر گرا کر الزام لگا دے کہ القاعدہ نے دیکھیں کیا کر دیا ۔تب تو ساری دنیا کہے گی ، دہشت گردوں سے بچاؤ، وہیں رہو۔ہماری سادہ دلی راہ ہموار کرے گی۔ہم تو قبر پہ ٹنگی سبز رنگ کی چادر سے بھی امیدِ وفا رکھتے ہیں وہ تو جیتی جاگتی طاقت ہے۔پھر یوں ہوگا کہ ہم رہیں گے مگر ہم ہم نہیں رہیں گے۔وہ ایٹم بم ہمارا کون سنبھالے گا۔تو بھی چچا سام کو دے دیا جائے۔خاکم بدہن کہیں پاکستان کو تاریخ لکھنے والے مقبوضہ پاکستان نہ لکھیں ۔تو یہ خیالات آرہے ہیں ۔خون کے چند قطرے خراج میں وصولتے ہیں ، پھر چلتے بنتے ہیں ۔زلزلہ آیا ، گزر گیا۔مگر میری ذات میں بھی ایک زلزلہ ہے جو گزرنے کا نام نہیں لیتا۔لیکن میں اپنا خیمہ سجاتا ہوں ، کتابیں درست کر کے رکھتا ہوں ۔مجھے خبر ہے کہ یہ فرار ہے لیکن مجھے پسند ہے کہ فرار زندہ رکھتا ہے۔اور ہر بزدل انسان کی طرح مجھے بھی زندگی سے پیار ہے۔آپ کا خط میں بار بار پڑھ رہا ہوں ۔شعروسخن کے شمارے بھی پڑھتا رہتا ہوں ۔آخری شمارے میں تو بعض چیزیں ایسی ہیں کہ لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے۔اور وہ ہوگیا۔میں نے سنا ہے کہ زلزلے سے پہلے پرندے ہجرت کر گئے تھے۔شاید کچھ لوگ ، کچھ انسان ایسے بھی ہوں جو کسی بڑی افتاد سے پہلے ہی خبردار ہو جاتے ہوں ۔ایسے کتنے ہی ہوں گے جو کہ ہجرت نہ کر سکے ہوں ۔آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ وہ محبت میں بہت اگریسو ہے۔مگر یہ انسان کیا عجٰب و غریب مخلوق ہے انسان مر گیا ، زندہ بھی رہ گیاانسان نے انسان کے لئے امداد کے دریا بہا دئےیا انسان نے انسان کو ملبے سے نکالاہسپتال پہنچایاانسان نے انسان کی لاش ٹٹولی اور پیسے نکال لئے۔ان پیسوں کی اب اُسے زیادہ ضرورت تھی۔انسان نے انسان کے زیور لوٹ لئے۔انسان گروہ در گروہ کام میں جتا ہوا ہے۔خیر کا کام ہورہا اور شر کا بھی۔معصوم بچیاں اغوا کر کے ہیرا منڈی میں پہچا دی گئیں ۔خرکاروں کو اب انسان کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی ضرورت نہیں رہی۔یہ کام دستِ قدرت نے کر دیا ہے۔خیمے آئے ، ہمارے ہاں ٹینٹ مافیہ وجود میں آگئی۔لوگ ٹینٹ جمع کر رہے ہیں ۔سیاست دان امداد کو آئندہ کے لئے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرنے میں کوشاں ہیں ۔مولویوں کو مدتِ مدید کے لئے موضوع ہاتھ آگیا ہے۔ہر باعث کا آغاز گناہ سے ہوتا ہے اور انجام عورت کی بے پردگی پر۔اور اسے افسانوی رنگ میں بیان کیا جاتا ہے کہ خدا بھی خوش رہے اور حظ بھی اٹھایا جاتا رہے۔”نزلہ بر عضوِ ضعیف “اسی کو کہتے ہیں ۔مولوی پوری قوم کو گنہگار ثابت کرنے کے لئے جمعہ ہفتہ کا زور لگا رہے ہیں ۔تو یہ کچھ ہو رہا ہے ۔اور اگر میں آپ کی طرح سوچوں تو خود کو بے بسی کی دلدل میں پھنسا ہوا پاتا ہوں ۔میں آپ کی طرح نہیں سوچ سکتامیں گھبرا جاتا ہوں ۔مرنے کے بعد کے حساب کرتا اور سزاؤں کے متعلق سوچتا ہوں تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔عبدالعزیز ساحر کہا کرتا تھا، ”گل کرنی اے گل کھولنی نئیں “۔وہ ذات جس کے روبرو مجھے آپ کا خط کھڑا کر رہاہے ، بہت بڑی ذات ہے۔جو چاہے کرے ۔بستیوں کو کھنڈر کرے اور ہاں آگے عید بھی تو آرہی تھی سنگلاخ پہاڑوں سے اتر کر پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں بہنوں کے لئے دوپٹے، ماؤں کے لئے کپڑے ، بیویوں کے لئے چوڑیاں اور منگیتروں کے لئے چھلے لانے والے نوجواں نے آکر کیا دیکھا ہوگا؟کتنے چھلے انگلیوں کو ترستے رہ گئے، کتنے دوپٹے ، کپڑے اب ماؤں بہنوں کی نشانیاں بن کر رہ گئے۔شاید قرآن میں کہیں لکھا ہے ”اور ہم نے اُن کی چھتوں کو اُن کا فرش بنا دیا۔“اب اُس ذات کے روبرو کیا کہا جائے۔جی تو چاہ رہا ہے کہ میمونہ رفیق سے کہا جائے کہ ہم سب کی طرف سے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہہ دے

