شعر و سخن مان سہرا ۔۔۔ آن لائن ایڈیشن

Wednesday, March 08, 2006

نقد ونظر

(تعارف و تبصرے )

نام کتاب: برائے فروخت

صاحبِ کتاب: محمد حامد سراج

تبصرہ: جان عالم

جناب حامد سراج کا افسانوی مجموعہ ”برائے فروخت “منصۂ شہود پر آیا۔حامد سراج کہانی کو افسانہ کرنا خوب جانتا ہے۔بلکہ اُسے جملوں میں کہانیاں سمونا اور لفظوں میں افسانے کہناخوب آتا ہے۔اُس کے پاس بقول افتخار مغل بڑی کہانی لکھنے کے لئے بڑے موضوعات ہیں۔وہ معاشرتی زندگی سے ایسے ایسے موضوعات کو دریافت کرتا ہے جن کی طرف کم کم لوگوں کی نظر جاتی ہے۔”آخری آئس کیوب“کے آغاز میں ہی وہ قاری کوگرمااور پگھلا دیتا ہے۔جب وہ کہتا ہے؛

تم چاہو بھی تو اس یقین کو واپس نہیں لاسکتیں جسے تم نے ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔

میں تمہاری تھی ہی کب۔۔۔۔۔؟

تو پھر وعدے گرہ میں کیوں باندھے تھے۔

اور پھر ذرا آگے چل کر اس مکالمے سے ملیے؛

تمہیں معلوم ہے تم محبت کو کس مقام پر لے آئی ہو۔

یہ میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔محبت کیا سوچ کر کی جاتی ہے!“

تم روح اور بدن کے درمیان جو دیوار ہے اُس کا قضیہ تو چکا دو۔

روح بھی تمہاری ہے اور بدن بھی ۔ میں اپنے بدن کی کسی سرحد پر کوئی پہرہ نہیں بٹھاؤں گی۔“اُس نے آہستگی سے اداسی کی چادر کا ایک کونا پکڑ کر کھینچا۔

حامد سراج کو کہنا آتا ہے ۔اُس کے پیش نظرچند افسانوں کو شیرازہ بند کرنا نہیں ہے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور وہ کہتا ہے۔میں نے پہلے بھی کہیں کہا تھا کہ افسانے میں کہانی کا ہونا یا نہ ہونا ایک تنقیدی بحث ہے جسے اس میدان کے صاحبِ انتقاد ہی جانیں، ہمیں تو افسانے کی سطر در سطر گلیوں میں کہانیاں بنتے جملوں سے واسطہ ہے جو ہمیں معانی کی اُن غلام گردشوں تک لے کر جاتی ہیں جہاں لفظ چیختے ہیں اور کہانیاں افسانے جنم دیتی ہیں۔

حامد سراج کے مطالعے کا ذوق اور ایک سنجیدہ قاری ہونے کا شرف اُس کے تخیلاتی کینوس کو وسعت دیتا نظر آتا ہے جس کا اندازہ اُس کی وسیع النظر ی اور مشاہداتی تدبرکی صورت میں اُس کے لفظوں سے پھوٹتا چلا آتا ہے۔

افتخار مغل نے جو کہا بجا کہاکہ

ارون دھتی رائے سے محمد حامد سراج تک پھیلی یہ آواز شاہراہِ وقت کا ایک سنگِ میل ہے۔جس کے دونوں طرف ایک جیسے فاصلے اور ایک جیسے فیصلے درج ہیں۔یہاں سے ماضی بھی zero distance پر ہے اور مستقبل بھی!“

اور داستان سرائے دہر میں کہانی گو یا افسانہ نگار کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ وقت کی قید سے آزاد ہو جائے یا وقت اپنے تعین کی قید خود اٹھا دے۔حامد سراج کے افسانوں کو پڑھتے وقت یہ کیفیت بارہا طاری ہو جاتی ہے کہ جب قاری وہیں پہنچا ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار اُسے لے کر جانا چاہتا ہے۔