دیکھو ایسا کیوں کرتے ہو

ٹھیک ہے لیکن

پھر بھی ایسا کیوں کرتے ہو

کیونکہ اُس کے سامنے گل کرنی اے گل کھولنی نئیں ۔”اور وہ محبت میں بڑا اگریسو ہے۔پلیٹیں اُس کی ہیں ، وہ خفا ہوگا تو چیزیں توڑے گا۔“یہ آپ نے لکھا تھا۔اور دیکھئے اس گھمبیر رومانوی بات نے مجھے ایک شعر یاد دلا دیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

انسان اپنی طبیعت سے کتنا مجبور ہوتا ہے۔الو کا پٹھاپر ایک بڑے جبر کے تلے ہنس ہنس کے جینے والاتو کہا جائے انسان زندہ باد۔

آپ کا مطیع ۔مطیع الرحمان عباسی۔بےروٹ۔براستہ راولپنڈی

محترم جان عالم صاحب!

آداب

اس شمارے میں فیروز شاہ صاحب سے بات چیت خاصے کی چیز ہے ۔شاہ صاحب کی ایک کتاب کا سرورق کبھی میں نے بنایا تھا۔اُن دنوں اُن سے قلمی رابطہ رہا کرتا تھا۔آج کل خصوصیت کے ساتھ اُن کی تحریروں میں نکھار نظر آتا ہے۔اُن کی باتیں ، زبان و بیان کا انداز سبھی لائقِ توجہ ہیں ۔دوسری خوبصورت تحریر اشفاق ورک صاحب کی غالب کی خودنوشت ہے۔اگرچہ یہ کمال تو غالب کا ہی ہے لیکن صاحبِ تحریر نے جس انداز اور عرق ریزی سے ان مکتوبات کو ایک خودنوشت خاکے میں ڈھالا وہ سراہے جانے کے لائق ہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ ان دنوں (بارِ دگر)”مرزا غالب“فلم دیکھ رہی تھی جو گلزار صاحب نے بنائی تھی۔اس لئے اس مضمون نے اور لطف دیا۔افسانوں میں مشرف عالم ذوقی کا افسانہ انتہائی خوبصورت تھا۔گو المیہ پرانا ہے لیکن ان کے اندازِ بیان نے اسے نیا پن دے دیا۔غزلیات میں ڈاکٹر رفیق صاحب کی غزل پسند آئی ۔جمشید صاحب کی ”اردو ڈیپارٹمنٹ“ ، آپ کی نظم ، طارق جاوید کی غزل کا مطلع اور احمد حسین مجاہد کی غزل بھی خوبصورت تھی۔

آپ نے جس کامیابی سے میری نظم کی قطع برید فرمائی ، واقعی پسند آئی۔دراصل عموماً میں اتنی عجلت میں ہوتی ہوں کہ نظر ثانی کی بھی فرصت نہیں ملتی۔یہ تصحیح میں نے اپنی ڈائری میں بھی کر لی ہے شکریہ۔دعاؤں کے ساتھ ۔

شبہ طراز ۔لاہور۔

جانانِ جان ِ عالم

سلام و یاد

سردست ےومِ آزادی کی مبارکباد قبول کےجئے۔ماہِ رواں (اگست) کے مبارک دنوں میں آپ کا یادنامہ ہاتھ آیا، اس یاد فرمائی اور بھل منسائی پر ہم آپ کے منت دار ہیں ۔بخدا آپ کے پرےم گٹکوں نے ہمیں مول لے لیا ہے۔، سو ہی ہم پانی پی پی کر آپ کو دعائیں دےتے ہیں ۔وےسے آپ بڑے موہنے طوطے ہیں ۔بات سے بات نکالنا آپ کا تخصص ٹھہرا۔اب کے آپ نے موجودہ صنعتی عہد کے مشےنی انسانوں کا ذکر چھےڑا ۔آپ جانیں کہ ہم بھی اس صحبتِ نا جنس میں مبتلا رہے ہیں ۔ہم نے بھی ایسے مشےنی انسان دیکھ رکھے ہیں ، ہمیں بھی آئے دن ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، مگر بحمد اللہ ہنوز ہمارے اندر کا انسان سلامت ہے، حےف صد حےف کہ آج کا انسان اپنی ہی اےجاد کردہ اشیائے بے جان کا دست نگر ہو کر رہ گیا۔

کیونکر کہیں کہ ہمارے شب و روز ِ حیات کیسے گزر رہے ہیں ۔وہی مرنا جینا لگا ہوا ہے، راتیں تپ جپ میں گزر رہی ہیں اور دن فکرِ دنیا میں ۔بقول غالب

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

ایسا معلوم دیتا ہے کہ جیسے ہم وقت کی تیز رفتار ریل گاڑی میں بیٹھے سفر کر رہے ہیں ، ہر منظر عقبی سمت گریز پا ہے ع نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اس سمے ہمارے یہاں بارش جھمر جھمر برس رہی ہے۔ہر سو رُم جھم کا سماں ہے۔جملہ احباب کی خدمت میں درویش کا سلام پہنچے۔اللہ آپ کو اپنی رحمت کی چھئیاں میں رکھے۔ والسلام۔بندۂ اخلاص۔

پرویز ساحر۔نواں شہر۔ایبٹ آباد