انیس(19) افسانوں کا یہ مجموعہ ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں 144صفحات پر محیط ہے ۔اور کتاب کی قیمت 140 روپے ہے۔گویا حامد سراج نے قاری کوایک روپے میں ایک صفحہ دیا ہے ۔اس مہنگائی کے دور میں ادب ہماری اور کیا خدمت کر سکتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭

نام کتاب: خواب پرندے

شاعر : محمد فیروز شاہ

تبصرہ: جان عالم

محمد فیروز شاہ کا شعری مجموعہ ”خواب پرندے“ منصہ شہود پر آیا۔محمد فیروز شاہ کی اس سے قبل کم و بیش نو کتابیں (نظم و نثر) چھپ چکی ہیں۔کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم لکھتے ہیں کہ

شاعری میں خیال سے ہم آہنگ لفظیات ، تلازمات ، تشبیہات اوراستعارات کا جمالیاتی اور تخلیقی استعمال بھی شاعر کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔محمد فیروز شاہ اس مشکل مرحلے سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر گئے ہیں۔انہوں نے مروج متروک لفظیات اور تلازمات سے دامن کش ہوتے ہوئے ، زبان و بیان کے نئے قرینے بروئے کار لاتے ہوئے اپنا شعری اسلوب تراشا ہے۔

اسی طرح پروفیسر فتح محمد ملک نے شاعر کے بارے میں یوں تبصرہ کیا ہے؛

وہ اپنے کلچر کا نمائندہ شاعر ہے۔جس طرح خواجہ غلام فرید نے اپنی شاعری کے ذریعے روہی کو امر کر دیا اسی طرح فیروز شاہ کی شاعری بھی تھل کلچرکی نمائندگی کرتی ہے۔

کتاب کا مجموعی تاثر علامتی ہے ۔ پیڑ، پرندے، ، خوشبو، ہوائیں، چراغ، صدائیں، ، خوشیاں، چڑیاں، جنگل، دریا، پانی وغیرہ ایسی علامتیں ہیں جو ہماری زندگی کے داخلی محسوسات کی ترجمان ہیں۔یہ علامات کبھی محبت بن جاتی ہیں تو کبھی محبت کا دکھ ۔یہ علامات کبھی احتیاج کا رنگ اوڑھتی ہیں تو کبھی احتجاج بن جاتی ہیں۔ہر غزل میں اس بھر پور انداز میں علامات کا یلغار نظر آتا ہے کہ قاری کو ہر جگہ رکنا پڑتا ہے۔اس تفہیم کے لئے جسے قاری نے خود علامتوں سے تراشنا ہے ۔

علامات اگرچہ مجرد اندازِ بیان ہے لیکن اس تجرید میں بھی ایک تصویر کا بننا نہایت ضروری ہے۔اگر علامت قاری کے فکری کینوس پر کسی بھی طرح کی تصویربنانے میں ناکامیاب ہوتا ہے تو یہ شاعر کا عجز سمجھا جانا چاہیے۔بھلے وہ تصویر شاعر کی تصویر سے الگ ہو لیکن تصویر کا بننا نہایت ضروری ہے۔یہ شعر کی خوبی بھی شمار ہوتی ہے اورعلامت کے فرائض میں بھی شامل ہے۔فیروز شاہ کے ہاں بیشتر اشعار میں علامتیں تصویریں بناتی ہیں اور خوب بناتی ہیں۔اس شعر کی فضا میں آئیں تو علامتوں کو ہمارے معاشرتی رویوں کے تناظر میں تصویریں بناتا دیکھیں۔وہ معاشرہ جہاں عورت کو تو بڑا مقام دینے کے نعرے بلند ہوتے ہیں لیکن عورت کو رشتوں اور قدروں میں کم کم دیکھا جاتا ہے۔جہاں زلفِ گرہ گیر پر قصیدہ تو لکھے جاتے ہیں لیکن چاردےیواری کی چکی میں پستی عورت کے محسوسات کا احساس نہیں کیا جا تا۔لیکن فیروز شاہ کی علامت گھر کے اندر جھانک رہی ہے ۔شعر ملاحظہ کےجئے:

گجرے تمام شہر میں بانٹ آیا تو کھلا

گھر میں بھی منتظر تھی کلائی مرے لئے

وہ رشتوں کو شاعری میں کھینچ لاتا ہے اور قاری کو احسا س دلاتا ہے کہ hypomanic,اورشیزوفرینک خودکلامی سے باہر نکل کر حقائق سے آنکھیں ملانا فکری صحت کی علامت ہے۔وہ جب ایک غزلیہ شعر میں”ماں “کی ممتا کو علامت کرتا ہے تو قاری کو اس پر بے طرح پیار آتا ہے۔

سبز دعاؤں کی کونجیں

کیوں ہجرت کر جاتی ہیں

محمد فیروز شاہ اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ انسان ظلمت اور تاریکی، معاشرتی بے راہ روی کے خلاف آواز نہ اٹھاپائے۔وہ ایسے انسانوں کے مجرم قرار دیتا ہے ۔وہ اس جوہر کی ودیعت پر ایمان رکھتا ہے جو اللہ نے انسان کو تخلیق کے وقت عطا کیا تھا۔انسان ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائے گا، اگر وہ آواز نہیں اٹھاتا تو وہ اپنے انسان ہونے کا جواز پیش کرے۔

وہ بھی شب کا شریک مجرم ہے

جس دیے میں ضیا نہیں ہوتی

میں نے اوپر کہا تھا کہ فیروز شاہ کے بیشتر اشعار میں علامتیں تصویریں بناتی ہیں ، بیشتر اس لئے کہا ہے کہ بعض اشعار نے یا تو میرے احساس پر کوئی تصویر نہیں بنائی یا شاعر کے شعر نے کوئی تصویر بنانے ہی نہیں دی۔جیسے ذیل کے شعر میں ہوا کا سر جھکا کر چلنا ایک ایسی تصویر ہے جو مجرد مشاہدے کی زد میں بھی نہیں آرہی۔

سرجھکائے ہوئے یوں اب کے ہوا چلتی ہے

جیسے وعدوں سے کوئی شخص مکر جاتا ہے

کیا خبر تخلیق کار کے پاس ہوا کا سر جھکا کر چلنے کا بھی جواز ہو۔میں اس کی وضاحت یا اپنا عجز شاعر پر چھوڑتا ہوں لیکن میں اس طرز کی علامت کے حق میں یہی کہوں گا کہ جو علامت تخلیق کار سے رجوع کی ضرورت کو زندہ کرے وہ علامت خود زندہ نہیں ہوتی ۔

لیکن ایسے شعر بہت کم ہیں جو اپنے ابلاغ کے لئے شاعر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔مجموعی طور پر شاعر کے ہاں خوبصورت علامت کا وافر مواد موجود ہے ۔

فیروز شاہ کی نظم بھی بڑی جاندار ہے ۔میرے نزدیک شاعرِ موصوف بنیادی طور پر نثر کے آدمی ہیں ۔اُن کی خوبسورت نثر میں اپنی ایک شعریت ہے۔اور نظم میں اس خوبی کا اندازہ غزل سے کہیں زیادہ سہولت سے لگایا جا سکتا ہے۔کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے:

عجب دنیا ہے

یا میں خود عجب ہوں

عجوبوں کے جہاں میں کوئی سوچے ، کوئی تو سمجھے

(گلِ زرد کا درد)

میں اس دوزخ کنارے بیٹھا اکثر سوچتا ہوں

اچانک رخ بدلتے موسموں کا راز کیا ہے

اسی لمحے مرے اندر سے کوئی بولتا ہے

کہ اک حرفِ دعا

فیروز!تم سے کھو گیا ہے!!!

(بارشوں سے آندھےوں تک)

سبب یہ ہے

کہ میں نے آج تک خود کو کبھی تنہا نہیں پایا

مرے ہمراہ میرے خواب رہتے ہیں

مرے افکار میرے ساتھ محوِ گفتگو رہتے ہیں، اور مجھ کو

کبھی عصرِ رواں کے جبر کا احساس تک ہونے نہیں دیتے

خیالوں کی رفاقت بھی بشارت سے کوئی کم تو نہیں

سو میں

کبھی تنہا نہیں ہوتاکبھی تنہا نہیں ہوتا!!

(تنہائی اور پروائی)

خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ 256صفحات کے اس شعری مجموعے کی قیمت 200روپے ہے۔اس کی اشاعت کا اہتمام مثال پبلشرز فیصل آباد نے کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭

نام کتاب : اُداس کیوں ہو

شاعر:تصور اقبال

تعارف:جان عالم

حلقہ حروفِ احباب لاہور کے زیرِ اہتمام تصور اقبال کا شعری مجموعہ ”اداس کیوں ہو“شائع ہوا۔اس غزلیہ مجموعے کے آغاز میں جناب سلطان رشک صاحب نے”تصور عرش پر ہے“کے عنوان سے شاعر کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے یوں کہا ہے کہ

تصور اقبال کو شاعری کا شوق ، ذوق اور شعور مبداءفیاض سے ملا ہے۔گویا اُس کی شاعری خودرو ہے اور باطن سے ظہور پذیر ہو رہی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا خارج سے یا ظاہر سے تعلق نہیں۔ہماری رائے میں وہ داخلی اور خارجی کیفیات کے امتزاج سے اپنے شعر کی آبیاری کرتا ہے۔

تصور اقبال کو ناقدین کے خوبصورت اور مانوس جملوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔کچھ شعر پڑھیے

:کئی سال سے طاقچے میں پڑے تھے

وہی کھوٹے سکے مرے کام آئے

مجھے تم بے زباں مت جانیے گا

زباں رکھتی ہے ہر دیوار گھر کی

وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن ٹھیک سے کہہ نہیں پا رہا۔اُس کے پاس کچھ ہے ضرور جو اس کے کسی پہلے کسی دوسرے مصرعے سے کھلنا چاہتا ہے لیکن کبھی پہلا ، کبھی دوسرا مصرع اُس کہے کو روک دیتا ہے ، اُس کو ابلاغ تک پہنچنے نہیں دیتا۔یہ اُن شعروں میں ہوا ہے جن شعروں کی پرتیں کھلنے کا امکان ہے ، جن میں تہہ داری ، پرکاری یا اندر کی کسی بات کے امکان کاگمان ہوتا ہے۔کتاب میں دوسرے اشعار بھی ہیں جن میں شاعر نے جوکہناچاہا وہ برملا کہہ دیا۔

ترک تُو نے نہ کی مےکشی جان لے

موت بن جائے گی زندگی جان لے

کتاب سے بعض خوبصورت مصرعے ملاحظہ کیجئے:

٭اور پیاسا رہا حسرتوں کا شجر

٭رات بھر شمع جلی

٭ہماری خاکِ پا ملتی رہے گی

٭تُو مجھ کو آزاد نہ کر

٭جانے لگے تو آپ ہی انکار کر چلے

فلیپ اور دیباچے اور ناقدین کے نپے تلے اور سنے سنائے جملوں پر ایک بڑی تنقیدی نشست رکھی جاسکتی ہے۔مصلحت یا مہربانی ، مروت یا دوستداری نے اس میدان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔قاری کو غیرجانب داری سے کتاب کی طرف لانے کے راستے ہموار کرنا تو دُور کی بات انہیں کتاب سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جانے کب یہ رواج ، رواج پائے گا کہ کتاب آنے کے بعد کتاب پر تنقیدی تبصرے ہوا کریں گے ۔

تصور اقبال کا یہ شعر مجھے حاصلِ کتاب لگا:

ہم سفر سورج رہا

شام بھی آخر ڈھلی

تصور اقبال کی اس کتاب کو پڑھ کر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ابھی لوگ مایوس نہیں ہوئے، لوگ لکھنا چاہتے ہیں ، لو گ سوچنا چاہتے ہیں ۔تو ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ اس مشینی دور میں بھی شاعری کی طرف آنے والے آکر ہی دم لیں گے۔اور جب کوئی آجاتا ہے تو اُس کے آج پر اُس کے کل کی اچھی امید باندھی جا سکتی ہے۔

تصور اقبال کے پہلے شعری مجموعے کانام”محبت زندگی ہے“ تھا اور زیرِ مطالعہ مجموعہ ”اداس کیوں ہو“ کے بعد تیسرا مجموعہ ” ہاتھ میں جلتا دیپ“ کے نام سے جلد منظر عام پر آرہا ہے۔160صفحات کے اس زیرِ نظر مجموعے کی قیمت99روپے ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

نام کتاب: محبت اور خون

افسانہ نگار : پروفیسر زہیر کنجاہی

تعارف: جان عالم

زہیر کنجاہی ایک شاعر ، مضمون نگار ، ماہیا نگاراور افسانہ نگار کی حیثیت سے کئی کتابیں سامنے لا کر اپنی ادبی شناخت بنا چکے ہیں ۔کہیں اُن کے نعتیہ کلام سے قاری ثواب کمارہا ہے تو کہیں اُن کی شاعری سے حظ اٹھایا جا رہا ہے۔ادب سے زندگی بھر کی وابستگی اور اُن کا خلوص اور محبت ہے کہ وہ ذاتی خرچ پر کئی کتابوں کی طباعت کا بوجھ اٹھاتے آرہے ہیں۔اس خدمت پر وہ بجا طور پر داد و اعتراف کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

زیرِ مطالعہ کتاب ”محبت اور خون “ میں زہیر کنجاہی کے ہاں علامت، فکری گہرائی یا گاڑھا فلسفہ وغیرہ کم ہی نظر آتا ہے ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اُن کا افسانہ قارئین کے اُس دھڑے کے لئے ہے جو کسی علامت یا کنائے کو پسند نہیں کرتا ۔جو سیدھی طرح سیدھی سادی حقیقتوں کوسننا چاہتا ہے۔وہ حقیقتیں جو ہمارے گھروں میں روز افسانے بنتی ہیں ۔ہمارے بازار ، ہمارے شہر ، ہمارے رشتے ، ہماری اقدار اور ہمارے معاملات ، یہ عام آدمی کوتو بس اخبار کی خبریں دیتے ہیں لیکن جب کوئی تخلیق کار انہیں دیکھتا ہے تو وہ ان حقائق کوکبھی شعر کرتا ہے تو کبھی افسانہ کر دیتا ہے۔ افضل راز صاحب فلیپ پر کہتے ہیں؛

زہیر کنجاہی کی کہانیاں ہمارے معاشرے کے چلتے پھرتے وہ کردار ہیں جنہیں ہم روز دیکھتے اور اُن کے بارے میں سنتے ہیں مگر نظر انداز کر دیتے ہیں۔زہیر نے ان کو بڑے خوبصورت انداز میں قرطاس کی زینت بنایا ہے۔

اسے خوبی کہیے یا خامی کہ زہیر کنجاہی کے افسانوں کا اختتامیہ (end) اتنا مکمل اور وضاحتی ہوتا ہے کہ قاری کا اس سے آگے سوچنا ممکن نہیں رہتا۔زہیر کنجاہی کا یہ انداز کتاب کے آخری افسانے ”ابو آئے ابو آئے“کے اختتامیہ پیراگراف سے لگایا جا سکتا ہے۔

حمیرا کی وفات پر حمیرا کا باپ جتنا رویا اتنا وہ کبھی زندگی میں نہیں رویا تھا۔روتا رہا اور دہائی دیتا رہا۔لوگو!بہن کو رشتہ نہ دینا ، بہن کو رشتہ نہ دینا، اپنوں کو رشتہ نہ دینا!حمیرا کی ماں تو پاگل ہو گئی تھی۔اس نے کئی دفعہ قبرستان میں حمیرا کی قبر کھود کر حمیرا کو نکالنے کا جنونی عمل بھی کیا اور اسی جنون کی حالت میں تین ماہ بعد حمیرا سے جا ملی۔

بیس مختصرافسانوں‏‏( short stories) پر مشتمل زہیر کنجاہی کا افسانوی مجموعہ”محبت اور خو ن “خوبصورت ٹائیٹل کے ساتھ 160صفحات پر مشتمل ہے ۔اسے روزن پبلشرز گجرات نے طباعت کے زیور سے آراستہ کیا۔کتاب کی قیمت200 روپے ہے جو نسبتاً زیادہ معلوم ہوتی ہے۔